(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، عن حصين بن عبد الرحمن ، ومغيرة الضبي ، عن مجاهد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: زوجني ابي امراة من قريش، فلما دخلت علي جعلت لا انحاش لها، مما بي من القوة على العبادة من الصوم والصلاة، فجاء عمرو بن العاص إلى كنته، حتى دخل عليها، فقال لها: كيف وجدت بعلك؟ قالت: خير الرجال، او كخير البعولة، من رجل لم يفتش لنا كنفا، ولم يعرف لنا فراشا! فاقبل علي، فعذمني وعضي بلسانه، فقال: انكحتك امراة من قريش ذات حسب، فعضلتها، وفعلت وفعلت! ثم انطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فشكاني، فارسل إلي النبي صلى الله عليه وسلم، فاتيته، فقال لي:" اتصوم النهار؟" قلت: نعم، قال:" وتقوم الليل؟" قلت: نعم، قال:" لكني اصوم وافطر، واصلي وانام، وامس النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني"، قال:" اقرإ القرآن في كل شهر"، قلت: إني اجدني اقوى من ذلك، قال:" فاقراه في كل عشرة ايام"، قلت: إني اجدني اقوى من ذلك، قال احدهما: إما حصين وإما مغيرة، قال:" فاقراه في كل ثلاث"، قال: ثم قال:" صم في كل شهر ثلاثة ايام"، قلت: إني اقوى من ذلك، قال: فلم يزل يرفعني حتى قال:" صم يوما وافطر يوما، فإنه افضل الصيام، وهو صيام اخي داود صلى الله عليه وسلم"، قال حصين في حديثه: ثم قال صلى الله عليه وسلم:" فإن لكل عابد شرة، ولكل شرة فترة، فإما إلى سنة، وإما إلى بدعة، فمن كانت فترته إلى سنة، فقد اهتدى، ومن كانت فترته إلى غير ذلك، فقد هلك"، قال مجاهد: فكان عبد الله عمرو حيث ضعف وكبر، يصوم الايام كذلك، يصل بعضها إلى بعض، ليتقوى بذلك، ثم يفطر بعد تلك الايام، قال: وكان يقرا في كل حزبه كذلك، يزيد احيانا وينقص احيانا، غير انه يوفي العدد، إما في سبع، وإما في ثلاث، قال: ثم كان يقول بعد ذلك: لان اكون قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي مما عدل به او عدل، لكني فارقته على امر اكره ان اخالفه إلى غيره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَمَغِيرَةَ الضَّبَّيَّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً مَنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيَّ جَعَلْتُ لا أَنْحَاشِ لهَا، ممَّا بِي مِنَ الْقُوَّةِ عَلَى الْعِبَادَةِ مِنَ الصَّوْمِ وِالصَّلاة، فَجَاءَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى كَنَّتِهِ، حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهَا: كَيْفَ وَجَدْتِ بَعْلكِ؟ قَالَتْ: خَيْرَ الرَّجَالِ، أَوْ كَخَيْرِ الْبُعُولَةِ، مِنْ رَجُلِ لَمْ يُفَتَّشْ لَنَا كَنَفاً، وَلَمْ يَعْرِفْ لَنَا فِرَاشاً! فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَعَذَمَنِي وَعَضَّيِ بِلِسَانِهِ، فَقَالَ: أَنْكَحْتُكَ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ، فَعَضَلْتَهَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَانِي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فّأَتَيْتُهُ، فَقَالَ لِي:" أَتَصُومُ النَّهَارَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" وتَقُومُ اللَّيْل؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" لَكَّنِي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلَّي وَأَنَامُ، وَأَمَسُّ النَّسَاء، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنَّي"، قَالَ:" اقرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلَ ّشَهْرٍ"، قُلْتُ: إِنَّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلَّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ"، قُلْتُ: إِنَّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: إِمَّا حُصَيْنٌ وَإِمَّا مُغِيرَةُ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلَّ ثَلاَثٍ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" صُمْ فِي كُلَّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ"، قُلْتُ: إِنَّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يَرْفَعُنِي حَتَّى قَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَافْطرْ يَومًا، فَإِنَّهْ أَفْضَلُ الصيَّامٍ، وَهُوَ صِيَامُ أَخِي دَاوُد صَلَّى اللهُ عَلَيَهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ حُصَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: ثُمَّ قال صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإنَّ لكُلَّ عَابِدٍ شِرَّةً، وَلِكُلَّ شِرَّةً فَتْرةً، فَإِمَّا إِلَى سُنَّةٍ، وَإَمَّا إِلَى بدْعَةٍ، فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّةٍ، فَقَدْ اهْتَدَى، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ، فَقَدْ هَلَكَ"، قَالَ مُجَاهِدٌ: فَكَانَ عَبْدُ اللهِ عَمْرٍو حَيْثُ ضَعُفَ وَكَبِر، يَصُومُ الأيَّامَ كَذَلِكَ، يَصِلُ بَعْضَهَا إِلى بَعْضٍ، لِيَتَقَوَّى بَذَلِكَ، ثُمَّ يُفْطِرُ بِعَدَّ تِلْكَ الأيَّامِ، قَالَ: وَكَانَ يَقْرَأُ فِي كُلَّ حِزْبِهِ كَذَلِكَ، يزِيدُ أَحْيَانًا ويَنْقُصُ أَحْيَاناً، غَيْرَ أَنَّهُ يُوفِي الْعَدَدَ، إِمَّا فِي سَبْعٍ، وإِمَّا فِي ثَلاثَ، قَالَ: ثُمَّ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ: لان أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ علَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ أَوْ عَدَلَ، لَكِنَّي فَارَقْتُهُ عَلَى أَمْرٍ أَكْرَهُ أَنْ أُخَالِفَهُ إِلَى غَيْرِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے والد نے قریش کی ایک خاتون سے میری شادی کر دی میں جب اس کے پاس گیا تو عبادات میں مثلاً نماز، روزے کی طاقت اور شوق کی وجہ سے میں نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی، اگلے دن میرے والد سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے جواب دیا بہترین شوہر جس نے میرے سائے کی بھی جستجو نہ کی اور میرا بستر بھی نہ پہنچانا یہ سن کروہ میرے پاس آئے اور مجھے خوب ملامت کی اور زبان سے کاٹ کھانے کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے تیرا نکاح قریش کی ایک اچھے حسب نسب والی خاتون سے کیا اور تو نے اس لاپروائی کی اور یہ کیا اور یہ کیا۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری شکایت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا میں حاضر خدمت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کیا تم دن میں روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم رات میں قیام کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں کے پاس بھی جاتا ہوں جو شخص میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہر مہینے میں صرف ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندراس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تین راتوں میں مکمل کر لیا کرو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا میں اپنے اندراس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میں فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو۔ یہ بہترین روزہ ہے اور یہ میرے بھائی سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ رہا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر عابد میں ایک تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا ایک انقطاع ہوتا ہے یا سنت کی طرف یا بدعت کی طرف جس کا انقطاع سنت کی طرف تو وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جس کا انقطاع کسی اور چیز کی طرف ہو تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔
مجاہدرحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بوڑھے اور کمزور ہو گئے تب بھی اسی طرح یہ روزے رکھتے رہے اور بعض اوقات کئی کئی روزے اکٹھے کر لیتے تاکہ ایک سے دوسرے کو تقویت رہے پھر اتنے دنوں کے شمار کے مطابق ناغہ کر لیتے اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت میں بھی بعض اوقات کمی بیشی کر لیتے البتہ سات یا تین کا عددضرور پورا کرتے تھے اور بعد میں کہا کرتے تھے کہ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت کو قبول کر لیتا تو اس سے اعراض کر نے سے زیادہ مجھے پسند ہوتا لیکن اب مجھے یہ گوار انہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس حال میں جدائی ہوئی ہو اس کی خلاف ورزی کروں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف نسبت کر کے کوئی ایسی بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئےنیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب جوئے شطرنج اور چینا کی شراب کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا: ”ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عمرو بن الوليد مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روئے زمین پر جو آدمی بھی یہ کہہ لے لاالہ الا اللہ اللہ اکبر، سبحان اللہ الحمدللہ لاحول ولاقوۃ الاباللہ، یہ جملے اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، إلا أنه اختلف فى رفعه و وقفه، والموقوف أصح
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، قال ابي : حدثنا الحضرمي ، عن القاسم بن محمد ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا من المسلمين استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراة يقال لها: ام مهزول، وكانت تسافح، وتشترط له ان تنفق عليه، قال: فاستاذن رسول الله صلى الله علي وسلم، او ذكر له امرها؟ قال: فقرا عليه نبي الله صلى الله عليه وسلم: والزانية لا ينكحها إلا زان او مشرك سورة النور آية 3".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُليْمَانَ ، قَالَ أَبِي : حَدَّثَنَا الْحَضْرمِيُّ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّد ، عنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا منْ المُسْلِمِينَ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلّّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلَّمَ فِي امْرَأة يُقًالُ لَهَا: أُمُّ مَهْزُولٍ، وَكَانَتْ تُسَافِحُ، وَتَشْتَرِطُ لَهُ أَنْ تُنْفِقَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيِْ وَسَلَّمَ، أَوْ ذَكَرَ لَهُ أَمْرهَا؟ قَالَ: فَقَرَأَ عَلَيْهِ نَبِي اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " ام مہزول " نامی ایک عورت تھی جو بدکاری کر تی تھی اور بدکاری کر نے والے سے اپنے نفقہ کی شرط کروا لیتی تھی ایک مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے قریب ہونے کی اجازت لینے کے لئے آیا یا یہ کہ اس نے اس کا تذکر ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ زانیہ عورت سے وہی نکاح کرتا ہے جو خود زانی ہو یا مشرک ہو۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الحضرمي شيخ سليمان بن طرخان والد معتمر
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی جسمانی طور پر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرا بندہ خیر کے جتنے بھی کام کرتا ہے وہ ہر دن رات لکھتے رہو تا وقتیکہ وہ میری حفاظت میں رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن فضيل ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عبد الله بن عمرو ، قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام وقمنا معه فاطال القيام، حتى ظننا انه ليس براكع، ثم ركع، فلم يكد يرفع راسه، ثم رفع، فلم يكد يسجد، ثم سجد، فلم يكد يرفع راسه، ثم جلس، فلم يكد يسجد، ثم سجد، فلم يكد يرفع راسه، ثم فعل في الركعة الثانية كما فعل في الاولى، وجعل ينفخ في الارض، ويبكي، وهو ساجد في الركعة الثانية، وجعل يقول:" رب لم تعذبهم وانا فيهم؟ رب لم تعذبنا ونحن نستغفرك؟" فرفع راسه وقد تجلت الشمس، وقضى صلاته، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" ايها الناس، إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله عز وجل، فإذا كسف احدهما، فافزعوا إلى المساجد، فوالذي نفسي بيده لقد عرضت علي الجنة، حتى لو اشاء لتعاطيت بعض اغصانها، وعرضت علي النار، حتى إني لاطفئها خشية ان تغشاكم، ورايت فيها امراة من حمير، سوداء طوالة، تعذب بهرة لها تربطها، فلم تطعمها ولم تسقها، ولا تدعها تاكل من خشاش الارض، كلما اقبلت نهشتها، ورايت فيها اخا بني دعدع، ورايت صاحب المحجن متكئا في النار على محجنه، كان يسرق الحاج بمحجنه، فإذ علموا به قال: لست اسرقكم، إنما تعلق بمحجني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عََهْدِ رَسُولِ اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَهُ فَأَطَالَ الْقيَام، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لَيْسَ بِرَاكِعٍ، ثُمَّ رَكَعَ، فَلَمْ يكَدْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرَفَعُ رأْسَهًُ، ثُمَّ جَلَسَ، فَلَمْ يَكَدْ يَسَجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرَفْعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ فَعَلَ في الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ كَمَا فَعَلَ فِي الْأُولَى، وَجَعَلَ يَنْفُخُ في الْأَرْضِ، وَيَبْكِي، وَهُوَ سَاجِدٌ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانَيَةِ، وَجَعَلَ يَقُولُ:" رَبَّ لِمَ تُعَذَّبُهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ؟ رَبَّ لِمَ تُعَذَّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُكَ؟" فَرَفَعَ رَأْسَهُ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ، وَقَضَى صَلَاتَهُ، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مَنْ آيَاتِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِذَا كَسَفَ أَحَدُهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الْمَسَاجِدِ، فَوَالَّذي نَفْسَي بِيَدِهِ لَقَدْ عرضت عَلَيَّ الْجَنَّةُ، حَتَّى لَوْ أَشَاءُ لَتَعَاطَيْتُ بَعْضَ أَغْصَانِهَا، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، حَتَّى إِنَّي لَأُطْفئُهَا خَشْيَةَ أَنْ تَغْشَاكُمْ، وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ حَمْيَر، سَوْدَاءَ طُوَالَةً، تُعَذَّبُ بِهِرَّةً لَهَا تَرْبِطُهَا، فَلمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقْهَا، وَلَا تَدَعُهَا تَأْكُلُ مَنْ خَشَاشِ الْأرْضِ، كُلَّمَا أَقْبَلَتْ نَهَشَتْهَا، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دَعْدَعٍ، وَرَأَيْتُ صَاحبَ الْمحْجَنِ مُتَّكئاً فِي النَّارِ عَلَى مِحْجَنِهِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بَمَحْجَنِهِ، فَإِذ عَلِمُوا بِهِ قَالَ: لَسْتُ أَسْرِقُكُمْ، إِنَّما تَعَلَّقّ بِمِحًجَنِي".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع نہیں کر یں گے پھر رکوع کیا تو رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدے میں جاتے ہوئے نہ لگے سجدے میں چلے گئے تو ایسا لگا کہ سجدے سے سر نہیں اٹھائیں گے پھر بیٹھے تو یوں محسوس ہوا کہ اب سجدہ نہیں کر یں گے پھر دوسرا سجدہ کیا تو اس سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر پھونکتے جاتے تھے اور دوسری رکعت کے سجدے میں یہ کہتے جاتے تھے کہ پروردگار تو میری موجودگی میں انہیں عذاب دے گا؟ پروردگار ہماری طلب بخشش کے باوجود تو ہمیں عذاب دے گا؟ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل فرمائی اور اللہ کی حمد وثناء کر نے کے بعد فرمایا: ”۔ لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو گہن لگ جائے تو مسجدوں کی طرف ڈورو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور اسے میرے اتناقریب کر دیا گیا کہ اگر میں اس کی کسی ٹہنی کو پکڑنا چاہتا تو پکڑ لیتا اسی طرح جہنم کو بھی میرے سامنے پیش کیا گیا اور اسے میرے اتنا قریب کر دیا گیا کہ میں اسے بجھانے لگا اس خوف سے کہ کہیں وہ تم پر نہ آپڑے اور میں نے جہنم میں قبیلہ حمیر کی ایک عورت کو دیکھاجو سیاہ رنگت اور لمبے قد کی تھی اسے اس کی ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا نہ خودا سے کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی وہ عورت جب بھی آگے بڑھتی تو جہنم میں وہی بلی اسے ڈستی اور اگر پیچھے ہٹتی تو اسے پیچھے سے ڈستی نیز میں نے وہاں بنو دعدع کے ایک آدمی کو بھی دیکھا اور میں نے لاٹھی والے کو بھی دیکھاجو جہنم میں اپنی لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے تھا یہ شخص اپنی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا اور جب حاجیوں کو پتہ چلتا تو کہہ دیتا کہ میں نے اسے چرایا تھوڑی ہے یہ چیز تو میری لاٹھی کے ساتھ چپک کر آگئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا معمر ، حدثنا ابن شهاب ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا على راحلته بمنى، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الحلق قبل الذبح، فحلقت قبل ان اذبح؟ قال:" اذبح ولا حرج"، ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الذبح قبل الرمي، فذبحت قبل ان ارمي؟ فقال:" ارم ولا حرج"، قال: فما سئل عن شيء قدمه رجل قبل شيء، إلا قال:" افعل ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عَلَى رَاحِلَتِهِ بِمِنًى، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُرَى أَنَّ الْحَلْقَ قَبْلَ الذَّبْحِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ:" اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُرَى أَنَّ الذَّبْحَ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ فَقَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قَدَّمَهُ رَجُلٌ قَبْلَ شَيْءٍ، إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروالیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاکر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں عدل و انصاف کر نے والے قیامت کے دن اپنے اس عدل و انصاف کی برکت سے رحمان کے سامنے موتیوں کے منبر پر جلوہ افروز ہوں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے میری طرف سے آگے پہنچادیا کرو خواہ ایک آیت ہی ہو بنی اسرائیل کی باتیں بھی ذکر کر سکتے ہو کوئی حرج نہیں اور جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لینا چاہئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن ابي عدي ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن الحارث ، عن ابي كثير ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الظلم ظلمات يوم القيامة، وإياكم والفحش، فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش، وإياكم والشح، فإن الشح اهلك من كان قبلكم، امرهم بالقطيعة، فقطعوا، وامرهم بالبخل، فبخلوا، وامرهم بالفجور، ففجروا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: فقام رجل، فقال: يا رسول الله، اي الإسلام افضل؟ قال:" ان يسلم المسلمون من لسانك ويدك"، فقام ذاك او آخر، فقال: يا رسول الله، اي الهجرة افضل؟ قال:" ان تهجر ما كره ربك والهجرة هجرتان: هجرة الحاضر والبادي، فهجرة البادي ان يجيب إذا دعي، ويطيع إذا امر، والحاضر اعظمهما بلية، وافضلهما اجرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ، وَإِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ، فَقَطَعُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْبُخْلِ، فَبَخِلُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ، فَفَجَرُوا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِكَ"، فَقَامَ ذَاكَ أَوْ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَال:" أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ وَالْهِجْرَةُ هِجْرَتَانِ: هِجْرَةُ الْحَاضِرِ وَالْبَادِي، فَهِجْرَةُ الْبَادِي أَنْ يُجِيبَ إِذَا دُعِيَ، وَيُطِيعَ إِذَا أُمِرَ، وَالْحَاضِرِ أَعْظَمُهُمَا بَلِيَّةً، وَأَفْضَلُهُمَا أَجْرًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت کے دن ظلم اندھیوں کی صورت میں ہو گا۔ بےحیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اللہ کو بےتکلف یا بتکلف کسی نوعیت کی بےحیائی پسند نہیں بخل سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا اسی بخل نے انہیں قطع رحمی کا راستہ دکھایا سو انہوں نے رشتے ناطے توڑ دئیے اسی بخل نے انہیں اپنی دولت اور چیزیں اپنے پاس سمیٹ کر رکھنے کا حکم دیا سوا نہوں نے ایساہی کیا اسی بخل نے انہیں گناہوں کا راستہ دکھایا سو وہ گناہ کر نے لگے۔
اسی دوران ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ دوسرے مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں ایک اور آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ! کون سی ہجرت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم ان چیزوں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناگوار گزریں اور ہجرت کی دو قسمیں ہیں شہری کی ہجرت اور دیہاتی کی ہجرت دیہاتی کی ہجرت تو یہ ہے کہ جب اسے دعوت ملے تو قبول کر لے اور جب حکم ملے تو اس کی اطاعت کرے اور شہری کی آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چالیس نیکیاں جن میں سے سب سے اعلیٰ نیکی بکر ی کا تحفہ ہے ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک نیکی پر اس کے ثواب کی امید اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے عمل کر لے اللہ اسے جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رجل: يا رسول الله، حلقت قبل ان ارمي؟ قال:" ارم ولا حرج"، وقال: مرة قبل ان اذبح؟ فقال:" اذبح ولا حرج"، قال: ذبحت قبل ان ارمي؟ قال:" ارم ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، وَقَالَ: مَرَّةً قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ فَقَالَ:" اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثناء میں) ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! میں نے رمی کر نے سے پہلے حلق کرو الیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يبايعه، قال: جئت لابايعك على الهجرة، وتركت ابوي يبكيان، قال:" فارجع إليهما، فاضحكهما كما ابكيتهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايِعُهُ، قَالَ: جِئْتُ لِأُبَايِعَكَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، قَالَ:" فَارْجِعْ إِلَيْهِمَا، فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہجرت پر آپ سے بیعت کر نے کے لئے آیاہوں اور (میں نے بڑی قربانی دی ہے کہ) اپنے والدین کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ اور جیسے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، سمعت عمرا ، اخبرني عمرو بن اوس ، سمعه من عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" احب الصيام إلى الله صيام داود، واحب الصلاة إلى الله صلاة داود، كان ينام نصفه، ويقوم ثلثه، وينام سدسه، وكان يصوم يوما ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، سَمِعْتُ عَمْرًا ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ ، سَمِعَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَهُ، وَيَقُومُ ثُلُثَهُ، وَيَنَامُ سُدُسَهُ، وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے نزدیک روزہ رکھنے کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ سیدنا داؤدعلیہ السلام کا ہے اسی طرح ان کی نماز ہی اللہ سب سے زیادہ پسند ہے وہ آدھی رات تک سوتے تھے تہائی رات تک قیام کرتے تھے اور چھٹاحصہ پھر آرام کرتے تھے اسی طرح ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو بن دينار ، عن عمرو بن اوس ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم:" المقسطون عند الله يوم القيامة على منابر من نور، عن يمين الرحمن عز وجل، وكلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم واهليهم وما ولوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُقْسِطُونَ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ، الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں عدل و انصاف کر نے والے قیامت کے دن اپنے اس عدل و انصاف کی برکت سے رحمان کے دائیں ہاتھ موتیوں کے منبر پر جلوہ افروز ہوں گے اور رحمان کے دونوں ہاتھ ہی سیدھے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، وكان على رحل وقال مرة: على ثقل النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له: كركرة، فمات، فقال:" هو في النار"، فنظروا فإذا عليه عباءة قد غلها، وقال مرة: او كساء قد غله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَكَانَ عَلَى رَحْلِ وَقَالَ مَرَّةً: عَلَى ثَقَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: كِرْكِرَةُ، فَمَاتَ، فَقَالَ:" هُوَ فِي النَّارِ"، فَنَظَرُوا فَإِذَا عَلَيْهِ عَبَاءَةٌ قَدْ غَلَّهَا، وَقَالَ مَرَّةً: أَوْ كِسَاءٌ قَدْ غَلَّهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سازو سامان کی حفاظت پر " کر کر ہ " نامی ایک آدمی مامور تھا اس کا انتقال ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنم میں ہے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے تلاش کیا تو اس کے پاس سے ایک عباء نکلی جو اس نے مال غنیمت سے چرائی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن ابي قابوس ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الراحمون يرحمهم الرحمن، ارحموا اهل الارض يرحمكم اهل السماء، والرحم شجنة من الرحمن، من وصلها، وصلته، ومن قطعها، بتته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي قَابُوسَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمْ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا أَهْلَ الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَالرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، مَنْ وَصَلَهَا، وَصَلَتْهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا، بَتَّتْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”رحم کر نے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے تم اہل زمین پر رحم کرو تم پر اہل سماء رحم کر یں گے رحم رحمان کی ایک شاخ ہے جو اسے جوڑتا ہے یہ اسے جوڑتا ہے اور جو اسے توڑتا ہے یہ اسے پاش پاش کر دیتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انسان کے گناہگار ہونے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کی روزی کا وہ ذمہ دارہو۔ (مثلاً ضعیف والدین اور بیوی بچے)
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پڑوسی کے متعلق سیدنا جبرائیل (علیہ السلام) مجھے مسلسل وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث قرار دے دیں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شراب کے برتنوں سے منع فرمایا: ”تو لوگوں نے عرض کیا کہ ہر آدمی کے پاس تو مشکیزہ نہیں ہے؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " مزفت " کو چھوڑ کر مٹکے کی اجازت دے دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خلتان من حافظ عليهما، ادخلتاه الجنة وهما يسير، ومن يعمل بهما قليل"، قالوا: وما هما يا رسول الله؟ قال:" ان تحمد الله وتكبره وتسبحه في دبر كل صلاة مكتوبة عشرا عشرا، وإذا اتيت إلى مضجعك تسبح الله وتكبره وتحمده مائة مرة، فتلك خمسون ومائتان باللسان، والفان وخمس مائة في الميزان، فايكم يعمل في اليوم والليلة الفين وخمس مائة سيئة؟" قالوا: كيف من يعمل بها قليل؟ قال:" يجيء احدكم الشيطان في صلاته، فيذكره حاجة كذا وكذا، فلا يقولها، وياتيه عند منامه، فينومه، فلا يقولها"، قال: ورايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقدهن بيده.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلَّتَانِ مَنْ حَافَظَ عَلَيْهِمَا، أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ وَهُمَا يَسِيرٌ، وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ"، قَالُوا: وَمَا هُمَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَنْ تَحْمَدَ اللَّهَ وَتُكَبِّرَهُ وَتُسَبِّحَهُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ عَشْرًا عَشْرًا، وَإِذَا أَتَيْتَ إِلَى مَضْجَعِكَ تُسَبِّحُ اللَّهَ وَتُكَبِّرُهُ وَتَحْمَدُهُ مِائَةَ مَرَّةٍ، فَتِلْكَ خَمْسُونَ وَمِائَتَانِ بِاللِّسَانِ، وَأَلْفَانِ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ، فَأَيُّكُمْ يَعْمَلُ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ أَلْفَيْنِ وَخَمْسَ مِائَةِ سَيِّئَةٍ؟" قَالُوا: كَيْفَ مَنْ يَعْمَلُ بِهَا قَلِيل؟ قَالَ:" يَجِيءُ أَحَدَكُمْ الشَّيْطَانُ فِي صَلَاتِهِ، فَيُذَكِّرُهُ حَاجَةَ كَذَا وَكَذَا، فَلَا يَقُولُهَا، وَيَأْتِيهِ عِنْدَ مَنَامِهِ، فَيُنَوِّمُهُ، فَلَا يَقُولُهَا"، قَالَ: وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهُنَّ بِيَدِه.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو خصلتیں جنت میں پہنچا دیتی ہیں بہت آسان ہیں اور عمل میں بہت تھوڑی ہیں صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تو یہ کہ ہر فرض نماز کے بعد دس دس مرتبہ الحمدللہ اللہ اکبر سبحان اللہ کہہ لیا کرو اور دوسرا یہ کہ جب اپنے بستر پر پہنچو تو سو مرتبہ سبحان للہ اللہ اکبر اور الحمدللہ کہہ لیا کرو، پانچوں نمازوں اور رات کے اس عدد کو ملا کر زبان سے تو یہ کلمات ڈھائی سو مرتبہ ادا ہوں گے لیکن میزان عمل میں یہ ڈھائی ہزار کے برابر ہوں گے اب تم میں سے کون شخص ایسا ہے جو دن رات میں دھائی ہزار گناہ کرتا ہو گا؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کلمات عمل کر نے والے کے لئے تھوڑے کیسے ہوئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان دوران نماز آ کر اسے مختلف کام کرواتا ہے اور وہ ان میں الجھ کر یہ کلمات نہیں کہہ پاتا اسی طرح سوتے وقت اس کے پاس آتا ہے اور اسے یوں سلا دیتا ہے اور وہ ان اس وقت بھی یہ کلمات نہیں کہہ پاتا، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ان کلمات کو اپنی انگلیوں پر گن کر پڑھا کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الرحمن بن زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: إني لاسير مع معاوية في منصرفه من صفين، بينه وبين عمرو بن العاص، قال: فقال عبد الله بن عمرو بن العاص : يا ابت، ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعمار:" ويحك يا ابن سمية! تقتلك الفئة الباغية؟" قال: فقال عمرو لمعاوية: الا تسمع ما يقول هذا؟ فقال معاوية: لا تزال تاتينا بهنة، انحن قتلناه؟! إنما قتله الذين جاءوا به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: إِنِّي لَأَسِيرُ مَعَ مُعَاوِيَةَ فِي مُنْصَرَفِهِ مِنْ صِفِّينَ، بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : يَا أَبَتِ، مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَمَّارٍ:" وَيْحَكَ يَا ابْنَ سُمَيَّةَ! تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ؟" قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو لِمُعَاوِيَةَ: أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ هَذَا؟ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَا تَزَالُ تَأْتِينَا بِهَنَةٍ، أَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟! إِنَّمَا قَتَلَهُ الَّذِينَ جَاءُوا بِهِ.
سیدنا بن حارث کہتے ہیں کہ جب سیدہ امیر معاویہ و رضی اللہ عنہ جنگ صفین سے فارغ ہو کر آ رہے تھے تو میں ان کے اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے درمیان چل رہا تھا سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے والد سے کہنے لگے اباجان کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا کہ افسوس! اے سمیہ کے بیٹے تجھے ایک باغی گروہ قتل کر دے گا؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ اس کی بات سن رہے ہیں؟ سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے تم ہمیشہ ایسی ہی پریشان کن خبریں لے آنا کیا ہم نے انہیں شہید کیا ہے؟ انہوں تو ان لوگوں نے ہی شہید کیا ہے جو انہیں لے کر آئے تھے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی امام کی بیعت کرے اور اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے جھگڑے کے لئے آئے تو دوسرے کی گردن اڑادو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي السفر ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: مر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن نصلح خصا لنا، فقال:" ما هذا؟" قلنا خصا لنا وهى، فنحن نصلحه، قال: فقال:" اما إن الامر اعجل من ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصْلِحُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" قُلْنَا خُصًّا لَنَا وَهَى، فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: فَقَالَ:" أَمَا إِنَّ الْأَمْرَ أَعْجَلُ مِنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا ہم اس وقت اپنی جھونپڑی صحیح کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہو رہا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہماری جھونپڑی کچھ کمزور ہو گئی ہے اب اسے ٹھیک کر رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”معاملہ اس سے زیادہ جلدی کا ہے (موت کا کسی کو علم نہیں)
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة ، قال: انتهيت إلى عبد الله بن عمرو بن العاص ، وهو جالس في ظل الكعبة، فسمعته يقول: بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، إذ نزل منزلا، فمنا من يضرب خباءه، ومنا من هو في جشره، ومنا من ينتضل، إذ نادى مناديه الصلاة جامعة، قال: فاجتمعنا، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخطبنا، فقال:" إنه لم يكن نبي قبلي إلا دل امته على ما يعلمه خيرا لهم، ويحذرهم ما يعلمه شرا لهم، وإن امتكم هذه جعلت عافيتها في اولها، وإن آخرها سيصيبهم بلاء شديد وامور تنكرونها، تجيء فتن يرقق بعضها لبعض، تجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، ثم تجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه، ثم تنكشف، فمن سره منكم ان يزحزح عن النار، وان يدخل الجنة، فلتدركه موتته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليات إلى الناس الذي يحب ان يؤتى إليه، ومن بايع إماما، فاعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه ما استطاع، فإن جاء آخر ينازعه، فاضربوا عنق الآخر"، قال: فادخلت راسي من بين الناس، فقلت: انشدك بالله، آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فاشار بيده إلى اذنيه، فقال: سمعته اذناي، ووعاه قلبي، قال: فقلت: هذا ابن عمك معاوية، يعني يامرنا باكل اموالنا بيننا بالباطل، وان نقتل، انفسنا، وقد قال الله تعالى: يايها الذين آمنوا لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل سورة النساء آية 29، قال: فجمع يديه، فوضعهما على جبهته، ثم نكس هنية، ثم رفع راسه، فقال: اطعه في طاعة الله، واعصه في معصية الله عز وجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنَا، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا دَلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُحَذِّرُهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ شَدِيدٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ، تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ سَرَّهُ مِنْكُمْ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَأَنْ يُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا، فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ، فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ"، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ، فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَعْنِي يَأْمُرُنَا بِأَكْلِ أَمْوَالِنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَأَنْ نَقْتُلَ، أَنْفُسَنَا، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ سورة النساء آية 29، قَالَ: فَجَمَعَ يَدَيْهِ، فَوَضَعَهُمَا عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ نَكَسَ هُنَيَّةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچاوہ اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا ہم میں سے بعض لوگوں نے خیمے لگا لئے بعض چراگاہ میں چلے گئے اور بعض تیراندازی کر نے لگے اچانک ایک منادی نداء کر نے لگا کہ نماز تیار ہے ہم لوگ اسی وقت جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دوران خطبہ ارشاد فرمایا: ”کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کر ام (علیہم السلام) گزرے ہیں وہ اپنی امت کے لئے جس چیز کو خیر سمجھتے تھے انہوں نے وہ سب چیزیں اپنی امت کو بتادیں اور جس چیز کو شر سمجھتے تھے اس سے انہیں خبردار کر دیا اور اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھی گئی ہے اور اس امت کے آخری لوگوں کو سخت مصائب اور عجیب و غریب امور کا سامنا ہو گا ایسے فتنے رو نما ہوں گے جو ایک دوسرے کے لئے نرم کر دیں گے مسلمان پر آزمائش آئے گی تو وہ کہے گا کہ یہ میری موت کا سبب بن کر رہے گی اور کچھ عرصے بعد وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچالیا جائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے تو اسے اس حال میں موت آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کو وہ دے جو خود لینا پسند کرتا ہو اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا آدمی اس سے جھگڑے کے لئے آئے تو دوسرے کی گردن اڑادو۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر لوگوں میں گھسا کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتاہوں کیا یہ بات آپ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”میرے دونوں کانوں نے یہ بات سنی اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کے چچازادبھائی (وہ سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے گمان کے مطابق مرادلے رہا تھا جب کہ حقیقت اس کے برخلاف تھی) ہمیں غلط طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے اور اپنے آپ کو قتل کر نے کا حکم دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے نہ کھاؤ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ جمع کر کے پیشانی پر رکھ لئے اور تھوڑی دیر کو سر جھکالیا پھر سر اٹھا کر فرمایا: ”کہ اللہ کی اطاعت کے کاموں میں ان کی بھی اطاعت کرو اور اللہ کی معصیت کے کاموں میں ان کی بھی نافرمانی کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےتکلف یا بتکلف بےحیائی کر نے والے نہ تھے اور وہ فرمایا: ”کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا يحيى بن ابي إسحاق ، حدثني عبدة بن ابي لبابة ، عن حبيب بن ابي ثابت ، حدثني ابو عبد الله مولى عبد الله بن عمرو، حدثنا عبد الله بن عمرو بن العاص ونحن نطوف بالبيت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من ايام احب إلى الله العمل فيهن من هذه الايام"، قيل: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال:" ولا الجهاد في سبيل الله، إلا من خرج بنفسه وماله، ثم لم يرجع حتى تهراق مهجة دمه"، قال: فلقيت حبيب بن ابي ثابت، فسالته عن هذا الحديث، فحدثني بنحو من هذا الحديث، قال: وقال عبدة: هي الايام العشر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَنَحْنُ نَطُوفُ بِالْبَيْتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ"، قِيلَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا مَنْ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ حَتَّى تُهَرَاقَ مُهْجَةُ دَمِهِ"، قَالَ: فَلَقِيتُ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي بِنَحْوٍ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدَةُ: هِيَ الْأَيَّامُ الْعَشْرُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران طواف یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان ایام کے علاوہ کسی اور دن میں اللہ کو نیک اعمال اتنے زیادہ نہیں جتنے ان ایام میں ہیں کسی نے پوچھا جہاد فی سبیل اللہ ہی نہیں فرمایا: ”ہاں جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور واپس نہ آسکا یہاں تک کہ اس کا خون بہادیا گیا راوی کہتے ہیں کہ " ان ایام " سے مرادعشرہ ذی الحجہ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو عبد الله مولي عبد الله بن عمرو مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو پھر مسلسل کمی کرتے ہوئے سات دن تک آگئے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر سوال پوچھا یا رسول اللہ!! صور کیا چیز ہے؟ فرمایا: ”ایک سینگ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، ان عبد الله بن عمرو قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف انت إذا بقيت في حثالة من الناس؟" قال: قلت: يا رسول الله، كيف ذلك؟ قال:" إذا مرجت عهودهم واماناتهم، وكانوا هكذا"، وشبك يونس بين اصابعه، يصف ذاك، قال: قلت: ما اصنع عند ذاك يا رسول الله؟ قال:" اتق الله عز وجل، وخذ ما تعرف، ودع ما تنكر، وعليك بخاصتك، وإياك وعوامهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ؟" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" إِذَا مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ، وَكَانُوا هَكَذَا"، وَشَبَّكَ يُونُسُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، يَصِفُ ذَاكَ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَصْنَعُ عِنْدَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" اتَّقِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَخُذْ مَا تَعْرِفُ، وَدَعْ مَا تُنْكِرُ، وَعَلَيْكَ بِخَاصَّتِكَ، وَإِيَّاكَ وَعَوَامَّهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تمہارا اس وقت کیا بنے گا جب تم بیکار اور کم تر لوگوں میں رہ جاؤ گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیسے ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وعدوں اور امانتوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور لوگ اس طرح ہو جائیں (راوی نے تشبیک کر کے دکھائی) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس وقت میرے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ”اللہ سے ڈرنا نیکی کے کام اختیار کرنا برائی کے کاموں سے بچنا اور خواص کے ساتھ میل جول رکھنا عوام سے اپنے آپ کو بچانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى يعني ابن سعيد ، عن شعبة ، حدثني عمرو بن مرة ، سمعت رجلا في بيت ابي عبيدة، انه سمع عبد الله بن عمرو ، يحدث ابن عمر، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من سمع الناس بعمله، سمع الله به سامع خلقه، وصغره وحقره"، قال: فذرفت عينا عبد الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، سَمِعْتُ رَجُلًا فِي بَيْتِ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ سَمَّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ، سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ سَامِعَ خَلْقِهِ، وَصَغَّرَهُ وَحَقَّرَهُ"، قَالَ: فَذَرَفَتْ عَيْنَا عَبْدِ اللَّهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے عمل کے ذریعے لوگوں میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے یہ کہہ کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبيد الله بن الاخنس ، اخبرنا الوليد بن عبد الله ، عن يوسف بن ماهك ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت اكتب كل شيء اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم، اريد حفظه، فنهتني قريش، فقالوا: إنك تكتب كل شيء تسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم بشر، يتكلم في الغضب والرضا، فامسكت عن الكتاب، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال:" اكتب فوالذي نفسي بيده ما خرج مني إلا حق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، فَقَالُوا: إِنَّكَ تَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ، يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:" اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا خَرَجَ مِنِّي إِلَّا حَقٌّ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو چیزیں سن لیتا اسے لکھ لیتا تاکہ یاد کر سکوں مجھے قریش کے لوگوں نے اس سے منع کیا اور کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سنتے ہو سب لکھ لیتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک انسان بعض اوقات غصہ میں بات کرتے ہیں اور بعض اوقات خوشی میں ان لوگوں کے کہنے کے بعد میں نے لکھناچھوڑ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کر دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھ لیا کرو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
(حديث مرفوع) حدثني يحيى ، عن هشام املاه علينا، حدثني ابي ، سمعت عبد الله بن عمرو ، من فيه إلى في، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يترك عالما، اتخذ الناس رؤساء جهالا، فسئلوا، فافتوا بغير علم، فضلوا، واضلوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ أَمْلَاهُ عَلَيْنَا، حَدَّثَنِي أَبِي ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا، وَأَضَلُّوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے درمیان سے کھینچ لے گا بلکہ علماء کو اٹھا کر علم اٹھالے گا حتٰی کہ جب ایک عالم بھی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے اور انہیں سے مسائل معلوم کیا کر یں گے وہ علم کے بغیر انہیں فتویٰ دیں گے نتیجہ یہ ہو گا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر یں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا میں نے عرض کیا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصفر سے رنگے ہوئے دو کپڑے ان کے جسم پر دیکھے تو فرمایا: ”یہ کافروں کا لباس ہے اسے مت پہنا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حسين المعلم ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن ابي سبرة ، قال: كان عبيد الله بن زياد يسال عن الحوض، حوض محمد صلى الله عليه وسلم، وكان يكذب به، بعدما سال ابا برزة، والبراء بن عازب، وعائذ بن عمرو، ورجلا آخر، وكان يكذب به، فقال ابو سبرة: انا احدثك بحديث فيه شفاء هذا، إن اباك بعث معي بمال إلى معاوية، فلقيت عبد الله بن عمرو فحدثني مما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واملى علي، فكتبت بيدي، فلم ازد حرفا، ولم انقص حرفا حدثني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله لا يحب الفحش، او يبغض الفاحش والمتفحش". قال:" ولا تقوم الساعة حتى يظهر الفحش والتفاحش، وقطيعة الرحم، وسوء المجاورة، وحتى يؤتمن الخائن، ويخون الامين". وقال:" الا إن موعدكم حوضي، عرضه وطوله واحد، وهو كما بين ايلة، ومكة، وهو مسيرة شهر، فيه مثل النجوم اباريق، شرابه اشد بياضا من الفضة، من شرب منه مشربا، لم يظما بعده ابدا". فقال عبيد الله: ما سمعت في الحوض حديثا اثبت من هذا، فصدق به، واخذ الصحيفة، فحبسها عنده.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي سَبْرَةَ ، قَالَ: كَانَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ يَسْأَلُ عَنِ الْحَوْضِ، حَوْضِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يُكَذِّبُ بِهِ، بَعْدَمَا سَأَلَ أَبَا بَرْزَةَ، وَالْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، وَعَائِذَ بْنَ عَمْرٍو، وَرَجُلًا آخَرَ، وَكَانَ يُكَذِّبُ بِهِ، فَقَالَ أَبُو سَبْرَةَ: أَنَا أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ فِيهِ شِفَاءُ هَذَا، إِنَّ أَبَاكَ بَعَثَ مَعِي بِمَالٍ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو فَحَدَّثَنِي مِمَّا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمْلَى عَلَيَّ، فَكَتَبْتُ بِيَدِي، فَلَمْ أَزِدْ حَرْفًا، وَلَمْ أَنْقُصْ حَرْفًا حَدَّثَنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ، أَوْ يُبْغِضُ الْفَاحِشَ وَالْمُتَفَحِّشَ". قَالَ:" وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَظْهَرَ الْفُحْشُ وَالتَّفَاحُشُ، وَقَطِيعَةُ الرَّحِمِ، وَسُوءُ الْمُجَاوَرَةِ، وَحَتَّى يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنَ الْأَمِينُ". وَقَالَ:" أَلَا إِنَّ مَوْعِدَكُمْ حَوْضِي، عَرْضُهُ وَطُولُهُ وَاحِدٌ، وَهُوَ كَمَا بَيْنَ أَيْلَةَ، وَمَكَّةَ، وَهُوَ مَسِيرَةُ شَهْرٍ، فِيهِ مِثْلُ النُّجُومِ أَبَارِيقُ، شَرَابُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ الْفِضَّةِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ مَشْرَبًا، لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ أَبَدًا". فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: مَا سَمِعْتُ فِي الْحَوْضِ حَدِيثًا أَثْبَتَ مِنْ هَذَا، فَصَدَّقَ بِهِ، وَأَخَذَ الصَّحِيفَةَ، فَحَبَسَهَا عِنْدَهُ.
ابوسبرہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کے متعلق مختلف حضرات سے سوال کرتا تھا اور باوجودیکہ وہ سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ سوال پوچھ چکا تھا لیکن پھر بھی حوض کوثر کی تکذیب کرتا تھا ایک دن میں نے اس سے کہا کہ میں تمہارے سامنے ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جس میں اس مسئلے کی مکمل شفاء موجود ہے تمہارے والد نے ایک مرتبہ کچھ مال دے کر مجھے سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی انہوں نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو انہوں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی انہوں نے وہ حدیث مجھے املاء کروائی اور میں نے اسے اپنے ہاتھ سے کسی ایک حرف کی بھی کمی بیشی کے بغیر لکھا۔ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بےتکلف یا بتکلف کسی قسم کی بےحیائی کو پسند نہیں کرتا۔ اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ہر طرف بےحیائی عام نہ ہو جائے قطع رحمی غلط اور برا پڑوس عام نہ ہو جائے اور جب تک خائن کو امین اور امین کو خائن نہ سمجھاجانے لگے۔ اور فرمایا: ”یاد رکھو تمہارے وعدے کی جگہ میرا حوض ہے جس کی چوڑائی اور لمبائی ایک جیسی ہے یعنی ایلہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک جو تقریباً ایک ماہ مسافت بنتی ہے اس کے آبخورے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہو گا جو اس کا گھونٹ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ عبیداللہ بن زیاد یہ حدیث سن کر کہنے لگا کہ حوض کوثر کے متعلق میں نے اس سے زیادہ مضبوط حدیث اب تک نہیں سنی چنانچہ وہ اس کی تصدیق کر نے لگا اور وہ صحیفہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبى سبرة، فإنه مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا عامر ، قال: جاء رجل إلى عبد الله بن عمرو ، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے کہ جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، عن ابن ابي مليكة ، عن يحيى بن حكيم بن صفوان ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: جمعت القرآن، فقرات به في كل ليلة، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إني اخشى ان يطول عليك زمان ان تمل، اقراه في كل شهر"، قلت: يا رسول الله، دعني استمتع من قوتي وشبابي، قال:" اقراه في كل عشرين"، قلت: يا رسول الله، دعني استمتع من قوتي وشبابي، قال:" اقراه في كل عشر"، قلت: يا رسول الله، دعني استمتع من قوتي وشبابي، قال:" اقراه في كل سبع"، قلت: يا رسول الله، دعني استمتع من قوتي وشبابي، فابى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَكِيمِ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: جَمَعْتُ الْقُرْآنَ، فَقَرَأْتُ بِهِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَطُولَ عَلَيْكَ زَمَانٌ أَنْ تَمَلَّ، اقْرَأْهُ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ عِشْرِينَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشْرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، فَأَبَى.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قرآن کریم یاد کیا اور ایک میں سارا قرآن پڑھ لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا: ”مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد تم تنگ ہو گئے ہر مہینے میں ایک مرتبہ قرآن کریم پورا کر لیا کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئے اسی طرح تکرار ہوتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیس، دس اور سات دن کہہ کر رک گئے میں نے سات دن سے کم کی اجازت بھی مانگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن عجلان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى على بعض اصحابه خاتما من ذهب، فاعرض عنه، فالقاه واتخذ خاتما من حديد، فقال:" هذا شر، هذا حلية اهل النار"، فالقاه، فاتخذ خاتما من ورق، فسكت عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَأَلْقَاهُ وَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، فَقَالَ:" هَذَا شَرٌّ، هَذَا حِلْيَةُ أَهْلِ النَّارِ"، فَأَلْقَاهُ، فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَسَكَتَ عَنْهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اس نے وہ پھینک کر لوہے کی انگوٹھی بنوالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اس سے بھی بری ہے یہ تو اہل جہنم کا زیور ہے اس نے وہ پھینک کر چاندی کی انگوٹھی بنوالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرمایا: ”۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے روئے زمین پر اور آسمان کے سائے تلے ابوذر رضی اللہ عنہ زیادہ سچا آدمی کوئی نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عثمان بن عمير
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا عثمان بن حكيم ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، وقد ذهب عمرو بن العاص يلبس ثيابه ليلحقني، فقال ونحن عنده:" ليدخلن عليكم رجل لعين"، فوالله ما زلت وجلا، اتشوف داخلا وخارجا، حتى دخل فلان، يعني الحكم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ ذَهَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ يَلْبَسُ ثِيَابَهُ لِيَلْحَقَنِي، فَقَالَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ:" لَيَدْخُلَنَّ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ لَعِينٌ"، فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ وَجِلًا، أَتَشَوَّفُ دَاخِلًا وَخَارِجًا، حَتَّى دَخَلَ فُلَانٌ، يَعْنِي الْحَكَمَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میرے والد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کپڑے پہننے چلے گئے تھے تاکہ بعد میں مجھ سے مل جائیں اسی اثنا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے پاس ایک ملعون آدمی آئے گا واللہ مجھے تو مستقل دھڑکالگارہا اور میں اندرباہر برابر جھانک کر دیکھتا رہا (کہ کہیں میرے والد نہ ہوں) یہاں تک کہ حکم مسجد میں داخل ہوا (وہ مراد تھا)۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا الحسن بن عمرو ، عن ابي الزبير ، عن عبد الله بن عمرو ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا رايتم امتي تهاب الظالم ان تقول له إنك انت ظالم، فقد تودع منهم". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يكون في امتي خسف ومسخ وقذف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا رَأَيْتُمْ أُمَّتِي تَهَابُ الظَّالِمَ أَنْ تَقُولَ لَهُ إِنَّكَ أَنْتَ ظَالِمٌ، فَقَدْ تُوُدِّعَ مِنْهُمْ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَكُونُ فِي أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میری امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہے تو ان سے رخصت ہو گئی (ضمیر کی زندگی یا دعاؤں کی قبولیت) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بھی زمین میں دھنسائے جانے شکلیں مسخ کر دئیے جانے اور پتھروں کی بارش کا عذاب ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الزبير لم يسمع من عبد الله بن عمرو، وقال رسول الله: «يكون فى امتي خسف و مسخ وقذف» ، حسن لغيره، و إسناده ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، قال: كنت جالسا عند عبد الله بن عمرو ، فذكر عبد الله بن مسعود، فقال: إن ذاك لرجل لا ازال احبه ابدا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" خذوا القرآن عن اربعة: عن ابن ام عبد"، فبدا به،" وعن معاذ، وعن سالم مولى ابي حذيفة"، قال يعلى: ونسيت الرابع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَذُكِرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: إِنَّ ذَاكَ لَرَجُلٌ لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ أَبَدًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" خُذُوا الْقُرْآنَ عَنْ أَرْبَعَةٍ: عَنِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ"، فَبَدَأَ بِهِ،" وَعَنْ مُعَاذٍ، وَعَنْ سَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ"، قَالَ يَعْلَى: وَنَسِيتُ الرَّابِعَ.
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تذکر ہ کر نے لگے اور فرمایا: ”کہ کہ ایسا آدمی ہے جس میں ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چار آدمیوں سے قرآن سیکھو اور ان میں سب سے پہلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کاراوی کہتے ہیں کہ چوتھا نام میں بھول گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا فطر ، عن مجاهد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الرحم معلقة بالعرش، وليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا انقطعت رحمه وصلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّحِمَ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، وَلَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”رحم عرش کے ساتھ معلق ہے بدلہ دینے والا صلہ رحمی کر نے والے کے زمرے میں نہیں آتا اصل صلہ رحمی کر نے والا تو وہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس سے رشتہ توڑے تو وہ اس سے رشتہ جوڑے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن ناعم مولى ام سلمة، عن عبد الله بن عمرو ، قال: حججت معه، حتى إذا كنا ببعض طرق مكة رايته تيمم، فنظر حتى إذا استبانت، جلس تحتها، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت هذه الشجرة إذ اقبل رجل من هذا الشعب، فسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا رسول الله، إني قد اردت الجهاد معك، ابتغي بذلك وجه الله، والدار الآخرة، قال:" هل من ابويك احد حي؟" قال: نعم يا رسول الله، كلاهما، قال:" فارجع ابرر ابويك"، قال: فولى راجعا من حيث جاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ نَاعِمٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حَجَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ طُرُقِ مَكَّةَ رَأَيْتُهُ تَيَمَّمَ، فَنَظَرَ حَتَّى إِذَا اسْتَبَانَتْ، جَلَسَ تَحْتَهَا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ هَذَا الشِّعْبِ، فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ، أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:" هَلْ مِنْ أَبَوَيْكَ أَحَدٌ حَيٌّ؟" قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، كِلَاهُمَا، قَالَ:" فَارْجِعْ ابْرَرْ أَبَوَيْكَ"، قَالَ: فَوَلَّى رَاجِعًا مِنْ حَيْثُ جَاءَ.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام " ناعم " کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا جب ہم لوگ مکہ مکرمہ کے کسی راستے میں تھے تو وہ قصداً وارادۃً کسی چیز پر غور سے نظریں جمائے رہے جب وہ چیز واضح ہو گئی جو کہ ایک درخت تھا " تو وہ اس کے نیچے آ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے دیکھا ہے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس جانب سے ایک آدمی آیا اور سلام کر کے کہنے لگا یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ جہاد کے لئے جانا چاہتا ہوں اور میرا مقصد صرف اللہ کی رضاء حاصل کرنا اور آخرت کا ٹھکانہ حاصل کرنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں دونوں زندہ ہیں فرمایا: ”جاؤ اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو چنانچہ وہ جہاں سے آیا تھا وہیں چلا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا ابو حيان ، عن ابيه ، قال: التقى عبد الله بن عمرو ، وعبد الله بن عمر، ثم اقبل عبد الله بن عمر، وهو يبكي، فقال له القوم: ما يبكيك يا ابا عبد الرحمن؟ قال: الذي حدثني هذا قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يدخل الجنة إنسان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: الْتَقَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَن؟ قَالَ: الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِنْسَانٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ".
ابوحیان اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ملاقات ہوئی تھوڑی دیر بعد جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو وہ رو رہے تھے لوگوں نے ان سے پوچھا اے ابوعبدالرحمن آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: ”اس حدیث کی وجہ سے جو انہوں نے مجھ سے بیان کی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دے اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کی ماں کو گالی دے دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مالدار آدمی کے لئے یا کسی مضبوط اور طاقتور (ہٹے کٹے) آدمی کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي حيان ، عن ابي زرعة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تطلع الشمس من مغربها، وتخرج الدابة على الناس ضحى، فايهما خرج قبل صاحبه فالاخرى منها قريب، ولا احسبه إلا طلوع الشمس من مغربها"، يقول" هي التي اولا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَطْلُعُ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَتَخْرُجُ الدَّابَّةُ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، فَأَيُّهُمَا خَرَجَ قَبْلَ صَاحِبِهِ فَالْأُخْرَى مِنْهَا قَرِيبٌ، وَلَا أَحْسِبُهُ إِلَّا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا"، يقول" هِيَ الَّتِي أَوَّلًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے قریب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور دابۃ الارض کا خروج چاشت کے وقت ہو گا ان دونوں میں سے جو نشانی پہلے پوری ہو گئی دوسری بھی عنقریب پوری ہو جائے گی البتہ میرا خیال یہ ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی علامت قرار دیا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خطاء کسی کوڑے یا لاٹھی سے مارے جانے والے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں بھی ہوں گی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے نزدیک ایک روزہ رکھنے کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا ہے اسی طرح ان کی نماز ہی اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے وہ آدھی رات تک سوتے تھے تہائی رات تک قیام کرتے تھے اور چھٹاحصہ پھر آرام کرتے تھے اسی طرح ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھتا ہے اس نے اسے سمجھا نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے میرے جسم پر دیکھے تو فرمایا: ”یہ کافروں کا لباس ہے اسے اتاردو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا العوام ، حدثني اسود بن مسعود ، عن حنظلة بن خويلد العنزي ، قال: بينما انا عند معاوية، إذ جاءه رجلان يختصمان في راس عمار، يقول كل واحد منهما: انا قتلته، فقال عبد الله بن عمرو : ليطب به احدكما نفسا لصاحبه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" تقتله الفئة الباغية"، قال معاوية: فما بالك معنا؟! قال: إن ابي شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اطع اباك ما دام حيا ولا تعصه"، فانا معكم، ولست اقاتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، حَدَّثَنِي أَسْوَدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ خُوَيْلِدٍ الْعَنْزِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فِي رَأْسِ عَمَّارٍ، يَقُولُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : لِيَطِبْ بِهِ أَحَدُكُمَا نَفْسًا لِصَاحِبِهِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: فَمَا بَالُكَ مَعَنَا؟! قَالَ: إِنَّ أَبِي شَكَانِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَطِعْ أَبَاكَ مَا دَامَ حَيًّا وَلَا تَعْصِهِ"، فَأَنَا مَعَكُمْ، وَلَسْتُ أُقَاتِلُ.
حنظلہ بن خولید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا دو آدمی ان کے پاس ایک جھگڑا لے کر آئے ان میں سے ہر ایک کا دعوی یہ تھا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو اس نے شہید کیا ہے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تمہیں چاہئے ایک دوسرے کو مبارکباد دو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے پھر آپ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے فرمایا: ”کہ ایک مرتبہ میرے والد صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری شکایت کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تھا زندگی بھر اپنے باپ کی اطاعت کرنا اس کی نافرمانی نہ کرنا اس لے میں آپ کے ساتھ تو ہوں لیکن لڑائی میں شریک نہیں ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن ابي الزبير ، عن ابي العباس مولى بني الديل، عن عبد الله بن عمرو ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجال يجتهدون في العبادة اجتهادا شديدا، فقال" تلك ضراوة السلام وشرته، ولكل ضراوة شرة، ولكل شرة فترة، فمن كانت فترته إلى اقتصاد وسنة فلام ما هو، ومن كانت فترته إلى المعاصي، فذلك الهالك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ مَوْلَى بَنِي الدِّيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ يَجْتَهِدُونَ فِي الْعِبَادَةِ اجْتِهَادًا شَدِيدًا، فَقَالَ" تِلْكَ ضَرَاوَةُ السلام وَشِرَّتُهُ، وَلِكُلِّ ضَرَاوَةٍ شِرَّةٌ، وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ، فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى اقْتِصَادٍ وَسُنَّةٍ فَلِأُمٍّ مَا هُوَ، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى الْمَعَاصِي، فَذَلِكَ الْهَالِكُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چند کا تذکر ہ کیا گیا جو عبادت میں خوب محنت کیا کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسلام کا جھاگ ہے اور ہر جھاگ کی تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا انقطاع ہوجاتا ہے جس تیزی کا اختتام اور انقطاع میانہ روی اور سنت پر ہو تو مقصد پورا ہو گیا اور جس کا اختتام معاصی اور گناہوں کی طرف ہو تو وہ شخص ہلاک ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو الزبير المكي ، عن ابي العباس مولى بني الديل، عن عبد الله بن عمرو ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجال ينصبون في العبادة من اصحابه نصبا شديدا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تلك ضراوة الإسلام وشرته، ولكل ضراوة شرة، ولكل شرة فترة، فمن كانت فترته إلى الكتاب والسنة فلام ما هو، ومن كانت فترته إلى معاصي الله، فذلك الهالك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ الْمَكِّيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ مَوْلَى بَنِي الدِّيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ يَنْصَبُونَ فِي الْعِبَادَةِ مِنْ أَصْحَابِهِ نَصَبًا شَدِيدًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تِلْكَ ضَرَاوَةُ الْإِسْلَامِ وَشِرَّتُهُ، وَلِكُلِّ ضَرَاوَةٍ شِرَّةٌ، وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ، فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَلِأُمٍّ مَا هُوَ، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى مَعَاصِي اللَّهِ، فَذَلِكَ الْهَالِكُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کا تذکر ہ کیا جو عبادت میں خوب محنت کیا کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسلام کا جھاگ ہے اور ہر جھاگ کی تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا انقطاع ہوجاتا ہے جس تیزی کا اختتام اور انقطاع میانہ روی اور سنت پر ہو تو مقصد پورا ہو گیا اور جس کا اختتام معاصی اور گناہوں کی طرف ہو تو وہ شخص ہلاک ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حريز ، حدثنا حبان الشرعبي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال وهو على المنبر:" ارحموا ترحموا، واغفروا يغفر الله لكم، ويل لاقماع القول، ويل للمصرين الذين يصرون على ما فعلوا وهم يعلمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ الشَّرْعَبِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ:" ارْحَمُوا تُرْحَمُوا، وَاغْفِرُوا يَغْفِرْ اللَّهُ لَكُمْ، وَيْلٌ لِأَقْمَاعِ الْقَوْلِ، وَيْلٌ لِلْمُصِرِّينَ الَّذِينَ يُصِرُّونَ عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برسرمنبریہ بات ارشاد فرمائی تم رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرو تمہیں معاف کر دیا جائے ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو صرف باتوں کا ہتھیار رکھتے ہیں ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے گناہوں پر جانتے بوجھتے اصرار کرتے اور ڈٹے رہتے ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو وہ شخص انتہائی ناپسند ہے جو اپنی زبان کو اس طرح ہلاتارہتا ہے جیسے گائے جگالی کر تی ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لئے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں فرمایا: ”جاؤ اور ان ہی میں جہاد کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھو تو دس کا ثواب ملے گا میں نے اس میں اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو تمہیں نو کا ثواب ملے گا میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”تین روزے رکھو تمہیں آٹھ کا ثواب ملے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا همام ، عن قتادة ، عن يزيد بن عبد الله بن الشخير ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قلت: يا رسول الله، في كم اقرا القرآن؟ قال:" اقراه في كل شهر"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" اقراه في خمس وعشرين"، قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" اقراه في عشرين"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" اقراه في خمس عشرة"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" اقراه في عشرة"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" اقراه في سبع"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" لا يفقهه من يقرؤه في اقل من ثلاث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي عِشْرِينَ"، قَال: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي خَمْسَ عَشْرَةَ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي عَشْرَةَ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" لَا يَفْقَهُهُ مَنْ يَقْرَؤُهُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں کتنے دن میں ایک قرآن پڑھا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مہینے میں میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پچیس دن میں پڑھالیا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیس دن میں پڑھ لیا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پندرہ دن میں پڑھ لیا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس دن میں پڑھ لیا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات دن میں پڑھ لیا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھتا ہے اس نے اسے سمجھا نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نے میری امت پر شراب جوا جو کی شراب شطرنج اور باجے حرام قرار دیئے ہیں اور مجھ میں پر نماز وتر کا اضافہ فرمایا: ”ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا همام ، عن قتادة ، عن ابن سيرين ، ومحمد بن عبيد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء ابو بكر فاستاذن، فقال:" ائذن له، وبشره بالجنة"، ثم جاء عمر، فاستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة"، ثم جاء عثمان، فاستاذن، فقال:" ائذن له، وبشره بالجنة"، قال: قلت: فاين انا؟ قال:" انت مع ابيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ، فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ، فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ أَنَا؟ قَالَ:" أَنْتَ مَعَ أَبِيكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اجازت طلب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت بھی دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت بھی دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو میں نے عرض کیا کہ میں کہاں گیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے والد صاحب کے ساتھ ہو گے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3674، م: 2403 عن أبى موسي الأشعري
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے دو آدمی چل رہے ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، عن صهيب مولى ابن عامر يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من ذبح عصفورا او قتله في غير شيء"، قال عمرو: احسبه قال:" إلا بحقه، ساله الله عنه يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ صُهَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَامِرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ ذَبَحَ عُصْفُورًا أَوْ قَتَلَهُ فِي غَيْرِ شَيْءٍ"، قَالَ عَمْرٌو: أَحْسِبُهُ قَالَ:" إِلَّا بِحَقِّهِ، سَأَلَهُ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ناحق کسی چڑیا کو بھی مارے گا قیام کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس کی باز پرس کرے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة صهيب مولي ابن عامر
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ناحق کسی چڑیا کو بھی مارے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس کی باز پرس کرے گا۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! حق کیا ہے؟ فرمایا: ”اسے ذبح کرے گردن سے نہ پکڑے کہ اسے توڑ ہی دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خطاء کی کوڑے یا لاٹھی سے مارے جانے والے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں بھی ہوں گی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص شراب نوشی کرے اسے کوڑے مارو دوبارہ پیئے تو پھر مارو سہ بارہ پیئے تو پھر مارو اور چوتھی مرتبہ فرمایا: ”کہ اسے قتل کر دو۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه:" امر فاطمة، وعليا، إذا اخذا مضاجعهما، في التسبيح والتحميد والتكبير، لا يدري عطاء ايها اربع وثلاثون تمام المائة، قال: فقال علي: فما تركتهن بعد، قال: فقال له ابن الكواء: ولا ليلة صفين؟ قال علي: ولا ليلة صفين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ:" أَمَرَ فَاطِمَةَ، وَعَلِيًّا، إِذَا أَخَذَا مَضَاجِعَهُمَا، فِي التَّسْبِيحِ وَالتَّحْمِيدِ وَالتَّكْبِيرِ، لَا يَدْرِي عَطَاءٌ أَيُّهَا أَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ تَمَامُ الْمِائَةِ، قَالَ: فَقَالَ عَلَي: فَمَا تَرَكْتُهُنَّ بَعْدُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْكَوَّاءِ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ قَالَ عَلِيٌّ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا تھا کہ جب وہ اپنے بستر پر لیٹ جائیں تو سبحان للہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر سو مرتبہ کہہ لیا کرو (راوی یہ بھول گئے کہ ان میں سے کون ساکلمہ ٣٤ مرتبہ کہنا ہے) سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت سے یہ معمول اب تک کبھی ترک نہیں کیا ابن کوّاء نے پوچھا کہ جنگ صفین کی رات بھی نہیں فرمایا: ”ہاں! جنگ صفین کی رات کو بھی نہیں چھوڑا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن النعمان بن سالم ، سمعت يعقوب بن عاصم بن عروة بن مسعود ، سمعت رجلا، قال لعبد الله بن عمرو: إنك تقول: إن الساعة تقوم إلى كذا وكذا؟ قال: لقد هممت ان لا احدثكم شيئا، إنما قلت: إنكم سترون بعد قليل امرا عظيما، كان تحريق البيت، قال شعبة: هذا او نحوه، ثم قال عبد الله بن عمرو : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يخرج الدجال في امتي، فيلبث فيهم اربعين" لا ادري، اربعين يوما، او اربعين سنة، او اربعين ليلة، او اربعين شهرا؟" فيبعث الله عز وجل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم، كانه عروة بن مسعود الثقفي، فيظهر، فيطلبه، فيهلكه، ثم يلبث الناس بعده سنين سبعا، ليس بين اثنين عداوة، ثم يرسل الله ريحا باردة من قبل الشام، فلا يبقى احد في قلبه مثقال ذرة من إيمان إلا قبضته، حتى لو ان احدهم كان في كبد جبل لدخلت عليه"، قال: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ويبقى شرار الناس، في خفة الطير، واحلام السباع لا يعرفون معروفا، ولا ينكرون منكرا"، قال:" فيتمثل لهم الشيطان، فيقول: الا تستجيبون؟ فيامرهم بالاوثان فيعبدونها، وهم في ذلك دارة ارزاقهم، حسن عيشهم، ثم ينفخ في الصور، فلا يسمعه احد إلا اصغى له، واول من يسمعه رجل يلوط، حوضه فيصعق، ثم لا يبقى احد إلا صعق، ثم يرسل الله او ينزل الله، مطرا كانه الطل، او الظل، نعمان الشاك فتنبت منه اجساد الناس، ثم ينفخ فيه اخرى، فإذا هم قيام ينظرون، قال: ثم يقال: يا ايها الناس، هلموا إلى ربكم، وقفوهم إنهم مسئولون، قال: ثم يقال: اخرجوا بعث النار، قال: فيقال: كم؟ فيقال: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعين، فيومئذ يبعث الولدان شيبا، ويومئذ يكشف عن ساق"، قال محمد بن جعفر: حدثني بهذا الحديث شعبة مرات، وعرضت عليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، سَمِعْتُ رَجُلًا، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: إِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمْ شَيْئًا، إِنَّمَا قُلْتُ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا، كَانَ تَحْرِيقَ الْبَيْتِ، قَالَ شُعْبَةُ: هَذَا أَوْ نَحْوَهُ، ثُمّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، فَيَلْبَث ُ فِيهِمْ أَرْبَعِينَ" لَا أَدْرِي، أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ سَنَةً، أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا؟" فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، فَيَظْهَرُ، فَيطلُبَه، فَيُهْلِكُهُ، ثُمَّ يَلْبَثُ النَّاسُ بَعْدَهُ سِنِينَ سَبْعًا، لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ، فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ كَانَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْ عَلَيْهِ"، قَالَ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ، فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ، وَأَحْلَامِ السِّبَاعِ لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا"، قَالَ:" فَيَتَمَثَّلُ لَهُمْ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: أَلَا تَسْتَجِيبُونَ؟ فَيَأْمُرُهُمْ بِالْأَوْثَانِ فَيَعْبُدُونَهَا، وَهُمْ فِي ذَلِكَ دَارَّةٌ أَرْزَاقُهُمْ، حَسَنٌ عَيْشُهُمْ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لَهُ، وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ، حَوْضَهُ فَيَصْعَقُ، ثُمَّ لَا يَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا صَعِقَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ أَوْ يُنْزِلُ اللَّهُ، مطْرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ، أَوْ الظِّلُّ، نُعْمَانُ الشَّاكُّ فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ، وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ، قَالَ: فَيُقَالُ: كَمْ؟ فَيُقَالُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، فَيَوْمَئِذٍ يُبْعَثُ الْوِلْدَانُ شِيبًا، وَيَوْمَئِذٍ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ شُعْبَةُ مَرَّاتٍ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِ.
یعقوب بن عاصم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ قیامت اس طرح قائم ہو گی؟ انہوں نے فرمایا: ”میرا دل چاہتا ہے کہ تم کچھ بیان نہ کیا کرو میں نے یہ کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد تم ایک بہت بڑا واقعہ بیت اللہ میں آگ لگنا دیکھو گے پھر فرمایا: ”کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں دجال کا خروج ہو گا جوان میں چالیس رہے گا (راوی کو دن، سال یا مہینے کا لفظ یاد نہیں رہا) پھر اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجے گا جو سیدنا عمروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کے مشابہہ ہوں گے وہ اسے تلاش کر کے قتل کر دیں گے۔ اس کے بعد سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ کسی دو کے درمیان دشمنی نہ رہے گی پھر اللہ تعالیٰ شام کی جانب سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا اور وہ ہوا ہر اس شخص کی روح قبض کر لے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا حتی کہ اگر ان میں سے کوئی شخص کسی پہاڑ کے جگر میں جا کر چھپ جائے تو وہ ہوا وہاں بھی پہنچ جائے گی۔
اس کے بعد زمین پر بدترین لوگ رہ جائیں گے جو پرندوں اور چوپاؤں سے بھی زیادہ ہوں گے جو نیکی کو نیکی اور گناہ کو گناہ نہیں سمجھیں گے ان کے پاس شیطان انسانی صورت میں آئے گا اور انہیں کہے گا کہ میری دعوت کو کیوں قبول نہیں کرتے؟ اور انہیں بتوں کی پوجا کر نے کا حکم دے گا چنانچہ وہ ان کی عبادت کر نے لگیں گے اس دوران ان کا رزق خوب بڑھ جائے گا اور ان کی زندگی بہترین گزر رہی ہو گی کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اس کی آواز جس کے کان میں بھی پہنچے گی وہ ایک طرف کو جھک جائے گا سب سے پہلے اس کی آوازوہ شخص سنے گا جو اپنے حوض کے کنارے صحیح کر رہا ہو گا اور بیہوش ہو کر گرپڑے گا پھر ہر شخص بیہوش ہو جائے گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے موسلادھاربارش برسائے گا جس سے لوگوں کے جسم اگ آئیں گے پھر دوبارہ صور پھونک دیا جائے گا اور لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اس کے بعد کہا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو اور وہاں پہنچ کر رک جاؤ تم سے باز پرس ہو گی پھر حکم ہو گا کہ جہنمی لشکر ان میں سے نکال لیا جائے پوچھا جائے گا کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ وہ دن ہو گا جب بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور جب پنڈلی کو کھولآ جائے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری امت میں سے جو شخص سونا پہنتا ہے اور اسی حال میں مرجاتا ہے اللہ اس پر جنت کا سونا حرام قرار دے دیتا ہے اور میری امت میں سے جو شخص ریشم پہنتا ہے اور اسی حال میں مرجاتا ہے اللہ اس پر جنت کا ریشم حرام قرار دے دیتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیر نافع علم، غیر مقبول دعاء خشوع و خضوع سے خالی دل اور نہ بھرنے والے نفس سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا زهير ، حدثنا إبراهيم بن المهاجر ، عن عبد الله بن باباه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذكرت الاعمال، فقال:" ما من ايام العمل فيهن افضل من هذه العشر"، قالوا: يا رسول الله، الجهاد في سبيل الله؟ قال: فاكبره، فقال:" ولا الجهاد إلا ان يخرج رجل بنفسه وماله في سبيل الله، ثم تكون مهجة نفسه فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذُكِرَتْ الْأَعْمَالُ، فَقَالَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ فِيهِنَّ أَفْضَلُ مِنْ هَذِهِ الْعَشْرِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَأَكْبَرَهُ، فَقَالَ:" وَلَا الْجِهَادُ إِلَّا أَنْ يَخْرُجَ رَجُلٌ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ تَكُونَ مُهْجَةُ نَفْسِهِ فِيهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ اعمال کا تذکر ہ ہونے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دس ایام کے علاوہ کسی اور دن میں اللہ کو نیک اعمال اتنے زیادہ پسند نہیں جتنے ان ایام میں ہیں کسی نے پوچھا جہادفی سبیل اللہ بھی نہیں فرمایا: ”ہاں! جہادفی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور واپس نہ آسکا یہاں تک کہ اس کا خون بہادیا گیا (راوی کہتے ہیں کہ " ان ایام " مرادعشرہ ذی الحجہ ہے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا يزيد بن عطاء ، عن ابي سنان ، عن عبد الله بن ابي الهذيل ، حدثني شيخ ، قال: دخلت مسجدا بالشام، فصليت ركعتين، ثم جلست، فجاء شيخ يصلي إلى السارية، فلما انصرف ثاب الناس إليه، فسالت من هذا؟ فقالوا عبد الله بن عمرو ، فاتى رسول يزيد بن معاوية، فقال: إن هذا يريد ان يمنعني ان احدثكم، وإن نبيكم صلى الله عليه وسلم، قال:" اللهم إني اعوذ بك من نفس لا تشبع، وقلب لا يخشع، ومن علم لا ينفع، ومن دعاء لا يسمع، اللهم إني اعوذ بك من هؤلاء الاربع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ ، حَدَّثَنِي شَيْخٌ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدًا بِالشَّامِ، فَصَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسْتُ، فَجَاءَ شَيْخٌ يُصَلِّي إِلَى السَّارِيَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ ثَابَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، فَأَتَى رَسُولُ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا يُرِيدُ أَنْ يَمْنَعَنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ، وَإِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَقَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ".
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں شام کی ایک مسجد میں داخل ہوا میں وہاں دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک آدمی آیا اور ستون کی آڑ میں نماز پڑھنے لگے جب وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ ہیں اتنے میں ان کے پاس یزید کا قاصد آگیا سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہ یہ مجھے تم سے احادیث بیان کر نے سے منع کرنا چاہتا ہے اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہے اے اللہ میں نہ بھرنے والے نفس سے خشوع و خضوع سے خالی دل سے غیر نافع علم سے اور غیر مقبول دعاء سے تیری پناہ میں آتا ہوں اے اللہ میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ مانگتاہوں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الشيخ الذى حدث عنه عبد الله بن أبى الهذيل
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے دو آدمی چل رہے ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا ليث ، حدثني ابو قبيل المعافري ، عن شفي الاصبحي ، عن عبد الله بن عمرو ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يده كتابان، فقال:" اتدرون ما هذان الكتابان؟" قال: قلنا: لا، إلا ان تخبرنا يا رسول الله، قال للذي في يده اليمنى:" هذا كتاب من رب العالمين تبارك وتعالى، باسماء اهل الجنة، واسماء آبائهم وقبائلهم، ثم اجمل على آخرهم، لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا"، ثم قال للذي في يساره:" هذا كتاب اهل النار، باسمائهم واسماء آبائهم وقبائلهم، ثم اجمل على آخرهم، لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا"، فقال اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلاي شيء إذن نعمل، إن كان هذا امرا قد فرغ منه؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سددوا وقاربوا، فإن صاحب الجنة يختم له بعمل اهل الجنة، وإن عمل اي عمل، وإن صاحب النار ليختم له بعمل اهل النار، وإن عمل اي عمل"، ثم قال: بيده فقبضها، ثم قال:" فرغ ربكم عز وجل من العباد"، ثم قال: باليمنى، فنبذ بها، فقال:" فريق في الجنة"، ونبذ باليسرى، فقال:" فريق في السعير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي أَبُو قَبِيلٍ الْمَعَافِرِيُّ ، عَنْ شُفَيٍّ الْأَصْبَحِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَدِهِ كِتَابَانِ، فَقَالَ:" أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الْكِتَابَانِ؟" قَالَ: قُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ لِلَّذِي فِي يَدِهِ الْيُمْنَى:" هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، بِأَسْمَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا"، ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي يَسَارِهِ:" هَذَا كِتَابُ أَهْلِ النَّارِ، بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا"، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلِأَيِّ شَيْءٍ إِذَنْ نَعْمَلُ، إِنْ كَانَ هَذَا أَمْرًا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ، وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ لَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ"، ثُمَّ قَالَ: بِيَدِهِ فَقَبَضَهَا، ثُمَّ قَالَ:" فَرَغَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْعِبَادِ"، ثُمَّ قَالَ: بِالْيُمْنَى، فَنَبَذَ بِهَا، فَقَالَ:" فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ"، وَنَبَذَ بِالْيُسْرَى، فَقَالَ:" فَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ یہ دونوں کتابیں کیسی ہیں؟ ہم نے عرض کیا نہیں ہاں اگر آپ یا رسول اللہ! ہمیں بتادیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ والی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”یہ اللہ رب العلمین کی کتاب ہے جس میں اہل جنت ان کے آباؤ اجداد اور ان کے قبائل کے نام لکھے ہوئے ہیں اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں آخری آدمی تک سب کے نام آگئے ہیں۔
صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!! جب اس کام سے فراغت ہوچکی تو پھر ہم عمل کس مقصد کے لئے کر یں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”درستگی پر رہو اور قرب اختیارکو کیونکہ جنتی کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہی ہو گا گو کہ وہ کوئی سے اعمال کرتا رہے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمیوں والے اعمال پر ہو گا گو کہ وہ کیسے ہی اعمال کرتا رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس کی مٹھی بنائی اور فرمایا: ”تمہارا رب بندوں کی تقدیر لکھ کر فارغ ہوچکا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے پھونک ماری اور فرمایا: ”ایک فریق جنت میں ہو گا اس کے بعد بائیں ہاتھ پر پھونک کر فرمایا: ”اور ایک فریق جہنم میں ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو قبيل المعافري مختلف فيه
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نے میری امت پر شراب جوا جو کی شراب شطرنج اور باجے حرام قرار دیئے ہیں اور مجھ میں پر نماز وتر کا اضافہ فرمایا: ”ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اگر میں نے زہر کو دور کر نے کا تریاق پی رکھا ہو یا گلے میں تعویذ لٹکا رکھا ہو یا ازخود کوئی شعر کہا ہو تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف عبد الرحمن بن رافع التنوخي
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی نگاہوں میں بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے حق میں بہتر ہو اور بہترین پڑ٫ سی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا حيوة ، اخبرنا كعب بن علقمة ، انه سمع عبد الرحمن بن جبير ، يقول: إنه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: إنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا سمعتم مؤذنا فقولوا مثل ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا لي الوسيلة، فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، وارجو ان اكون انا، هو فمن سال لي الوسيلة، حلت عليه الشفاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا، هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ، حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم مؤذن کی اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہہ رہاہو پھر مجھ پر دوردبھیجو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لئے وسیلہ کی دعاء کرو جو جنت میں ایک مقام ہے اور اللہ کے سارے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں ہو گا جو شخص میرے لئے وسیلے کی دعاء کرے گا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا حيوة ، اخبرني ابو هانئ ، انه سمع ابا عبد الرحمن الحبلي ، انه سمع عبد الله بن عمرو ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن قلوب بني آدم كلها بين إصبعين من اصابع الرحمن عز وجل كقلب واحد، يصرف كيف يشاء"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم مصرف القلوب، اصرف قلوبنا إلى طاعتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُ كَيْفَ يَشَاءُ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ، اصْرِفْ قُلُوبَنَا إِلَى طَاعَتِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تمام بنی آدم کے دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان قلب واحد کی طرح ہیں وہ انہیں جیسے چاہے پھیر دیتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کی کہ اے دلوں کو پھیرنے والے اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثني سعيد بن ابي ايوب ، حدثني معروف بن سويد الجذامي ، عن ابي عشانة المعافري ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" هل تدرون اول من يدخل الجنة من خلق الله؟" قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" اول من يدخل الجنة من خلق الله الفقراء والمهاجرون، الذين تسد بهم الثغور، ويتقى بهم المكاره، ويموت احدهم وحاجته في صدره، لا يستطيع لها قضاء، فيقول الله عز وجل لمن يشاء من ملائكته: ائتوهم فحيوهم، فتقول الملائكة: نحن سكان سمائك، وخيرتك من خلقك، افتامرنا ان ناتي هؤلاء فنسلم عليهم؟ قال: إنهم كانوا عبادا يعبدوني، لا يشركون بي شيئا، وتسد بهم الثغور، ويتقى بهم المكاره، ويموت احدهم وحاجته في صدره، لا يستطيع لها قضاء، قال: فتاتيهم الملائكة عند ذلك، فيدخلون عليهم من كل باب سلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار سورة الرعد آية 24".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي مَعْرُوفُ بْنُ سُوَيْدٍ الْجُذَامِيُّ ، عَنْ أَبِي عُشَّانَةَ الْمَعَافِرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ الْفُقَرَاءُ وَالْمُهَاجِرُونَ، الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمْ الثُّغُورُ، وَيُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِيَ هَؤُلَاءِ فَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونِي، لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمْ الثُّغُورُ، وَيُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، قَالَ: فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ سورة الرعد آية 24".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ مخلوق اللہ میں سے سب سے پہلے جنت میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سب سے پہلے مخلوق اللہ میں سے وہ فقراء اور مہاجرین داخل ہوں گے جن کے آنے پر دروازے بند کر دئیے جاتے تھے ان کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا اور اپنی حاجات اپنے سینوں میں لئے ہوئے ہی مرجاتے تھے لیکن انہیں پورا نہیں کر سکتے تھے۔
اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں سے جسے چاہیں گے حکم دیں گے کہ ان کے پاس جاؤ اور انہیں سلام کرو فرشتے عرض کر یں گے کہ ہم آسمانوں کے رہنے والے اور آپ کی مخلوق میں منتخب لوگ اور آپ ہمیں ان کو سلام کر نے کا حکم دے رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ ایسے لوگ تھے جو صرف میری ہی عبادت کرتے تھے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے ان پر دروازے بند کر دئیے جاتے تھے ان کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا اور یہ اپنی ضروریات اپنے سینوں میں لئے لئے مرجاتے تھے لیکن انہیں پورانہ کر پاتے تھے چنانچہ فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور ہر دروازے سے یہ آوازلگائیں گے تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کیا آخرت کا گھر کتنا بہترین ہے۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو عشانة ، انه سمع عبد الله بن عمرو ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن اول ثلة تدخل الجنة لفقراء المهاجرين، الذين يتقى بهم المكاره، وإذا امروا، سمعوا واطاعوا، وإذا كانت لرجل منهم حاجة إلى السلطان لم تقض له، حتى يموت وهي في صدره، وإن الله عز وجل يدعو يوم القيامة الجنة، فتاتي بزخرفها وزينتها، فيقول: اي عبادي الذين قاتلوا في سبيلي وقتلوا، واوذوا في سبيلي، وجاهدوا في سبيلي، ادخلوا الجنة، فيدخلونها بغير حساب ولا عذاب". وذكر الحديث.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُشَّانَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ ثُلَّةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، الَّذِينَ يُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ، وَإِذَا أُمِرُوا، سَمِعُوا وَأَطَاعُوا، وَإِذَا كَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْهُمْ حَاجَةٌ إِلَى السُّلْطَانِ لَمْ تُقْضَ لَهُ، حَتَّى يَمُوتَ وَهِيَ فِي صَدْرِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَدْعُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْجَنَّةَ، فَتَأْتِي بِزُخْرُفِهَا وَزِينَتِهَا، فَيَقُولُ: أَيْ عِبَادِي الَّذِينَ قَاتَلُوا فِي سَبِيلِي وَقُتِلُوا، وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي، وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِي، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ، فَيَدْخُلُونَهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ". وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلا گر وہ جو جنت میں داخل ہو گا وہ ان فقراء مہاجرین کا ہو گا جن کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا جب انہیں حکم دیا جاتا تو وہ سنتے اور اطاعت کرتے تھے اور جب ان میں سے کسی کو بادشاہ سے کوئی کام پیش آجاتا تو وہ پور انہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ وہ اسے اپنے سینے میں لئے لئے مرجاتا تھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت کو بلائیں گے وہ اپنی زیبائش و آرائش کے ساتھ آئے گی پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے میرے بندو جنہوں نے میری راہ میں قتال کیا اور مارے گئے میرے راستے میں انہیں ستایا گیا اور انہوں نے میری راہ میں خوب محنت کی جنت میں داخل ہوجاؤ چنانچہ وہ بلاحساب و عذاب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔۔۔۔۔ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن لهيعة سييء الحفظ، لكنه متابع
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی کامیاب ہو گیا جس نے اسلام قبول کیا ضرورت اور کفایت کے مطابق اسے روزی نصیب ہو گئی اور اللہ نے اسے اپنی نعمتوں پر قناعت کی دولت عطاء فرمادی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ!! اگر ہمارے پاس سے کسی کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم کھڑے ہو جائیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اس وقت بھی کھڑے ہوجایا کرو تم کافر کے لئے کھڑے نہیں ہو رہے تم اس ذات کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو رہے ہو جو روح قبض کر تی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ربيعة بن سيف المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا سعيد ، حدثنا ربيعة بن سيف المعافري ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: بينما نحن نمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ بصر بامراة لا نظن انه عرفها، فلما توجهنا الطريق، وقف حتى انتهت إليه، فإذا فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، رضي الله عنها، فقال:" ما اخرجك من بيتك يا فاطمة؟" قالت: اتيت اهل هذا البيت، فرحمت إليهم ميتهم وعزيتهم، فقال:" لعلك بلغت معهم الكدى؟" قالت: معاذ الله ان اكون بلغتها معهم، وقد سمعتك تذكر في ذلك ما تذكر، فقال:" لو بلغتها معهم ما رايت الجنة حتى يراها جد ابيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ الْمَعَافِرِيُّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ بَصُرَ بِامْرَأَةٍ لَا نَظُنُّ أَنَّهُ عَرَفَهَا، فَلَمَّا تَوَجَّهْنَا الطَّرِيقَ، وَقَفَ حَتَّى انْتَهَتْ إِلَيْهِ، فَإِذَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ:" مَا أَخْرَجَكِ مِنْ بَيْتِكِ يَا فَاطِمَةُ؟" قَالَتْ: أَتَيْتُ أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ، فَرَحَّمْتُ إِلَيْهِمْ مَيِّتَهُمْ وَعَزَّيْتُهُمْ، فَقَالَ:" لَعَلَّكِ بَلَغْتِ مَعَهُمْ الْكُدَى؟" قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَكُونَ بَلَغْتُهَا مَعَهُمْ، وَقَدْ سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ فِي ذَلِكَ مَا تَذْكُرُ، فقَالَ:" لَوْ بَلَغْتِهَا مَعَهُمْ مَا رَأَيْتِ الْجَنَّةَ حَتَّى يَرَاهَا جَدُّ أَبِيكِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جارہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک خاتون پر پڑی ہم نہیں سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا ہو گا جب ہم راستے کی طرف متوجہ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں ٹھہر گئے جب وہ خاتون وہاں پہنچی تو پتہ چلا کہ وہ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہ تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھافاطمہ! تم اپنے گھر سے کسی کام سے نکلی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس گھر میں رہنے والوں کے پاس آئی تھی یہاں ایک فوتگی ہو گئی تھی تو میں نے سوچا کہ ان سے تعزیت اور مرنے والے کی دعاء رحمت کر آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ پھر تم ان کے ساتھ قبرستان بھی گئی ہو گی؟ انہوں نے عرض کیا معاذاللہ کہ میں ان کے ساتھ قبرستان جاؤں جبکہ میں نے اس کے متعلق آپ سے جو سن رکھا ہے وہ مجھے یاد بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے ساتھ چلی جاتیں تو تم جنت کو دیکھ بھی نہ پاتیں یہاں تک کہ تمہارے باپ کا دادا اسے دیکھ لیتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ربيعة بن سيف المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا سعيد ، حدثني عياش بن عباس ، عن عيسى بن هلال الصدفي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اقرئني يا رسول الله، قال له:" اقرا ثلاثا من ذات الر"، فقال الرجل: كبرت سني، واشتد قلبي، وغلظ لساني، قال:" فاقرا من ذات حم"، فقال: مثل مقالته الاولى، فقال:" اقرا ثلاثا من المسبحات"، فقال: مثل مقالته، فقال الرجل: ولكن اقرئني يا رسول الله سورة جامعة، فاقراه إذا زلزلت الارض حتى إذا فرغ منها قال الرجل: والذي بعثك بالحق، لا ازيد عليها ابدا، ثم ادبر الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افلح الرويجل، افلح الرويجل"، ثم قال: علي به، فجاءه، فقال له:" امرت بيوم الاضحى، جعله الله عيدا لهذه الامة"، فقال الرجل: ارايت إن لم اجد إلا منيحة ابني، افاضحي بها؟ قال:" لا، ولكن تاخذ من شعرك، وتقلم اظفارك، وتقص شاربك، وتحلق عانتك، فذلك تمام اضحيتك عند الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَقْرِئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ لَهُ:" اقْرَأْ ثَلَاثًا مِنْ ذَات الر"، فَقَالَ الرَّجُلُ: كَبِرَتْ سِنِّي، وَاشْتَدَّ قَلْبِي، وَغَلُظَ لِسَانِي، قَالَ:" فَاقْرَأْ مِنْ ذَاتِ حم"، فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَقَالَ:" اقْرَأْ ثَلَاثًا مِنَ الْمُسَبِّحَاتِ"، فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَلَكِنْ أَقْرِئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ سُورَةً جَامِعَةً، فَأَقْرَأَهُ إِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْهَا قَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهَا أَبَدًا، ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْلَحَ الرُّوَيْجِلُ، أَفْلَحَ الرُّوَيْجِلُ"، ثُمَّ قَالَ: عَلَيَّ بِهِ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ لَهُ:" أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى، جَعَلَهُ اللَّهُ عِيدًا لِهَذِهِ الْأُمَّةِ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةَ ابْنِي، أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے قرآن پڑھادیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم وہ تین سورتیں پڑھ لو جن کا آغاز الر سے ہوتا ہے وہ آدمی کہنے لگا کہ میری عمر زیادہ ہوچکی ہے دل سخت ہو گیا ہے اور زبان موٹی ہوچکی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم حم سے شروع ہونے والی تین سورتیں پڑھ لو اس نے اپنی وہی بات دہرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سبح سے شروع ہونے والی تین سورتوں کا مشورہ دیا لیکن اس نے پھر وہی بات دہرائی اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی جامع سورت سکھا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورت زلزال پڑھادی جب وہ اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو کہنے لگا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں اس پر کبھی اضافہ نہ کروں گا اور پیٹھ پھیر کر چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دو مرتبہ فرمایا: ”کہ وہ یہ آدمی کامیاب ہو گیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے پاس لے کر آؤ جب وہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے عیدالاضحی کے دن قربانی کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ نے اس دن کو اس امت کے لئے عید کا دن قرار دیا ہے وہ آدمی کہنے لگایہ بتائیے اگر مجھے کوئی جانور نہ ملے سوائے اپنے بیٹے کے جانور کے تو کیا میں اسی کی قربانی دے دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں بلکہ تم اپنے ناخن تراشو بال کاٹو مونچھیں برابر کرو اور زیرناف بال صاف کرو اللہ کے یہاں کے یہی کام تمہاری طرف سے مکمل قربانی تصور ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا سعيد ، حدثني كعب بن علقمة ، عن عيسى بن هلال الصدفي ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه ذكر الصلاة يوما، فقال:" من حافظ عليها كانت له نورا وبرهانا ونجاة يوم القيامة، ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ولا برهان ولا نجاة، وكان يوم القيامة مع قارون، وفرعون، وهامان، وابي بن خلف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَقَالَ:" مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا وَبُرْهَانًا وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ وَلَا بُرْهَانٌ وَلَا نَجَاةٌ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ، وَفِرْعَوْنَ، وَهَامَانَ، وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص اس کی پابندی کرے گا تو یہ اس کے لئے قیامت کے دن روشنی، دلیل اور نجات کا سبب بن جائے گی اور جو شخص نماز کی پابندی نہیں کرے گا تو وہ اس کے لئے روشنی دلیل اور نجات کا سبب نہیں بنے گی اور وہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجاہدین کا جو دستہ بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اسے مال غنیمت حاصل ہوتا ہے اسے اس کا دوتہائی اجر تو فوری طور پردے دیا جاتا ہے اور ایک تہائی ان کے لئے رکھ لیا جاتا ہے اور اگر انہیں مال غنیمت حاصل نہ ہو تو سارا اجر وثواب رکھ لیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا حيوة ، اخبرني ابو هانئ ، انه سمع ابا عبد الرحمن الحبلي ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة باربعين خريفا"، قال عبد الله: فإن شئتم اعطيناكم مما عندنا، وإن شئتم ذكرنا امركم للسلطان، قالوا: فإنا نصبر، فلا نسال شيئا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَإِنْ شِئْتُمْ أَعْطَيْنَاكُمْ مِمَّا عِنْدَنَا، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ، فَلَا نَسْأَلُ شَيْئًا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت کے دن فقراء مہاجرین مالداروں سے چالیس سال قبل جنت میں داخل ہوں گے سیدنا عبداللہ فرماتے تھے اگر تم چاہتے ہو تو ہم اپنے پاس سے تمہیں کچھ دے دیتے ہیں اور اگر تم چاہتے ہو تو بادشاہ سے تمہارا معاملہ ذکر کر دیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہم صبر کر یں گے اور کسی چیز کا سوال نہیں کر یں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے مخلوقات کی تقدیر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے رکھ دی تھی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جہنم کا تذکر ہ ہوئے فرمایا: ”کہ ہر بد اخلاق تندخو، متکبر جمع کر کے رکھنے والا اور نیکی سے روکنے والاجہنم میں ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ:4918، م: 2853، عن حارثة ابن وهب
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور ان لوگوں کو بھی سلام کرو جن سے جان پہچان ہو اور انہیں بھی جن سے جان پہچان نہ ہو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں فوت ہو جائے اللہ اسے قبر کی آزمائش سے بچالیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، وهو وهشام بن سعد ضعيفان
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، عن الصقعب بن زهير ، عن زيد بن اسلم ، قال حماد: اظنه عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل من اهل البادية، عليه جبة سيجان، مزرورة بالديباج، فقال: الا إن صاحبكم هذا قد وضع كل فارس ابن فارس! قال: يريد ان يضع كل فارس ابن فارس، ويرفع كل راع ابن راع! قال: فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمجامع جبته، وقال:" الا ارى عليك لباس من لا يعقل!"، ثم قال:" إن نبي الله نوحا صلى الله عليه وسلم لما حضرته الوفاة قال لابنه: إني قاص عليك الوصية آمرك باثنتين، وانهاك عن اثنتين، آمرك بلا إله إلا الله، فإن السموات السبع، والارضين السبع، لو وضعت في كفة، ووضعت لا إله إلا الله في كفة، رجحت بهن لا إله إلا الله، ولو ان السموات السبع، والارضين السبع، كن حلقة مبهمة، قصمتهن لا إله إلا الله، وسبحان الله وبحمده، فإنها صلاة كل شيء، وبها يرزق الخلق، وانهاك عن الشرك والكبر"، قال: قلت، او قيل: يا رسول الله، هذا الشرك قد عرفناه، فما الكبر؟ قال: ان يكون لاحدنا نعلان حسنتان لهما شراكان حسنان؟ قال:" لا"، قال: هو ان يكون لاحدنا حلة يلبسها؟، قال:" لا"، قال: الكبر هو ان يكون لاحدنا دابة يركبها؟، قال:" لا"، قال: افهو ان يكون لاحدنا اصحاب يجلسون إليه؟ قال:" لا"، قيل: يا رسول الله، فما الكبر؟ قال:" سفه الحق وغمص الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الصَّقْعَبِ بْنِ زُهَيْرٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ حَمَّادٌ: أَظُنُّهُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، عَلَيْهِ جُبَّةٌ سِيجَانٍ، مَزْرُورَةٌ بِالدِّيبَاجِ، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ وَضَعَ كُلَّ فَارِسٍ ابْنِ فَارِسٍ! قَالَ: يُرِيدُ أَنْ يَضَعَ كُلَّ فَارِسٍ ابْنِ فَارِسٍ، وَيَرْفَعَ كُلَّ رَاعٍ ابْنِ رَاعٍ! قَالَ: فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَجَامِعِ جُبَّتِهِ، وَقَالَ:" أَلَا أَرَى عَلَيْكَ لِبَاسَ مَنْ لَا يَعْقِلُ!"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ نُوحًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ لِابْنِهِ: إِنِّي قَاصٌّ عَلَيْكَ الْوَصِيَّةَ آمُرُكَ بِاثْنَتَيْنِ، وَأَنْهَاكَ عَنِ اثْنَتَيْنِ، آمُرُكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ، وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ، لَوْ وُضِعَتْ فِي كِفَّةٍ، وَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي كِفَّةٍ، رَجَحَتْ بِهِنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ، وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ، كُنَّ حَلْقَةً مُبْهَمَةً، قَصَمَتْهُنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ، وَبِهَا يُرْزَقُ الْخَلْقُ، وَأَنْهَاكَ عَنِ الشِّرْكِ وَالْكِبْرِ"، قَالَ: قُلْتُ، أَوْ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الشِّرْكُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الْكِبْرُ؟ قَالَ: أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا نَعْلَانِ حَسَنَتَانِ لَهُمَا شِرَاكَانِ حَسَنَانِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: هُوَ أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا حُلَّةٌ يَلْبَسُهَا؟، قَالَ:" لَا"، قَالَ: الْكِبْرُ هُوَ أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا دَابَّةٌ يَرْكَبُهَا؟، قَالَ:" لَا"، قَالَ: أَفَهُوَ أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا أَصْحَابٌ يَجْلِسُونَ إِلَيْهِ؟ قَالَ:" لَا"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الْكِبْرُ؟ قَالَ:" سَفَهُ الْحَقِّ وَغَمْصُ النَّاسِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی آدمی آیا جس نے بڑا قیمتی جبہ جس پر دیباج و ریشم کے بٹن لگے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اس ساتھی نے تو مکمل طور پر فارس ابن فارس (نسلی فارسی آدمی) کی وضع اختیار کر رکھی ہے ایسالگتا ہے کہ جسے اس کے یہاں فارسی نسل کے ہی بچے پیدا ہوں گے اور چرواہوں کی نسل ختم ہو جائے گی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جبے کو مختلف حصوں سے پکڑ کر جمع کیا اور فرمایا: ”کہ میں تمہارے جسم پر بیوقوفوں کالباس نہیں دیکھ رہا؟ پھر فرمایا: ”اللہ کے نبی سیدنا نوح (علیہ السلام) کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ”کہ میں تمہیں ایک وصیت کر رہا ہوں جس میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں حکم تو اس بات کا دیتا ہوں کہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے رہنا کیونکہ اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور لاالہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللہ والا پلڑا جھک جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک مبہم حلقہ ہوتیں تو لاالہ الا اللہ انہیں خاموش کر ا دیتا اور دوسرا یہ کہ و سبحان اللہ وبحمدہ کا ورد کرتے رہنا کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق ملتا ہے۔
اور روکتا شرک اور تکبر سے ہوں میں نے یا کسی اور نے پوچھا یا رسول اللہ! شرک تو ہم سمجھ گئے تکبر سے کیا مراد ہے؟ کیا تکبریہ ہے کہ کسی کے پاس دو عمدہ تسموں والے دو عمدہ جوتے ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں پھر پوچھا کیا تکبریہ ہے کہ کسی کا لباس اچھا ہو؟ فرمایا: ”نہیں سائل نے پھر پوچھا کیا تکبر یہ ہے کہ کسی کے پاس سواری ہو جس پر وہ سوارہو سکے؟ فرمایا: ”نہیں سائل نے پوچھا کیا تکبریہ ہے کہ کسی کے ساتھی ہوں جن کے پاس جا کروہ بیٹھا کرے؟ فرمایا: ”نہیں سائل نے پوچھا یا رسول اللہ! پھر تکبر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق بات کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ اس شخص کی طرح نہ ہوجانا جو قیام اللیل کے لئے اٹھتا تھا پھر اس نے اسے ترک کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد ، وابو نعيم ، قالا: حدثنا سفيان ، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر ، عن ابيه هذا في حديث ابي احمد الزبيري، قال: نزل رجل على مسروق، فقال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من لقي الله وهو لا يشرك به شيئا دخل الجنة، ولم تضر معه خطيئة، كما لو لقيه وهو مشرك به دخل النار، ولم تنفعه معه حسنة"، قال ابو نعيم في حديثه: جاء رجل او شيخ من اهل المدينة، فنزل على مسروق، فقال: سمعت عبد الله بن عمرو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من لقي الله لا يشرك به شيئا، لم تضره معه خطيئة، ومن مات وهو يشرك به، لم ينفعه معه حسنة"، قال عبد الله بن احمد: والصواب ما قاله ابو نعيم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، وَأَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ هَذَا فِي حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ، قَالَ: نَزَلَ رَجُلٌ عَلَى مَسْرُوقٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَلَمْ تَضُرَّ مَعَهُ خَطِيئَةٌ، كَمَا لَوْ لَقِيَهُ وَهُوَ مُشْرِكٌ بِهِ دَخَلَ النَّارَ، وَلَمْ تَنْفَعْهُ مَعَهُ حَسَنَةٌ"، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ فِي حَدِيثِهِ: جَاءَ رَجُلٌ أَوْ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، فَنَزَلَ عَلَى مَسْرُوقٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، لَمْ تَضُرَّهُ مَعَهُ خَطِيئَةٌ، وَمَنْ مَاتَ وَهُوَ يُشْرِكُ بِهِ، لَمْ يَنْفَعْهُ مَعَهُ حَسَنَةٌ"، قَالَ عَبْد اللَّهِ بن أحمد: وَالصَّوَابُ مَا قَالَهُ أَبُو نُعَيْمٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور اسے کوئی گناہ نقصان نہ پہنچاسکے گا جیسے اگر کوئی شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ مشرک ہو تو وہ جہنم میں داخل ہو گا اور اسے کوئی نیکی نفع نہ پہنچا سکے گی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحمان کی عبادت کرو سلام کو پھیلاؤ کھانا کھلاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، حدثنا ابو عوانة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، انه حدثهم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ضاف ضيف رجلا من بني إسرائيل، وفي داره كلبة مجح، فقالت الكلبة: والله لا انبح ضيف اهلي، قال: فعوى جراؤها في بطنها، قال: قيل: ما هذا؟ قال: فاوحى الله عز وجل إلى رجل منهم هذا مثل امة تكون من بعدكم، يقهر سفهاؤها احلماءها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ضَافَ ضَيْفٌ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَفِي دَارِهِ كَلْبَةٌ مُجِحٌّ، فَقَالَتْ الْكَلْبَةُ: وَاللَّهِ لَا أَنْبَحُ ضَيْفَ أَهْلِي، قَالَ: فَعَوَى جِرَاؤُهَا فِي بَطْنِهَا، قَالَ: قِيلَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ هَذَا مَثَلُ أُمَّةٍ تَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمْ، يَقْهَرُ سُفَهَاؤُهَا أَحْلماءَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے کسی شخص کے یہاں ایک مہمان آیا میزبان کے گھر میں ایک بہت بھونکنے والی کتیا تھی وہ کتیا کہنے لگی کہ میں اپنے مالک کے مہمان کے سامنے نہیں بھونکوں گی اتنی دیر میں اس کے پیٹ میں موجود پلے نے بھونکنا شروع کسی نے کہا یہ کیا؟ اس نے اللہ نے اس زمانے کے نبی پر وحی بھیجی کہ یہ تمہارے بعد آنے والی اس امت کی مثال ہے جس کے بیوقوف لوگ عقلمندوں پر غالب آجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو عوانة وضاح اليشكري سمع من عطاء قبل الاختلاط و بعده، وكان لا يعقل ذا من ذا
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان اليهود كانوا يقولون لرسول الله صلى الله عليه وسلم: سام عليك! ثم يقولون في انفسهم لولا يعذبنا الله بما نقول سورة المجادلة آية 8 فنزلت هذه الآية وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله سورة المجادلة آية 8 إلى آخر الآية.(حديث موقوف) حَدَّثَنًَا حَدَّثَنًَا عبْد ُالصَّمَد ، ِحَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَن ْعَطَاء ِبْن السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا يَقُولُونَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَامٌ عَلَيْكَ! ثُمَّ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ سورة المجادلة آية 8 فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَة وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ سورة المجادلة آية 8 إِلَى آخِرِ الْآيَةَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہودی آکر " سام علیک " کہتے تھے پھر اپنے دل میں کہتے تھے کہ ہم جو کہتے ہیں اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب یہ آپ کے پاس آتے ہیں تو اس انداز میں آپ کو سلام کرتے ہیں جس انداز میں اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا جاء، فقال: اللهم اغفر لي ولمحمد، ولا تشرك في رحمتك إيانا احدا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من قائلها؟" فقال الرجل: انا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لقد حجبتهن عن ناس كثير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ، وَلَا تُشْرِكْ فِي رَحْمَتِكَ إِيَّانَا أَحَدًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَائِلُهَا؟" فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ حَجَبْتَهُنَّ عَنْ نَاسٍ كَثِيرٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ رسالت میں آیا اور دعاء کر نے لگا کہ اے اللہ مجھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دے اور اپنی رحمت میں ہمارے ساتھ کسی کو شریک نہ فرما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دعاء کون کر رہا ہے؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس دعاء کو بہت سے لوگوں سے پردے میں چھپالیا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میری طرف نسبت کر کے کوئی ایسی بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا، باجا اور چینا، کی شراب کو حرام قرار دیا ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عمرو بن الوليد مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا وهب يعني ابن جرير ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن مجاهد ، قال: اراد فلان ان يدعى جنادة بن ابي امية، فقال عبد الله بن عمرو : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ادعى إلى غير ابيه لم يرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من قدر سبعين عاما، او مسيرة سبعين عاما". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال:" ومن كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبٌ يَعْنِي ابْنَ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: أَرَادَ فُلَانٌ أَنْ يُدْعَى جُنَادَةَ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ قَدْرِ سَبْعِينَ عَامًا، أَوْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ:" وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
مجاہدر حمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ایک نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ آئندہ اسے " جنادہ بن ابی امیہ کہہ کر پکارآ جائے (حالانکہ ابوامیہ اس کے باپ کا نام نہ تھا) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو فرمایا: ”کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو تو ستر سال کی مسافت سے آتی ہے۔ اور فرمایا: ”جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہئے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ:6755، م: 1370، عن علي
(حديث مرفوع) حدثنا حسين يعني ابن محمد ، حدثنا جرير يعني ابن حازم ، عن محمد يعني ابن إسحاق ، عن ابي سفيان ، عن مسلم بن جبير ، عن عمرو بن الحريش ، قال: سالت عبد الله بن عمرو بن العاص ، فقلت: إنا بارض ليس بها دينار ولا درهم، وإنما نبايع بالإبل والغنم إلى اجل، فما ترى في ذلك؟ قال: على الخبير سقطت، جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا على إبل من إبل الصدقة، حتى نفدت، وبقي ناس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اشتر لنا إبلا من بقلائص من إبل الصدقة إذا جاءت، حتى نؤديها إليهم"، فاشتريت البعير بالاثنين والثلاث قلائص، حتى فرغت، فادى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من إبل الصدقة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَرِيشِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَقُلْتُ: إِنَّا بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، وَإِنَّمَا نُبَايِعُ بِالْإِبِلِ وَالْغَنَمِ إِلَى أَجَلٍ، فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ؟ قَالَ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا عَلَى إِبِلٍ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، حَتَّى نَفِدَتْ، وَبَقِيَ نَاسٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اشْتَرِ لَنَا إِبِلًا مِنْ بقَلَائِصَ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِذَا جَاءَتْ، حَتَّى نُؤَدِّيَهَا إِلَيْهِمْ"، فَاشْتَرَيْتُ الْبَعِيرَ بِالِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثِ قَلَائِصَ، حَتَّى فَرَغْتُ، فَأَدَّى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ.
عمرو بن حریش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم لوگ ایسے علاقے میں ہوتے ہیں جہاں دینار یا درہم نہیں چلتے ہم ایک وقت مقررہ تک کے لئے اونٹ اور بکر ی کے بدلے خریدو فروخت کر لیتے ہیں آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”تم نے ایک باخبر آدمی سے دریافت کیا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کیا اس امید پر کہ صدقہ کے اونٹ آجائیں گے اونٹ ختم ہو گئے اور کچھ لوگ باقی بچ گئے (جنہیں سواری نہ مل سکی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ہمارے لئے اس شرط پر اونٹ خرید کر لاؤ کہ صدقہ کے اونٹ پہنچنے پر وہ دے دیئے جائیں گے چنانچہ میں نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ خریدا بعض اوقات تین کے بدلے بھی خریدا یہاں تک کہ میں فارغ ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے اس کی ادائیگی فرما دی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد فيه ضعف و اضطرب
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات قسم کی موت سے پناہ مانگی ہے ناگہانی موت سے سانپ کے ڈسنے سے درندے کے کھاجانے سے جل کر مرنے سے ڈوب کر مرنے سے کسی چیز پر گر کر مرنے سے یا کسی چیز کے اس پر گرنے سے اور میدان جنگ سے بھاگتے وقت قتل ہونے سے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ، ومالك بن عبد الله مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، ومعاوية بن عمرو ، قالا: حدثنا ابن وهب ، حدثني عمرو ، ان بكر بن سوادة حدثه، ان عبد الرحمن بن جبير حدثه، ان عبد الله بن عمرو بن العاص حدثه، ان نفرا من بني هاشم دخلوا على اسماء بنت عميس، فدخل ابو بكر الصديق، وهي تحته يومئذ، فرآهم، فكره ذلك، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: لم ار إلا خيرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله قد براها من ذلك"، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فقال:" لا يدخلن رجل بعد يومي هذا على مغيبة إلا ومعه رجل او اثنان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص حَدَّثَهُ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ دَخَلُوا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وَهِيَ تَحْتَهُ يَوْمَئِذٍ، فَرَآهُمْ، فَكَرِهَ ذَلِكَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَمْ أَرَ إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَرَّأَهَا مِنْ ذَلِكَ"، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" لَا يَدْخُلَنَّ رَجُلٌ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا عَلَى مُغِيبَةٍ إِلَّا وَمَعَهُ رَجُلٌ أَوْ اثْنَانِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو ہاشم کے کچھ لوگ ایک مرتبہ سیدنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے ہوئے تھے ان کے زوج محترم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے چونکہ وہ ان کی بیوی تھیں اس لئے انہیں اس پر ناگواری ہوئی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے خیر ہی دیکھی (کوئی برا منظر نہیں دیکھا لیکن پھر بھی اچھا نہیں لگا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے انہیں بچا لیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”آج کے بعد کوئی شخص کسی ایک عورت کے پاس تنہا نہ جائے جس کا شوہر موجود نہ ہو الاّ یہ کہ اس کے ساتھ ایک اور یا دو آدمی ہوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا میرے والد صاحب نے نماز عید سے قبل ہی اپنے جانور کی قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد صاحب سے کہو کہ پہلے نماز پڑھیں پھر قربانی کر یں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري مختلف فيه
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن الحبلي حدثه، قال: اخرج لنا عبد الله بن عمرو قرطاسا، وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا يقول:" اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، انت رب كل شيء، وإله كل شيء اشهد ان لا إله إلا انت، وحدك لا شريك لك، وان محمدا عبدك ورسولك، والملائكة يشهدون اعوذ بك من الشيطان وشركه، واعوذ بك ان اقترف على نفسي إثما، او اجره على مسلم"، قال ابو عبد الرحمن: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمه عبد الله بن عمرو ان يقول ذلك حين يريد ان ينام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَخْرَجَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو قِرْطَاسًا، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا يَقُولُ:" اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ، وَإِلَهُ كُلِّ شَيْءٍ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي إِثْمًا، أَوْ أَجُرَّهُ عَلَى مُسْلِمٍ"، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أَنْ يَقُولَ ذَلِكَ حِينَ يُرِيدُ أَنْ يَنَامَ.
ابوعبدالرحمن حبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے ایک کاغذ نکالا اور فرمایا: ”کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعاء سکھایا کرتے تھے کہ اے آسمان و زمین کو پیدا کر نے والے اللہ پوشیدہ اور ظاہر سب کو جاننے والے اللہ تو ہر چیز کا رب ہے اور ہر چیز کا معبود ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں اور فرشتے بھی اس بات کے گواہ ہیں میں شیطان اور اس کے شرک سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ خود کسی گناہ کا ارتکاب کروں یا کسی مسلمان پر اسے لا دوں (یہ دعاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سوتے وقت پڑھنے کے لئے سکھائی تھی)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے جننے والی ماؤں سے نکاح کیا کرو کیونکہ میں قیامت کے دن ان کے ذریعے فخر کروں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله مختلف فيه
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جامع مسجد کی طرف جاتا ہے اس کے ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ایک قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے آتے اور جاتے دونوں وقت یہی حکم ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے جائے تو یہ دعاء کرے کہ اے اللہ اپنے بندے کو شفاء عطاء فرما تاکہ تیرے دشمن سے انتقام لے سکے اور نماز کے لئے چل کر جاسکے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة - وإن كان سييء الحفظ- قد توبع، لكن تبقي العلة فى حيي بن عبد الله، فهو ضعيف إذا انفرد
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! مؤذنین اذان کی وجہ سے ہم پر فضیلت رکھتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کلمات وہ کہیں تم بھی کہہ لیا کرو اور جب اختتام ہو جائے تو جو دعاء کرو گے وہ پوری ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن حدثه، ان عبد الله بن عمرو ، قال: إن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن افضل الاعمال؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلاة"، ثم قال: مه؟ قال:" الصلاة"، ثم قال: مه؟ قال:" الصلاة" ثلاث مرات، قال: فلما غلب عليه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الجهاد في سبيل الله"، قال الرجل: فإن لي والدين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" آمرك بالوالدين خيرا"، قال: والذي بعثك بالحق نبيا لاجاهدن؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت اعلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: إِنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ"، ثُمَّ قَالَ: مَهْ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ"، ثُمَّ قَالَ: مَهْ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: فَلَمَّا غَلَبَ عَلَيْهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّ لِي وَالِدَيْنِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمُرُكَ بِالْوَالِدَيْنِ خَيْرًا"، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا لَأُجَاهِدَنَّ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ أَعْلَمُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سب سے افضل عمل کے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کیا تین مرتبہ اس نے یہی سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ نماز ہی کا ذکر کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سوال سے مغلوب ہو گئے تو فرمایا: ”جہاد فی سبیل اللہ اس آدمی نے کہا کہ میرے تو والدین بھی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اس کے ساتھ بہتر سلوک کر نے کا حکم دیتا ہوں اس نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں ضرور جہاد میں شرکت کروں گا اور انہیں چھوڑ کر چلاجاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم زیادہ بڑے عالم ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة - وإن كان سييء الحفظ- قد توبع، و تبقي علته منحصرة فى حيي بن عبد الله المعافري، وهو ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن حدثه، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر فتان القبور، فقال عمر: اترد علينا عقولنا يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، كهيئتكم اليوم"، فقال عمر: بفيه الحجر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ فَتَّانَ الْقُبُورِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَتُرَدُّ عَلَيْنَا عُقُولُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، كَهَيْئَتِكُمْ الْيَوْمَ"، فَقَالَ عُمَرُ: بِفِيهِ الْحَجَرُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں میں امتحان لینے والے فرشتوں کا تذکر ہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا اس وقت ہمیں ہماری عقلیں لوٹا دی جائیں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں بالکل آج کی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اس کے منہ میں پتھر (جو وہ میرا امتحان لے سکے)
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني اقرا القرآن، فلا اجد قلبي يعقل عليه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن قلبك حشي الإيمان، وإن الإيمان يعطى العبد قبل القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَلَا أَجِدُ قَلْبِي يَعْقِلُ عَلَيْهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ قَلْبَكَ حُشِيَ الْإِيمَانَ، وَإِنَّ الْإِيمَانَ يُعْطَى الْعَبْدَ قَبْلَ الْقُرْآنِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں قرآن تو پڑھتاہوں لیکن اپنے دل کو اس پر جمتا ہوا نہیں پاتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا دل ایمان سے بھر پور ہے کیونکہ انسان کو قرآن سے پہلے ایمان دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري، وقد تفرد به
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں اب بندے کی مرضی ہے کہ درود کی کثرت کرے یا کمی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ، وعبد الرحمن بن مريح مجهول
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما كالمودع، فقال:" انا محمد النبي الامي" قاله ثلاث مرات" ولا نبي بعدي، اوتيت فواتح الكلم وخواتمه وجوامعه، وعلمت كم خزنة النار وحملة العرش، وتجوز بي وعوفيت، وعوفيت امتي، فاسمعوا واطيعوا ما دمت فيكم، فإذا ذهب بي، فعليكم بكتاب الله، احلوا حلاله، وحرموا حرامه".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا كَالْمُوَدِّعِ، فَقَالَ:" أَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ" قَالَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي، أُوتِيتُ فَوَاتِحَ الْكَلِمِ وَخَوَاتِمَهُ وَجَوَامِعَهُ، وَعَلِمْتُ كَمْ خَزَنَةُ النَّارِ وَحَمَلَةُ الْعَرْشِ، وَتُجُوِّزَ بِي وَعُوفِيتُ، وَعُوفِيَتْ أُمَّتِي، فَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا مَا دُمْتُ فِيكُمْ، فَإِذَا ذُهِبَ بِي، فَعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، أَحِلُّوا حَلَالَهُ، وَحَرِّمُوا حَرَامَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہمارے پاس تشریف لائے جیسے کوئی رخصت کر نے والا ہوتا ہے اور تین مرتبہ فرمایا: ”میں محمد ہوں نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مجھے ابتدائی کلمات، اختتامی کلمات اور جامع کلمات بھی دئیے گئے ہیں میں جانتا ہوں کہ جہنم کے نگران فرشتے اور عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد کتنی ہے؟ مجھ سے تجاوز کیا جا چکا مجھے اور میری امت کو عافیت عطاء فرمادی گئی اس لئے جب تک میں تمہارے درمیان رہوں میری بات سنتے اور مانتے رہو اور جب مجھے لے جایا جائے تو کتاب اللہ کو اپنے اوپر لازم پکڑ لو اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کے حرام کو حرام سمجھو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه، وقوله:’’ لا نبي بعدي‘‘ له شاهد من حديث سعد بن أبى وقاص عند البخاري: 4416، م: 2404
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میرے رب نے مجھ پر شراب جوا جو کی شراب باجے اور گانے والوں کو حرام قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ، وأبو هبيرة الكلاعي مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی کامیاب ہو گیا جس نے ایمان قبول کیا ضرورت اور کفایت کے مطابق اسے روزی نصیب ہو گئی اور اللہ نے اسے اپنی نعمتوں پر قناعت کی دولت عطاء فرما دی۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام بنی آدم کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان قلب واحد کی طرح ہیں وہ انہیں جیسے چاہے پھیر دیتا ہے اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثریہ دعاء فرماتے تھے کہ اے دلوں کو پھیرنے والے اللہ (ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے)۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں فقراء کی اکثریت دیکھی اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو وہاں مالداروں اور عورتوں کی اکثریت دیکھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: ’’ الأغنياء‘‘ فإنها لم ترد فى الشواهد و المتابعات
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے اپنے آپ کو مردانہ صفات سے فارغ کر نے کی اور اپنے غدود کو دبانے کی اجازت دے دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا غدود دبانا (خصی ہونا) روزہ اور قیام ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون ذكر القيام، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة و حيي بن عبد الله
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان ابا ايوب الانصاري كان في مجلس، وهو يقول: الا يستطيع احدكم ان يقوم بثلث القرآن كل ليلة؟ قالوا: وهل يستطيع ذلك؟ قال فإن قل هو الله احد ثلث القرآن، قال: فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يسمع ابا ايوب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صدق ابو ايوب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ فِي مَجْلِسٍ، وَهُوَ يَقُولُ: أَلَا يَسْتَطِيعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقُومَ بِثُلُثِ الْقُرْآنِ كُلَّ لَيْلَةٍ؟ قَالُوا: وَهَلْ يَسْتَطِيعُ ذَلِكَ؟ قَالَ فَإِنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُلُثُ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَسْمَعُ أَبَا أَيُّوبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ أَبُو أَيُّوبَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ کیا تم میں سے کسی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہر رات تہائی قرآن پڑھ لیا کرے؟ لوگوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟ انہوں نے فرمایا: ”سورت اخلاص تہائی قرآن ہے اتنی دیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کی بات سن لی تھی اس لئے فرمایا: ”ابوایوب نے سچ کہا .
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم بابن له، فقال: يا رسول الله، إن ابني هذا يقرا المصحف بالنهار، ويبيت بالليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما تنقم ان ابنك يظل ذاكرا، ويبيت سالما!".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنٍ لَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا يَقْرَأُ الْمُصْحَفَ بِالنَّهَارِ، وَيَبِيتُ بِاللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا تَنْقِمُ أَنَّ ابْنَكَ يَظَلُّ ذَاكِرًا، وَيَبِيتُ سَالِمًا!".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی اپنے بیٹے کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میرا یہ بیٹا دن کو قرآن پڑھتا ہے اور رات کو سوتا رہتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ سارا دن ذکر میں اور رات سلامتی میں گزار لیتا ہے تو تم اس پر کیوں ناراض ہو رہے ہو؟
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي حدثه، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن في الجنة غرفة يرى ظاهرها من باطنها، وباطنها من ظاهرها"، فقال ابو موسى الاشعري: لمن هي يا رسول الله؟ قال:" لمن الان الكلام، واطعم الطعام، وبات لله قائما والناس نيام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرْفَةً يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا، وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا"، فَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِمَنْ أَلَانَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَبَاتَ لِلَّهِ قَائِمًا وَالنَّاسُ نِيَامٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایک کمرہ ایسا ہے جس کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کمرہ کس شخص کو ملے گا؟ فرمایا: ”جو گفتگو میں نرمی کرے کھانا کھلائے اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو اللہ کے سامنے کھڑا ہو کر رازو نیاز کرے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة - وإن كان سييء الحفظ- قد توبع، لكن تبقي علة الحديث فى حيي بن عبد الله، وهو ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن غيلان ، حدثنا رشدين ، حدثني عمرو بن الحارث ، ان توبة بن نمر حدثه، ان ابا عفير عريف بن سريع حدثه، ان رجلا سال ابن عمرو بن العاص، فقال: يتيم كان في حجري، تصدقت عليه بجارية، ثم مات وانا وارثه، فقال له عبد الله بن عمرو : ساخبرك بما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، حمل عمر بن الخطاب على فرس في سبيل الله، ثم وجد صاحبه قد اوقفه يبيعه، فاراد ان يشتريه، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنهاه عنه، وقال:" إذا تصدقت بصدقة فامضها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ تَوْبَةَ بْنَ نَمِرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا عُفَيْرٍ عَرِيفَ بْنَ سَرِيعٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عَمْرِو بْنِ العاص، فَقَالَ: يَتِيمٌ كَانَ فِي حَجْرِي، تَصَدَّقْتُ عَلَيْهِ بِجَارِيَةٍ، ثُمَّ مَاتَ وَأَنَا وَارِثُهُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : سَأُخْبِرُكَ بِمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ وَجَدَ صَاحِبَهُ قَدْ أَوْقَفَهُ يَبِيعُهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهُ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُ عَنْهُ، وَقَالَ:" إِذَا تَصَدَّقْتَ بِصَدَقَةٍ فَأَمْضِهَا".
ایک آدمی نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میرا ایک یتیم بھتیجا میری پرورش میں تھا میں نے اسے ایک باندی صدقے میں دی تھی اب وہ مرگیا اور اس کا وارث بھی میں ہی ہوں؟ انہوں نے فرمایا: ”کہ میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑا سواری کے لئے دے دیا تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے دیکھا کہ وہ آدمی اسے کھڑا فروخت کر رہا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ارادہ ہوا کہ اسے خرید لیں چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کر نے سے منع کر دیا اور فرمایا: ”جب تم کوئی چیز صدقہ کر دو تو اس صدقے کو برقرار رکھا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، علته عريف بن سريع فهو مجهول، ورشدين بن سعد ضعيف
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہمارے گناہوں، ظلم، مذاق، سنجیدگی اور جان بوجھ کر کئے گئے تمام گناہوں کو معاف فرمایہ سب ہماری طرف سے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي ابن عبد الله المعافري
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ساتھ دعاء کیا کرتے تھے کہ اے اللہ میں قرض کے غلبے، دشمن کے غلبے اور دشمنوں کے ہنسی اڑانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے لئے لیٹتے تو یوں کہتے کہ اے پروردگار آپ کے نام پر میں نے اپنے پہلو کو رکھ دیا پس تو میرے گناہوں کو معاف فرما۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة، وحيي كلاهما ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليحفظ جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرا او ليصمت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَحْفَظْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکر ام کرنا چاہئے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی کی حفاظت کر نی چاہئے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہیے یا پھر خاموش رہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، ويونس بن محمد ، قالا: حدثنا فليح بن سليمان ، عن هلال بن علي ، عن عطاء بن يسار ، قال: لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص ، فقلت: اخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة، فقال: اجل، والله إنه لموصوف في التوراة بصفته في القرآن يايها النبي إنا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا سورة الاحزاب آية 45 وحرزا للاميين، وانت عبدي ورسولي، سميتك المتوكل، لست بفظ ولا غليظ، ولا سخاب بالاسواق قال يونس: ولا صخاب في الاسواق، ولا يدفع السيئة بالسيئة، ولكن يعفو ويغفر، ولن يقبضه حتى يقيم به الملة العوجاء، بان يقولوا:" لا إله إلا الله، فيفتح بها اعينا عميا، وآذانا صما، وقلوبا غلفا"، قال عطاء: لقيت كعبا فسالته، فما اختلفا في حرف، إلا ان كعبا يقول: بلغته اعينا عمومى، وآذانا صمومى، وقلوبا غلوفى، قال يونس غلفى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ، فَقَالَ: أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِصِفَتِهِ فِي الْقُرْآنِ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا سورة الأحزاب آية 45 وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ، وَأَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ، لَسْتَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ قَالَ يُونُسُ: وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَةَ بِالسَّيِّئَةِ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَلَنْ يَقْبِضَهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ، بِأَنْ يَقُولُوا:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا"، قَالَ عَطَاءٌ: لَقِيتُ كَعْبًا فَسَأَلْتُهُ، فَمَا اخْتَلَفَا فِي حَرْفٍ، إِلَّا أَنَّ كَعْبًا يَقُولُ: بِلُغَتِهِ أَعْيُنًا عُمُومَى، وَآذَانًا صُمُومَى، وَقُلُوبًا غُلُوفَى، قَالَ يُونُسُ غُلْفَى.
عطاء بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی میں نے ان سے عرض کیا کہ تورات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات بیان گئی ہیں ان کے متعلق مجھے بتائیے انہوں نے فرمایا: ”اچھا واللہ تورات میں ان کی وہی صفات بیان کی گئی ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے " اور امیین کے لئے حفاظت بنا کر مبعوث کیا ہے آپ میرے بندے اور رسول ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھ دیا ہے آپ تندخو، سخت دل، بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے نہیں ہیں بلکہ در گزر اور معاف کر دینے والے ہیں اللہ انہیں اس وقت تک اپنے پاس نہیں بلائے گا جب تک ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے گا کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کر نے لگیں، پھر اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اندھی آنکھوں کو، بہرے کانوں کو اور پردوں میں لپٹے دلوں کو کھول دے گا۔
عطاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں کعب احبار سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال پوچھا تو ان دونوں کے جواب میں ایک حرف کا فرق بھی نہ تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا خلف يعني ابن خليفة ، عن ابي جناب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتوضا وضوءا مكيثا، فرفع راسه، فنظر إلي، فقال:" ست فيكم ايتها الامة موت نبيكم صلى الله عليه وسلم"، فكانما انتزع قلبي من مكانه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" واحدة"، قال:" ويفيض المال فيكم حتى إن الرجل ليعطى عشرة آلاف، فيظل يتسخطها"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثنتين"، قال:" وفتنة تدخل بيت كل رجل منكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاث"، قال:" وموت كقعاص الغنم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اربع"، قال:" وهدنة تكون بينكم وبين بني الاصفر، ليجمعون لكم تسعة اشهر، كقدر حمل المراة، ثم يكونون اولى بالغدر منكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خمس"، قال:" وفتح مدينة"، قال رسول الله:" ست"، قلت: يا رسول الله، اي مدينة؟ قال" قسطنطينية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابْنَ خَلِيفَةَ ، عَنْ أَبِي جَنَابٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ وُضُوءًا مَكِيثًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيَّ، فَقَالَ:" سِتٌّ فِيكُمْ أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ مَوْتُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَكَأَنَّمَا انْتَزَعَ قَلْبِي مِنْ مَكَانِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَاحِدَةٌ"، قَالَ:" وَيَفِيضُ الْمَالُ فِيكُمْ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُعْطَى عَشَرَةَ آلَافٍ، فَيَظَلُّ يَتَسَخَّطُهَا"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثِنْتَيْنِ"، قَالَ:" وَفِتْنَةٌ تَدْخُلُ بَيْتَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثٌ"، قَال:" وَمَوْتٌ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْبَعٌ"، قَالَ:" وَهُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ، لَيَجْمَعُونَ لَكُمْ تِسْعَةَ أَشْهُرٍ، كَقَدْرِ حَمْلِ الْمَرْأَةِ، ثُمَّ يَكُونُونَ أَوْلَى بِالْغَدْرِ مِنْكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَمْسٌ"، قَالَ:" وَفَتْحُ مَدِينَةٍ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ:" سِتٌّ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَدِينَةٍ؟ قَالَ" قَسْطَنْطِيْنِيَّةُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور فرمایا: ”اے میری امت تم میں چھ چیزیں ہوں گی تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ایسا لگا جیسے کسی نے میرا دل کھینچ لیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک ہوئی تمہارے پاس اتنا مال آ جائے گا اگر کسی کو دس ہزار بھی دئیے جائیں تو وہ ناراض ہی رہے گا یہ دوسری ہوئی، وہ فتنہ جو گھر گھر میں داخل ہو جائے گا، یہ تیسری ہوئی بکر یوں کی گردن توڑ بیماری کی طرح موت یہ چوتھی ہوئی تمہارے اور رومیوں کے درمیان صلح جو عورت کے زمانہ حمل کے بقدر نو مہینے تک تمہارے ساتھ اکٹھے رہیں گے، پھر وہی عہدشکنی میں پہل کر یں گے یہ پانچویں چیز ہوئی اور ایک شہر کی فتح، یہ چھٹی چیز ہوئی میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کون ساشہر؟ فرمایا: ”قسطنطنیہ۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناده ضعيف، أبو جناب يحيي بن أبى حية الكلبي ضعيف
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غازی کو تو اس کا اپنا اجر ہی ملے گا غازی بنانے والے کو اپنا بھی غازی کا بھی اجر ملے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کر یں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله كلاهما ضعيف
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جانب سے واپس چلے جاتے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کر نے سے، بیع اور ادھار سے، اس چیز کی بیع سے جو ضمانت میں ابھی داخل نہ ہوئی ہو اور اس چیز کی بیع سے جو آپ کے پاس موجود نہ ہو " منع فرمایا: ”۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر الحنفي ، اخبرنا اسامة بن زيد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" مثل الذي يسترد ما وهب، كمثل الكلب يقيء فياكل منه، وإذا استرد الواهب، فليوقف بما استرد، ثم ليرد عليه ما وهب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَسْتَرِدُّ مَا وَهَبَ، كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيءُ فَيَأْكُلُ مِنْهُ، وَإِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاهِبُ، فَلْيُوقَفْ بِمَا اسْتَرَدَّ، ثُمَّ لِيُرَدَّ عَلَيْهِ مَا وَهَبَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ہدیئے کو واپس مانگنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی کتا قے کر کے اس کو چاٹ لے جب کوئی ہدیہ دینے والا اپنا ہدیہ واپس مانگے تو لینے والے کو چاہئے کہ اسے اچھی طرح تلاش کرے اور جب مل جائے تو اسے واپس لوٹادے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روئے زمین پر اور آسمان کے سائے تلے ابوذر رضی اللہ عنہ زیادہ سچا آدمی کوئی نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عثمان بن عمير
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا ابو معاوية يعني شيبان ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، انه قال:" كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنودي بالصلاة جامعة، فركع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين في سجدة، ثم قام فركع ركعتين في سجدة، ثم جلي عن الشمس"، قال: قالت عائشة: ما سجدت سجودا قط، ولا ركعت ركوعا قط كان اطول منه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي شَيْبَانَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ:" كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ جَامِعَةً، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ، ثُمَّ جُلِّيَ عَنِ الشَّمْسِ"، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا سَجَدْتُ سُجُودًا قَطُّ، وَلَا رَكَعْتُ رُكُوعًا قَطُّ كَانَ أَطْوَلَ مِنْهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا تو " نماز تیار ہے " کا اعلان کر دیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کئے اور دوسری رکعت میں بھی ایساہی کیا پھر سورج روشن ہو گیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس دن سے طویل رکوع سجدہ کبھی نہیں دیکھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، عن عطاء ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا قال ذات يوم، ودخل الصلاة: الحمد لله ملء السماء، وسبح ودعا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قائلهن؟" فقال الرجل: انا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لقد رايت الملائكة تلقى به بعضهم بعضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَدَخَلَ الصَّلَاةَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مِلْءَ السَّمَاءِ، وَسَبَّحَ وَدَعَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَائِلُهُنَّ؟" فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ رَأَيْتُ الْمَلَائِكَةَ تَلَقَّى بِهِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نماز کے دوران ایک آدمی نے کہا الحمدللہ ملء السماء پھر تسبیح کہی اور دعاء کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پوچھا یہ کلمات کہنے والا کون ہے؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے ان کلمات کا ثواب لکھنے کے لئے آئے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ کے غضب سے مجھے کون سی چیز دور کر سکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غصہ نہ کیا کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤمنیں کی روحیں ایک دن کی مسافت پر ملاقات کر لیتی ہیں ابھی ان میں سے کسی نے دوسرے کو دیکھا نہیں ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن الحبلي حدثه، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية، فغنموا، واسرعوا الرجعة، فتحدث الناس بقرب مغزاهم، وكثرة غنيمتهم، وسرعة رجعتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا ادلكم على اقرب منه مغزى، واكثر غنيمة، واوشك رجعة؟ من توضا، ثم غدا إلى المسجد لسبحة الضحى، فهو اقرب مغزى، واكثر غنيمة، واوشك رجعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَغَنِمُوا، وَأَسْرَعُوا الرَّجْعَةَ، فَتَحَدَّثَ النَّاسُ بِقُرْبِ مَغْزَاهُمْ، وَكَثْرَةِ غَنِيمَتِهِمْ، وَسُرْعَةِ رَجْعَتِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَقْرَبَ مِنْهُ مَغْزًى، وَأَكْثَرَ غَنِيمَةً، وَأَوْشَكَ رَجْعَةً؟ مَنْ تَوَضَّأَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لِسُبْحَةِ الضُّحَى، فَهُوَ أَقْرَبُ مَغْزًى، وَأَكْثَرُ غَنِيمَةً، وَأَوْشَكُ رَجْعَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ روانہ فرمایا: ”وہ مال غنیمت حاصل کر کے بہت جلدی واپس آگئے لوگ ان کے مقام جہاد کے قرب، کثرت غنیمت اور جلد واپسی کے متعلق باتیں کر نے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس سے زیادہ قریب کی جگہ کثرت غنیمت اور جلد واپسی کے متعلق نہ بتاؤں؟ جو شخص وضو کر کے چاشت کی نماز کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہو وہ اس سے بھی زیادہ قریب کی جگہ، کثرت غنیمت اور جلد واپسی والی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال جاء حمزة بن عبد المطلب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اجعلني على شيء اعيش به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا حمزة، نفس تحييها احب إليك ام نفس تميتها؟" قال: بل نفس احييها، قال:" عليك بنفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ جَاءَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْنِي عَلَى شَيْءٍ أَعِيشُ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا حَمْزَةُ، نَفْسٌ تُحْيِيهَا أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ نَفْسٌ تُمِيتُهَا؟" قَالَ: بَلْ نَفْسٌ أُحْيِيهَا، قَالَ:" عَلَيْكَ بِنَفْسِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ!! مجھے کسی کام پر مقر کر دیجئے، تاکہ میں اس کے ذریعے اپنی زندگی بسر کر سکوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ! کیا نفس کو زندہ رکھنا تمہیں زیادہ محبوب ہے یا مارنا؟ انہوں نے عرض کیا زندہ رکھنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اپنے نفس کو اپنے اوپر لازم پکڑو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي ابن عبد الله المعافري
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت پر صرف " دودھ " کا اندیشہ ہے کیونکہ شیطان " جھاگ " اور " خالص " کے درمیان ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله المعافري
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما عمل الجنة؟ قال:" الصدق، وإذا صدق العبد بر، وإذا بر آمن، وإذا آمن، دخل الجنة"، قال: يا رسول الله، ما عمل النار؟ قال:" الكذب إذا كذب العبد فجر، وإذا فجر كفر، وإذا كفر دخل" يعني النار.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَمَلُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ:" الصِّدْقُ، وَإِذَا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ، وَإِذَا بَرَّ آمَنَ، وَإِذَا آمَنَ، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَمَلُ النَّارِ؟ قَالَ:" الْكَذِبُ إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ فَجَرَ، وَإِذَا فَجَرَ كَفَرَ، وَإِذَا كَفَرَ دَخَلَ" يَعْنِي النَّارَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ!! جنتی عمل کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ بولناجب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو ایمان لاتا ہے اور جب ایمان لے آیا تو جنت میں داخل ہو جائے گا پھر اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! جہنمی عمل کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ بولنا جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو کفر کرتا ہے اور جب کفر کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ شب برأت کے موقع پر اپنی مخلوق کو جھانک کر دیکھتا ہے اور اپنے سارے بندوں کو معاف کر دیتا ہے، سوائے دو آدمیوں کے، ایک تو آپس میں بغض و عداوت رکھنے والوں کو اور دوسرا قاتل کو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورت مائدہ اس حال میں نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار تھے، وہ سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے اترنا پڑا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وحيي بن عبد الله
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا إبراهيم بن محمد ابو إسحاق الفزاري ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني ربيعة بن يزيد ، عن عبد الله بن الديلمي ، قال: دخلت على عبد الله بن عمرو، وهو في حائط له بالطائف، يقال له: الوهط، وهو مخاصر فتى من قريش، يزن بشرب الخمر، فقلت: بلغني عنك حديث انه من شرب شربة خمر لم يقبل الله له توبة اربعين صباحا، وان الشقي من شقي في بطن امه، وانه من اتى بيت المقدس لا ينهزه إلا الصلاة فيه، خرج من خطيئته مثل يوم ولدته امه، فلما سمع الفتى ذكر الخمر، اجتذب يده من يده، ثم انطلق، ثم قال عبد الله بن عمرو : إني لا احل لاحد ان يقول علي ما لم اقل، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من شرب من الخمر شربة لم تقبل له صلاة اربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد لم تقبل له صلاة اربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد" قال: فلا ادري في الثالثة او في الرابعة" فإن عاد كان حقا على الله ان يسقيه من ردغة الخبال يوم القيامة". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله عز وجل خلق خلقه في ظلمة، ثم القى عليهم من نوره يومئذ، فمن اصابه من نوره يومئذ، اهتدى، ومن اخطاه، ضل"، فلذلك اقول: جف القلم على علم الله عز وجل. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن سليمان بن داود عليه السلام سال الله ثلاثا، اعطاه اثنتين، ونحن نرجو ان تكون له الثالثة: فساله حكما يصادف حكمه، فاعطاه الله إياه، وساله ملكا لا ينبغي لاحد من بعده، فاعطاه إياه، وساله ايما رجل خرج من بيته لا يريد إلا الصلاة في هذا المسجد خرج من خطيئته مثل يوم ولدته امه، فنحن نرجو ان يكون الله عز وجل قد اعطاه إياه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهُوَ فِي حَائِطٍ لَهُ بِالطَّائِفِ، يُقَالُ لَهُ: الْوَهْطُ، وَهُوَ مُخَاصِرٌ فَتًى مِنْ قُرَيْشٍ، يُزَنُّ بِشُرْبِ الْخَمْرِ، فَقُلْتُ: بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ أَنَّه مَنْ شَرِبَ شَرْبَةَ خَمْرٍ لَمْ يَقْبَلْ اللَّهُ لَهُ تَوْبَةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، وَأَنَّ الشَّقِيَّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَأَنَّهُ مَنْ أَتَى بَيْتَ الْمَقْدِسِ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ فِيهِ، خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، فَلَمَّا سَمِعَ الْفَتَى ذِكْرَ الْخَمْرِ، اجْتَذَبَ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : إِنِّي لَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ شَرِبَ مِنَ الْخَمْرِ شَرْبَةً لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِنْ عَادَ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِنْ عَادَ" قَالَ: فَلَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ" فَإِنْ عَادَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ رَدْغَةِ الْخَبَالِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ يَوْمَئِذٍ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ نُورِهِ يَوْمَئِذٍ، اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ، ضَلَّ"، فَلِذَلِكَ أَقُولُ: جَفَّ الْقَلَمُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا، أَعْطَاهُ اثْنَتَيْنِ، وَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ تَكُونَ لَهُ الثَّالِثَةُ: فَسَأَلَهُ حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، فَأَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ، وَسَأَلَهُ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَسَأَلَهُ أَيُّمَا رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، فَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ يَكُونَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ".
عبداللہ بن دیلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اس وقت وہ طائف میں " وہط " نامی اپنے باغ میں تھے اور قریش کے ایک نوجوان کی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر اسے جھکا رہے تھے، اس نوجوان کو شراب پینے کی وجہ سے سزا ہو رہی تھی، میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے یہ حدیث معلوم ہوئی ہے کہ جو شخص شراب کا ایک گھونٹ پی لے اللہ چالیس دن تک اس کی توبہ کو قبول نہیں کرتا؟ اور یہ کہ اصل بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ سے ہی بدبخت آیا ہو اور یہ کہ جو شخص بیت المقدس حاضر ہو وہاں حاضری کا مقصد صرف وہاں نماز پڑھنا ہو تو وہ گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو جائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے جنم لے کر آیا ہو۔ وہ نوجوان شراب کا ذکر سنتے ہی اپنا ہاتھ چھڑا کر چلا گیا اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں کسی شخص کے لئے اس بات کو حلال نہیں کرتا کہ وہ میری طرف ایسی بات کو منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو، میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص شراب کا ایک گھونٹ پی لے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اگر دوبارہ شراب پیئے تو پھر چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی پھر اگر توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ”کہ اگر دوبارہ پیئے تو اللہ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اسے جہنمیوں کی پیپ پلائے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر اسی دن ان پر نور ڈالا، جس پر وہ نور پڑگیا وہ ہدایت پا گیا اور جسے وہ نور نہ مل سکا وہ گمراہ ہو گیا اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم کے مطابق لکھ کر قلم خشک ہوچکے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ سے تین دعائیں کیں جن میں سے اللہ نے دو کو قبول کر لیا اور ہمیں امید ہے کہ تیسری بھی ان کے حق میں ہو گی انہوں نے اللہ سے صحیح فیصلہ کر نے کی صلاحیت مانگی، اللہ نے انہیں وہ عطاء کر دی انہوں نے اللہ سے ایسی حکومت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ مل سکے، اللہ نے انہیں وہ بھی عطاء کر دی انہوں نے اللہ سے دعاء کی کہ جو شخص اپنے گھر سے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے ارادے سے نکلے تو وہ نماز کے بعد وہاں سے ایسے نکلے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو، ہمیں امید ہے کہ اللہ نے انہیں یہ بھی عطاء فرما دیا ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن إسحاق ، حدثنا يحيى بن ايوب ، حدثني ابو قبيل ، قال: كنا عند عبد الله بن عمرو بن العاص، وسئل اي المدينتين تفتح اولا القسطنطينية او رومية؟ فدعا عبد الله بصندوق له حلق، قال: فاخرج منه كتابا، قال: فقال عبد الله : بينما نحن حول رسول الله صلى الله عليه وسلم نكتب، إذ سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم اي المدينتين تفتح اولا قسطنطينية او رومية؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مدينة هرقل تفتح اولا" يعني قسطنطينية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي أَبُو قَبِيلٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص، وَسُئِلَ أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ بِصُنْدُوقٍ لَهُ حَلَقٌ، قَالَ: فَأَخْرَجَ مِنْهُ كِتَابًا، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكْتُبُ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا" يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھاقسطنطینہ اور رومیہ میں سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک صندوق منگوایا جس کے اردگردحلقے لگے ہوئے تھے اس میں سے ایک کتاب نکالی اور کہنے لگے کہ ہم ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر لکھ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ سوال ہوا کہ قسطنطنیہ اور رومیہ میں سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرقل کا شہر یعنی قسطنطنیہ پہلے فتح ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يحيي بن أيوب الغافقي مختلف فيه
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں فوت ہو جائے اللہ اسے قبر کی آزمائش سے بچا لیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بقية بن الوليد الحمصي
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا عبد الله بن هبيرة ، عن ابي سالم الجيشاني ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يحل ان ينكح المراة بطلاق اخرى، ولا يحل لرجل ان يبيع على بيع صاحبه حتى يذره، ولا يحل لثلاثة نفر يكونون بارض فلاة إلا امروا عليهم احدهم ولا يحل لثلاثة نفر يكونون بارض فلاة يتناجى اثنان دون صاحبهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ أَنْ يَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِطَلَاقِ أُخْرَى، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ صَاحِبِهِ حَتَّى يَذَرَهُ، وَلَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ وَلَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کسی عورت سے دوسری کو طلاق ہونے کی وجہ سے نکاح کرنا حلال نہیں کسی شخص کے لئے اپنے ساتھی کے بیع پر بیع کرنا حلال نہیں جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے اور ایسے تین آدمیوں کے لئے جو کسی اجنبی علاقے (جنگل) میں ہوں ضروری ہے کہ اپنے اوپر کسی ایک کو امیر مقرر کر لیں اور ایسے تین آدمیوں کے لئے جو کسی جنگل میں ہوں حلال نہیں ہے کہ ان میں سے دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر سرگوشی کر نے لگیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، إلا حديث الإمارة فحسن، و هذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک سیدھا مسلمان اپنے حسن اخلاق اور اپنی شرافت و مہربانی کی وجہ سے ان لوگوں کے درجے تک جاپہنچتا ہے جو روزہ دار اور شب زندہ دار ہوتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن جندب بن عبد الله ، انه سمع سفيان بن عوف ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ونحن عنده:" طوبى للغرباء"، فقيل: من الغرباء يا رسول الله؟ قال:" اناس صالحون، في اناس سوء كثير، من يعصيهم اكثر ممن يطيعهم". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وكنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما آخر، حين طلعت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سياتي اناس من امتي يوم القيامة، نورهم كضوء الشمس"، قلنا: من اولئك يا رسول الله؟ فقال:" فقراء المهاجرين، والذين تتقى بهم المكاره، يموت احدهم وحاجته في صدره، يحشرون من اقطار الارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ عَوْفٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَهُ:" طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، فَقِيلَ: مَنْ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أُنَاسٌ صَالِحُونَ، فِي أُنَاسِ سُوءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَكُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا آخَرَ، حِينَ طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَيَأْتِي أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نُورُهُمْ كَضَوْءِ الشَّمْسِ"، قُلْنَا: مَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، وَالَّذِينَ تُتَّقَى بِهِمْ الْمَكَارِهُ، يَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ خوشخبری ہے غرباء کے لئے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برے لوگ کے تم جم غفیر میں تھوڑے سے نیک لوگ جن کی بات ماننے والوں کی تعداد سے زیادہ نہ ماننے والوں کی تعداد ہو۔ اور ہم ایک دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس وقت سورج طلوع ہو رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ اس طرح آئیں گے کہ ان کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا ہم نے پوچھا یا رسول اللہ!! وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”فقراء مہاجرین جن کے ذریعے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا ہے وہ لوگ اپنی ضروریات اپنے سینے میں ہی لے کر مرجاتے تھے انہیں زمین کے کونے کونے سے جمع کر لیا جائے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ!! مجالس ذکر کی غنیمت کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذکر کی غنیمت جنت ہے جنت۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف، و راشد بن يحيي المعافري مجهول
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر چار چیزیں اور خصلتیں تمہارے اندر ہوں تو اگر ساری دنیا بھی چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں، امانت کی حفاظت، بات میں سچائی، اخلاق کی عمدگی اور کھانے میں پاکیزگی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين الحارث ابن زيد الحضرمي و بين عبد الله بن عمرو، وابن لهيعة سييء الحفظ، و روي الحديث موقوفا، وهو أصح
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا بكر بن عمرو ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" القلوب اوعية، وبعضها اوعى من بعض، فإذا سالتم الله عز وجل، ايها الناس، فاسالوه وانتم موقنون بالإجابة، فإن الله لا يستجيب لعبد دعاه عن ظهر قلب غافل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقُلُوبُ أَوْعِيَةٌ، وَبَعْضُهَا أَوْعَى مِنْ بَعْضٍ، فَإِذَا سَأَلْتُمْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، أَيُّهَا النَّاسُ، فَاسْأَلُوهُ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ لِعَبْدٍ دَعَاهُ عَنْ ظَهْرِ قَلْبٍ غَافِلٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دل برتنوں کے طرح ہوتے ہیں، بعض بعض سے گہرے ہوتے ہیں اس لئے اے لوگوں جب تم اللہ سے سوال کرو تو قبولیت کے یقین کے ساتھ مانگا کرو کیونکہ اللہ کسی ایسے بندے کی دعاء کو قبول نہیں کرتا جو غافل دل سے اسے پکارے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: توفي رجل بالمدينة، فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا ليته مات في غير مولده"، فقال رجل من الناس: لم يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إن الرجل إذا توفي في غير مولده قيس له من مولده إلى منقطع اثره، في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ بِالْمَدِينَةِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا لَيْتَهُ مَاتَ فِي غَيْرِ مَوْلِدِهِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا تُوُفِّيَ فِي غَيْرِ مَوْلِدِهِ قِيسَ لَهُ مِنْ مَوْلِدِهِ إِلَى مُنْقَطَعِ أَثَرِهِ، فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کا مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی اور فرمایا: ”کاش کہ یہ اپنے وطن میں نہ مرتا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! یہ کیوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اپنے وطن کے علاوہ کہیں اور مرے تو اس کے لئے اس کے وطن سے لے کر اس کے نشان قدم کی انتہاء تک جنت میں جگہ عطاء فرمائی جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة. وإن كان سييء الحفظ. توبع، وتنحصر علته فى حيي بن عبد الله المعافري ، وهو ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي حدثه، عن عبد الله بن عمرو ، ان امراة سرقت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء بها الذين سرقتهم، فقالوا: يا رسول الله، إن هذه المراة سرقتنا، قال قومها: فنحن نفديها يعني اهلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقطعوا يدها"، فقالوا: نحن نفديها بخمس مائة دينار، قال:" اقطعوا يدها"، قال: فقطعت يدها اليمنى، فقالت المراة: هل لي من توبة يا رسول الله؟ قال:" نعم، انت اليوم من خطيئتك كيوم ولدتك امك"، فانزل الله عز وجل في سورة المائدة فمن تاب من بعد ظلمه واصلح سورة المائدة آية 39 إلى آخر الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بِهَا الَّذِينَ سَرَقَتْهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذِهِ الْمَرْأَةَ سَرَقَتْنَا، قَالَ قَوْمُهَا: فَنَحْنُ نَفْدِيهَا يَعْنِي أَهْلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْطَعُوا يَدَهَا"، فَقَالُوا: نَحْنُ نَفْدِيهَا بِخَمْسِ مِائَةِ دِينَارٍ، قَالَ:" اقْطَعُوا يَدَهَا"، قَالَ: فَقُطِعَتْ يَدُهَا الْيُمْنَى، فَقَالَتْ الْمَرْأَةُ: هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، أَنْتِ الْيَوْمَ مِنْ خَطِيئَتِكِ كَيَوْمِ وَلَدَتْكِ أُمُّكِ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ سورة المائدة آية 39 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک عورت نے چوری کی جن لوگوں کے یہاں چوری ہوئی تھی وہ اس عورت کو پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آے اور کہنے لگے یا رسول اللہ!! اس عورت نے ہمارے یہاں چوری کی ہے اس عورت کی قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم انہیں اس کا فدیہ دینے کے لئے تیار ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا ہاتھ کاٹ دو وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم اس کا فدیہ پچاس دینار دینے کو تیار ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو چنانچہ اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
بعد میں وہ عورت کہنے لگی یا رسول اللہ! کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تک اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو کہ گویا تمہاری ماں نے تمہیں آج ہی جنم دیا ہو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورت مائدہ کی یہ آیت نازل فرمائی جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکر یوں کے ریوڑ میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے لیکن اونٹوں اور گائے کے باڑے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري.
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، حدثني عمرو يعني ابن الحارث ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من ترك الصلاة سكرا مرة واحدة، فكانما كانت له الدنيا وما عليها فسلبها، ومن ترك الصلاة سكرا اربع مرات، كان حقا على الله عز وجل ان يسقيه من طينة الخبال"، قيل: وما طينة الخبال يا رسول الله، قال:" عصارة اهل جهنم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ سُكْرًا مَرَّةً وَاحِدَةً، فَكَأَنَّمَا كَانَتْ لَهُ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا فَسُلِبَهَا، وَمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ سُكْرًا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ"، قِيلَ: وَمَا طِينَةُ الْخَبَالِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" عُصَارَةُ أَهْلِ جَهَنَّمَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نشے کی وجہ سے ایک مرتبہ نماز چھوڑ دے تو اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے اس کے پاس دنیا اور اس کی ساری نعمتیں تھیں جو اس سے چھین لی گئیں اور جو شخص نشے کی وجہ چار نمازیں چھوڑ دے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے طینۃ الخبال میں سے کچھ پلائے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! طینۃ الخبال کس چیز کا نام ہے؟ فرمایا: ”اہل جہنم کی پیپ کا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جانب سے واپس چلے جاتے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جعفر الرازي
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وعظ صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کی اجازت دی گئی ہو یا ریاکار۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ جو شخص خطاء ًمارآ جائے اس کی دیت سو اونٹ ہی ہو گی جن میں سے تیس بنت مخاض، تیس بنت لبون، تیس حقے اور دس ابن لبون مذکر ہوں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص کنواری عورت سے شادی کر لے تو باری مقرر کر نے سے پہلے تین دن اس کے پاس گزارے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، حجاج بن أرطاة كثير الخطأ و التدليس، وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما عبد كوتب على مائة اوقية، فاداها إلا عشر اوقيات، فهو رقيق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا عَبْدٍ كُوتِبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَ أُوقِيَّاتٍ، فَهُوَ رَقِيقٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام سے سو اوقیہ بدل کتابت اداء کر نے پر آزادی کا وعدہ کر لیا جائے اور وہ نوے اوقیہ ادا کر دے تب بھی وہ غلام ہی رہے گا (تا آنکہ مکمل ادائیگی کر دے)
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: اتت النبي صلى الله عليه وسلم امراتان، في ايديهما اساور من ذهب، فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتحبان ان يسوركما الله يوم القيامة اساور من نار؟" قالتا: لا، قال:" فاديا حق هذا الذي في ايديكما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَتَانِ، فِي أَيْدِيهِمَا أَسَاوِرُ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَسَاوِرَ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لَا، قَالَ:" فَأَدِّيَا حَقَّ هَذَا الَّذِي فِي أَيْدِيكُمَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ دو عورتیں آئیں جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس بات کو پسند کر تی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ وہ کہنے لگیں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تمہارے ہاتھوں میں جو کنگن ہیں ان کا حق ادا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم والناس يتكلمون في القدر، قال: وكانما تفقا في وجهه حب الرمان من الغضب، قال: فقال لهم:" ما لكم تضربون كتاب الله بعضه ببعض؟! بهذا هلك من كان قبلكم"، قال: فما غبطت نفسي بمجلس فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم لم اشهده، بما غبطت نفسي بذلك المجلس، اني لم اشهده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالنَّاسُ يَتَكَلَّمُونَ فِي الْقَدَرِ، قَالَ: وَكَأَنَّمَا تَفَقَّأَ فِي وَجْهِهِ حَبُّ الرُّمَّانِ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ:" مَا لَكُمْ تَضْرِبُونَ كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ؟! بِهَذَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ"، قَالَ: فَمَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِمَجْلِسٍ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَشْهَدْهُ، بِمَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِذَلِكَ الْمَجْلِسِ، أَنِّي لَمْ أَشْهَدْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف تو لوگ تقدیر کے متعلق گفتگو کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر غصے کے مارے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے انار نچوڑ دیا ہو اور فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم کتاب اللہ کے ایک حصے کو دوسرے حصے پر مارتے ہو؟ تم سے پہلی قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں مجھے کسی مجلس کے متعلق اتناخیال کبھی پیدا نہیں ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوں کہ میں اس میں حاضر نہ ہوتا تو اچھا ہوتا سوائے اس مجلس کے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف عند الجمرة الثانية اطول مما وقف عند الجمرة الاولى، ثم اتى جمرة العقبة، فرماها، ولم يقف عندها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الثَّانِيَةِ أَطْوَلَ مِمَّا وَقَفَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولَى، ثُمَّ أَتَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَرَمَاهَا، وَلَمْ يَقِفْ عِنْدَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ اولیٰ کی نسبت زیادہ دیر ٹھہرے رہے پھر جمرہ عقبہ پر تشریف لا کر رمی کی اور وہاں نہیں ٹھہرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب شرمگاہیں مل جائیں اور مرد کی شرمگاہ چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا ايوب ، حدثني عمرو بن شعيب ، حدثني ابي ، عن ابيه ، قال: ذكر عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يحل سلف وبيع، ولا شرطان في بيع، ولا ربح ما لم يضمن، ولا بيع ما ليس عندك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذَكَرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کر نے اور ادھار سے اس چیز کی بیع سے ضمانت میں بھی داخل نہ ہوئی ہو اور اس چیز کی بیع سے " جو آپ کے پاس موجود نہ ہو " منع فرمایا: ”۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ليث ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" لا تنتفوا الشيب، فإنه نور المسلم، ما من مسلم يشيب شيبة في الإسلام إلا كتب له بها حسنة، ورفع بها درجة، او حط عنه بها خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ، فَإِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةٌ، وَرُفِعَ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ حُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سفید بالوں کو مت نوچا کرو کیونکہ یہ مسلمان کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت میں اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے یا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن ليث ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من منع فضل مائه، او فضل كلئه، منعه الله فضله يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مَنَعَ فَضْلَ مَائِهِ، أَوْ فَضْلَ كَلَئِهِ، مَنْعَهُ اللَّهُ فَضْلَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص زائد پانی یا زائدگھاس کسی کو دینے سے روکتا ہے اللہ قیامت کے اس سے اپنا فضل روک لے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، حدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تنتفوا الشيب، فإنه ما من عبد يشيب في الإسلام شيبة إلا كتب الله له بها حسنة، وحط عنه بها خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ، فَإِنَّهُ مَا مِنْ عَبْدٍ يَشِيبُ فِي الْإِسْلَامِ شَيْبَةً إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سفید بالوں کو مت نوچا کرو کیونکہ یہ مسلمان کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت میں اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے یا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن عجلان ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشراء والبيع في المسجد، وان تنشد فيه الاشعار، وان تنشد فيه الضالة، وعن الحلق يوم الجمعة قبل الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ الْأَشْعَارُ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ الضَّالَّةُ، وَعَنِ الْحِلَقِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خریدو فروخت اشعار کہنے گمشدہ چیزوں کا اعلان کر نے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقے لگانے سے منع فرمایا: ”ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن عجلان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يحشر المتكبرون يوم القيامة امثال الذر، في صور الناس، يعلوهم كل شيء من الصغار، حتى يدخلوا سجنا في جهنم، يقال له: بولس، فتعلوهم نار الانيار، يسقون من طينة الخبال، عصارة اهل النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ، فِي صُوَرِ النَّاسِ، يَعْلُوهُمْ كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الصَّغَارِ، حَتَّى يَدْخُلُوا سِجْنًا فِي جَهَنَّمَ، يُقَالُ لَهُ: بُولَسُ، فَتَعْلُوَهُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ، يُسْقَوْنَ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ، عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن متکبروں کو چیونٹیوں کی طرح پیش کیا جائے گا گویا کہ ان کی شکلیں انسان جیسی ہوں گی ہر حقیر چیز ان سے بلند ہو گی یہاں تک کہ وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے میں داخل ہو جائیں گے جس کا نام " بولس " ہو گا اور ان لوگوں پر آگوں کی آگ چھآ جائے گی انہیں طینۃ الخبال کا پانی جہاں اہل جہنم کی پیپ جمع ہو گی پلایا جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا عبيد الله بن الاخنس ، حدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: اتى اعرابي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابي يريد ان يجتاح مالي؟ قال:" انت ومالك لوالدك، إن اطيب ما اكلتم من كسبكم، وإن اموال اولادكم من كسبكم، فكلوه هنيئا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: أَتَى أَعْرَابِيٌّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي؟ قَالَ:" أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ، وَإِنَّ أَمْوَالَ أَوْلَادِكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوهُ هَنِيئًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میرا باپ میرے مال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے سب سے پاکیزہ چیز جو تم کھاتے ہو وہ تمہاری کمائی کا کھانا ہے اور تمہاری اولاد کا مال تمہاری کمائی ہے لہٰذا اسے خوب رغبت کے ساتھ کھاؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حسين ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي حافيا وناعلا، ويصوم في السفر ويفطر، ويشرب قائما وقاعدا، وينصرف عن يمينه وعن شماله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَافِيًا وَنَاعِلًا، وَيَصُومُ فِي السَّفَرِ وَيُفْطِرُ، وَيَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا، وَيَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پاؤں اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں روزہ رکھتے ہوئے اور ناغہ کرتے ہوئے کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پانی پیتے ہوئے اور دائیں بائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى على بعض اصحابه خاتما من ذهب، فاعرض عنه فالقاه، واتخذ خاتما من حديد، قال: فقال:" هذا اشر هذا حلية اهل النار"، فالقاه، واتخذ خاتما من ورق، فسكت عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَأَلْقَاهُ، وَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، قَالَ: فَقَالَ:" هَذَا أَشَرُّ هَذَا حِلْيَةُ أَهْلِ النَّارِ"، فَأَلْقَاهُ، وَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَسَكَتَ عَنْهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں سونے انگوٹھی دیکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اس نے وہ پھینک کر لوہے کی انگوٹھی بنوالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اس سے بھی بری ہے یہ تو اہل جہنم کا زیور ہے اس نے وہ بھی پھینک کر چاندی کی انگوٹھی بنوا لی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا: ”۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن حسين ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لما فتحت مكة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كفوا السلاح إلا خزاعة عن بني بكر"، فاذن لهم، حتى صلى العصر، ثم قال:" كفوا السلاح"، فلقي رجل من خزاعة رجلا من بني بكر من غد، بالمزدلفة، فقتله، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام خطيبا، فقال: ورايته وهو مسند ظهره إلى الكعبة، قال:" إن اعدى الناس على الله من قتل في الحرم، او قتل غير قاتله، او قتل بذحول الجاهلية"، فقام إليه رجل، فقال: إن فلانا ابني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا دعوة في 59 الإسلام، ذهب امر الجاهلية، الولد للفراش، وللعاهر الاثلب"، قالوا: وما الاثلب؟ قال:" الحجر"، قال:" وفي الاصابع عشر عشر، وفي المواضح خمس خمس". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال:" لا صلاة بعد الغداة حتى تطلع الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال:" ولا تنكح المراة على عمتها، ولا على خالتها، ولا يجوز لامراة عطية إلا بإذن زوجها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ إِلَّا خُزَاعَةَ عَنْ بَنِي بَكْرٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ"، فَلَقِيَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ رَجُلًا مِنْ بَنِي بَكْرٍ مِنْ غَدٍ، بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَقَتَلَهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: وَرَأَيْتُهُ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالَ:" إِنَّ أَعْدَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ مَنْ قَتَلَ فِي الْحَرَمِ، أَوْ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، أَوْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاهِلِيَّةِ"، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا ابْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا دَعْوَةَ فِي 59 الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْأَثْلَبُ"، قَالُوا: وَمَا الْأَثْلَبُ؟ قَالَ:" الْحَجَرُ"، قَالَ:" وَفِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْغَدَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ:" وَلَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلَا عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بنو خزاعہ کے علاوہ سب لوگ اپنے اسلحے کو روک لو اور بنوخزاعہ کو بنوبکر پر نماز عصر تک کے لئے اجازت دے دی، پھر ان سے بھی فرمایا: ”کہ اسلحہ روک لو اس کے بعد بنو خزاعہ کا ایک آدمی مزدلفہ سے اگلے دن بنو بکر کے ایک آدمی سے ملا اور اسے قتل کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر خانہ کعبہ کے ساتھ لگا رکھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں لوگوں میں سے اللہ کے معاملے میں سب سے آگے بڑھنے والا وہ شخص ہے جو کسی حرم شریف میں قتل کرے یا کسی ایسے شخص کو قتل کرے جو قاتل نہ ہو یا دور جاہلیت کی دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کرے۔ اسی اثناء میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگے کہ فلاں بچہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں اس دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں جاہلیت کا معاملہ ختم ہوچکا، بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں پھر دیت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں سر کے زخم میں پانچ پانچ اونٹ ہیں پھر نماز فجر کے بعدطلوع آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک بھی کوئی نفل نماز نہیں ہے اور فرمایا: ”کہ کوئی شخص کسی عورت سے اس کی پھوپھی یاخالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کرے اور کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی عطیہ قبول کر نے کی اجازت نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رجلا من مزينة يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا رسول الله، جئت اسالك عن الضالة من الإبل؟ قال:" معها حذاؤها وسقاؤها، تاكل الشجر، وترد الماء، فدعها حتى ياتيها باغيها"، قال: الضالة من الغنم؟ قال:" لك او لاخيك او للذئب، تجمعها حتى ياتيها باغيها"، قال: الحريسة التي توجد في مراتعها؟ قال:" فيها ثمنها مرتين وضرب نكال، وما اخذ من عطنه ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، قال: يا رسول الله، فالثمار، وما اخذ منها في اكمامها؟ قال:" من اخذ بفمه، ولم يتخذ خبنة، فليس عليه شيء، ومن احتمل، فعليه ثمنه مرتين وضربا ونكالا، وما اخذ من اجرانه، ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، قال: يا رسول الله، واللقطة نجدها في سبيل العامرة؟ قال:" عرفها حولا، فإن وجد باغيها، فادها إليه، وإلا فهي لك"، قال: ما يوجد في الخرب العادي؟ قال:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنِ الضَّالَّةِ مِنَ الْإِبِلِ؟ قَالَ:" مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا، تَأْكُلُ الشَّجَرَ، وَتَرِدُ الْمَاءَ، فَدَعْهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا بَاغِيهَا"، قَالَ: الضَّالَّةُ مِنَ الْغَنَمِ؟ قَالَ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، تَجْمَعُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا بَاغِيهَا"، قَالَ: الْحَرِيسَةُ الَّتِي تُوجَدُ فِي مَرَاتِعِهَا؟ قَالَ:" فِيهَا ثَمَنُهَا مَرَّتَيْنِ وَضَرْبُ نَكَالٍ، وَمَا أُخِذَ مِنْ عَطَنِهِ فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالثِّمَارُ، وَمَا أُخِذَ مِنْهَا فِي أَكْمَامِهَا؟ قَالَ:" مَنْ أَخَذَ بِفَمِهِ، وَلَمْ يَتَّخِذْ خُبْنَةً، فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَمَنْ احْتَمَلَ، فَعَلَيْهِ ثَمَنُهُ مَرَّتَيْنِ وَضَرْبًا وَنَكَالًا، وَمَا أَخَذَ مِنْ أَجْرَانِهِ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللُّقَطَةُ نَجِدُهَا فِي سَبِيلِ الْعَامِرَةِ؟ قَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَإِنْ وُجِدَ بَاغِيهَا، فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ"، قَالَ: مَا يُوجَدُ فِي الْخَرِبِ الْعَادِيِّ؟ قَالَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ اس کا " سم " اور اس کا " مشکیزہ " ہوتا ہے وہ خود ہی درختوں کے پتے کھاتا اور وادیوں کا پانی پیتا اپنے مالک کے پاس پہنچ جائے گا اس لئے تم اسے چھوڑ دو تاکہ وہ اپنی منزل پر خود ہی پہنچ جائے اس نے پوچھا کہ گمشدہ بکر ی کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تم اسے لے جاؤ گے یا تمہارا کوئی بھائی لے جائے گا یا کوئی بھیڑیا لے جائے گا تم اسے اپنی بکر یوں میں شامل کرو تاکہ وہ اپنے مقصد پر پہنچ جائے۔ اس نے پوچھا وہ محفوظ بکر ی جو اپنی، چراگاہ میں ہو اسے چوری کر نے والے کے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت اور سزا اور جسے باڑے سے چرایا گیا ہو تو اس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھالیے اور انہیں چھپا کر نہیں ان پر تو کوئی چیز واجب نہیں ہو گی لیکن جو پھل وہ اٹھا کر لے جائے تو اس کی دوگنی قیمت اور پٹائی اور سزا واجب ہو گی اور اگر وہ پھلوں کو خشک کر نے کی جگہ سے چوری کئے گئے اور ان کی مقدارکم ازکم ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی آبادعلاقے کے راستے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے ایک سال تک اس کی تشہیر کر اؤ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر دو ورنہ وہ تمہاری ہے اس نے کہا کہ اگر یہی چیز کسی ویرانے میں ملے تو؟ فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا سفيان ، عن موسى بن ابي عائشة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم يساله عن الوضوء؟ فاراه ثلاثا ثلاثا، قال:" هذا الوضوء فمن زاد على هذا، فقد اساء وتعدى وظلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنِ الْوُضُوءِ؟ فَأَرَاهُ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، قَالَ:" هَذَا الْوُضُوءُ فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا، فَقَدْ أَسَاءَ وَتَعَدَّى وَظَلَمَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دیہاتی نے وضو کے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین مرتبہ اعضاء دھو کر دکھائے اور فرمایا: ”یہ ہے وضو جو شخص اس میں اضافہ کرے وہ برا کرتا ہے اور حد سے تجاوز کر کے ظلم کرتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عمرے کئے اور تینوں ذیقعدہ میں کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے استلام تک تلبیہ پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم اعتمر ثلاث عمر، كل ذلك في ذي القعدة، يلبي حتى يستلم الحجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ ثَلَاثَ عُمَرٍ، كُلُّ ذَلِكَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، يُلَبِّي حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عمرے کئے اور تینوں ذیقعدہ میں کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے استلام تک تلبیہ پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن ، سمعه من عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كبر في عيد ثنتي عشرة تكبيرة، سبعا في الاولى، وخمسا في الآخرة، ولم يصل قبلها ولا بعدها"، قال: عبد الله احمد بن احمد، قال ابي: وانا اذهب إلى هذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعَهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي عِيدٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً، سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ، وَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا"، قال: عبد الله أحمد بن أحمد، قَالَ أَبِي: وَأَنَا أَذْهَبُ إِلَى هَذَا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں بارہ تکبیرات کہیں سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری میں اور اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز نہیں پڑھی امام احمد رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا داود بن سوار ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشرا، وفرقوا بينهم في المضاجع"، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: وقال الطفاوي محمد بن عبد الرحمن: في هذا الحديث سوار ابو حمزة، واخطا فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا دَاود بْنُ سَوَّار ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُرُوا صِبْيَانَكُمْ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغُوا سَبْعًا، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا إِذَا بَلَغُوا عَشْرًا، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ"، قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أَبِي: وَقَالَ الطُّفَاوِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ سَوَّارٌ أَبُو حَمْزَةَ، وَأَخْطَأَ فِيهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچوں کی عمر جب سات سال کی ہو جائے تو انہیں نماز کا حکم دو دس سال کی عمر ہوجانے پر ترک صلوۃ کی صورت میں انہیں سزا دو اور سونے کے بستر الگ کر دو۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا خليفة بن خياط ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال في خطبته، وهو مسند ظهره إلى الكعبة:" لا يقتل مسلم بكافر، ولا ذو عهد في عهده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ، وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ:" لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے ساتھ اپنی پشت کی ٹیک لگائے ہوئے دوران خطبہ ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے اور کسی معاہد کو مدت معاہدہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلو کے نیچے اپنے گھر میں ایک کھجور پائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھالیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده عبد الله بن عمرو ، قال: لما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عام الفتح، قام في الناس خطيبا، فقال:" يا ايها الناس، إنه ما كان من حلف في الجاهلية، فإن الإسلام لم يزده إلا شدة، ولا حلف في الإسلام، والمسلمون يد على من سواهم، تكافا دماؤهم يجير عليهم ادناهم، ويرد عليهم اقصاهم، ترد سراياهم على قعدهم، لا يقتل مؤمن بكافر، دية الكافر نصف دية المسلم، لا جلب ولا جنب، ولا تؤخذ صدقاتهم إلا في ديارهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ مَا كَانَ مِنْ حِلْفٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ يَزِدْهُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ، وَالْمُسْلِمُونَ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَيَرُدُّ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ، تُرَدُّ سَرَايَاهُمْ عَلَى قَعَدِهِمْ، لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، دِيَةُ الْكَافِرِ نِصْفُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ، لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ، وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلَّا فِي دِيَارِهِمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو لوگوں میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! زمانہ جاہلیت میں جتنے بھی معاہدے ہوئے اسلام ان کی شدت میں مزید اضافہ کرتا ہے لیکن اب اسلام میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے مسلمان اپنے علاوہ سب پر ایک ہاتھ ہیں سب کا خون برابر ہے ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے جو سب سے آخری مسلمان تک لوٹائی جائے گی، ان کے لشکروں کو بیٹھے ہوئے مجاہدین پر لوٹایا جائے گا کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہے زکوٰۃ کے جانوروں کو اپنے پاس منگوانے کی اور زکوٰۃ سے بچنے کی کوئی حیثیت نہیں مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے علاقے ہی میں جا کروصول کی جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل قد زادكم صلاة، وهي الوتر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ زَادَكُمْ صَلَاةً، وَهِيَ الْوَتْرُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا: ”ہے اور وہ وتر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف حجاج بن أرطاة ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا همام ، عن قتادة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كلوا، واشربوا، وتصدقوا، والبسوا، غير مخيلة ولا سرف"، وقال يزيد مرة:" في غير إسراف ولا مخيلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَةٍ وَلَا سَرَفٍ"، وَقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً:" فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ پیو صدقہ کرو اور پہنو لیکن تکبر نہ کرو اور اسراف بھی نہ کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا كلمات نقولهن عند النوم من الفزع:" بسم الله، اعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وعقابه، وشر عباده، ومن همزات الشياطين، وان يحضرون"، قال: فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده ان يقولها عند نومه، ومن كان منهم صغيرا لا يعقل ان يحفظها، كتبها له، فعلقها في عنقه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ نَقُولُهُنَّ عِنْدَ النَّوْمِ مِنَ الْفَزَعِ:" بِسْمِ اللَّهِ، أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّة، مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ، وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ، وَأَنْ يَحْضُرُونِ"، قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُعَلِّمُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ أَنْ يَقُولَهَا عِنْدَ نَوْمِهِ، وَمَنْ كَانَ مِنْهُمْ صَغِيرًا لَا يَعْقِلُ أَنْ يَحْفَظَهَا، كَتَبَهَا لَهُ، فَعَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کلمات سوتے وقت ڈر جانے کی صورت میں پڑھنے کے لئے سکھاتے تھے میں اللہ کی تمام صفات کے ذریعے اس کے غضب سزا اور اس کے بندوں کے شر سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں نیز شیاطین کی پھونکوں سے اور ان کے میرے قریب آنے سے بھی میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ خود بھی اپنے بچوں کو " جو بلوغ کی عمر کو پہنچ جاتے یہ دعا سوتے وقت پڑھنے کے لئے سکھایا کرتے تھے اور وہ چھوٹے بچے جو اسے یاد نہیں کر سکتے تھے ان کے گلے میں لکھ کر لٹکا دیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حجاج ، عن عطاء ، عن جابر . وعن ابي الزبير ، عن جابر . وعن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل اليمن واهل تهامة يلملم، ولاهل الطائف، وهي نجد قرن، ولاهل العراق ذات عرق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ . وَعَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ . وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ وَأَهْلِ تِهَامَةَ يَلَمْلَمَ، وَلِأَهْلِ الطَّائِفِ، وَهِيَ نَجْدٌ قَرَن، وَلِأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ اہل یمن وتہامہ کے لئے یلملم اہل طائف (نجد) کے لئے قرن اور اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون ذكر ميقات أهل العراق فشاذ، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الحجاج
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی مقبول نہیں نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوکر کی گواہی اس کے مالکان کے حق میں قبول نہیں فرمائی البتہ دوسرے لوگوں کے حق میں قبول فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن راشد ، عن سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى ايما مستلحق استلحق بعد ابيه الذي يدعى له، ادعاه ورثته قضى إن كان من حرة تزوجها، او من امة يملكها، فقد لحق بما استلحقه، وإن كان من حرة او امة عاهر بها، لم يلحق بما استلحقه، وإن كان ابوه الذي يدعى له هو ادعاه، وهو ابن زنية، لاهل امه، من كانوا، حرة او امة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَيُّمَا مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ، ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ قَضَى إِنْ كَانَ مِنْ حُرَّةٍ تَزَوَّجَهَا، أَوْ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا، فَقَدْ لَحِقَ بِمَا اسْتَلْحَقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ حُرَّةٍ أَوْ أَمَةٍ عَاهَرَ بِهَا، لَمْ يَلْحَقْ بِمَا اسْتَلْحَقَهُ، وَإِنْ كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ، وَهُوَ ابْنُ زِنْيَةٍ، لِأَهْلِ أُمِّهِ، مَنْ كَانُوا، حُرَّةً أَوْ أَمَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو بچہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کے نسب میں شامل کیا جائے جس کا دعویٰ مرحوم کے ورثاء نے کیا ہو اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر وہ آزاد عورت سے ہو جس سے مرنے والے نے نکاح کیا ہو۔ یا اس کی مملوکہ باندی سے ہو تو اس کا نسب مرنے والے سے ثابت ہو جائے گا اور اگر وہ کسی آزاد عورت یا باندی سے گناہ کا نتیجہ ہے تو اس کا نسب مرنے والے سے ثابت نہ ہو گا اگرچہ خود اس کا باپ ہی اس کا دعویٰ کرے وہ زنا کی پیداوار اور اپنی ماں کا بیٹا ہے اور اس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ کوئی بھی لوگ ہوں آزاد ہوں یا غلام۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن لي ذوي ارحام، اصل ويقطعوني، واعفو ويظلمون، واحسن ويسيئون، افاكافئهم؟ قال:" لا إذا تتركون جميعا، ولكن خذ بالفضل وصلهم، فإنه لن يزال معك ظهير من الله عز وجل ما كنت على ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَأَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي ذَوِي أَرْحَامٍ، أَصِلُ وَيَقْطَعُونِي، وَأَعْفُو وَيَظْلِمُونَ، وَأُحْسِنُ وَيُسِيئُونَ، أَفَأُكَافِئُهُمْ؟ قَالَ:" لَا إِذًا تُتْرَكُونَ جَمِيعًا، وَلَكِنْ خُذْ بِالْفَضْلِ وَصِلْهُمْ، فَإِنَّهُ لَنْ يَزَالَ مَعَكَ ظَهِيرٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا كُنْتَ عَلَى ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتے دار ہیں میں ان سے رشتہ داری جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں میں ان سے درگزر کرتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برا کرتے ہیں کیا میں بھی ان کا بدلہ دے سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ورنہ تم سب کو چھوڑ دیا جائے گا تم فضیلت والا پہلو اختیار کرو اور ان سے صلہ رحمی کرو اور جب تک تم ایسا کرتے رہو گے اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ مستقل ایک معاون لگا رہے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الحجاج بن أرطاة
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن يوسف ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يحضر الجمعة ثلاثة: رجل حضرها بدعاء وصلاة، فذلك رجل دعا ربه، إن شاء اعطاه، وإن شاء منعه، ورجل حضرها بسكوت وإنصات، فذلك هو حقها، ورجل يحضرها يلغو، فذلك حظه منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ يُوسُفَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَحْضُرُ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ حَضَرَهَا بِدُعَاءٍ وَصَلَاةٍ، فَذَلِكَ رَجُلٌ دَعَا رَبَّهُ، إِنْ شَاءَ أَعْطَاهُ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا بِسُكُوتٍ وَإِنْصَاتٍ، فَذَلِكَ هُوَ حَقُّهَا، وَرَجُلٌ يَحْضُرُهَا يَلْغُو، فَذَلِكَ حَظُّهُ مِنْهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں ایک آدمی تو وہ ہے جو نماز اور دعاء میں شریک ہوتا ہے اس آدمی نے اپنے رب کو پکار لیا اب اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے عطاء کرے یا نہ کرے، دوسرا آدمی وہ ہے جو خاموشی کے ساتھ آکر اس میں شریک ہو جائے یہی اس کا حق ہے اور تیسرا آدمی وہ ہے جو بیکار کاموں میں لگا رہتا ہے یہ اس کا حصہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا انس بن عياض ، حدثنا ابو حازم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لقد جلست انا واخي مجلسا ما احب ان لي به حمر النعم، اقبلت انا واخي، وإذا مشيخة من صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوس عند باب من ابوابه، فكرهنا ان نفرق بينهم، فجلسنا حجرة، إذ ذكروا آية من القرآن، فتماروا فيها، حتى ارتفعت اصواتهم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا، قد احمر وجهه، يرميهم بالتراب، ويقول:" مهلا يا قوم، بهذا اهلكت الامم من قبلكم، باختلافهم على انبيائهم، وضربهم الكتب بعضها ببعض، إن القرآن لم ينزل يكذب بعضه بعضا، بل يصدق بعضه بعضا، فما عرفتم منه، فاعملوا به، وما جهلتم منه، فردوه إلى عالمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَقَدْ جَلَسْتُ أَنَا وَأَخِي مَجْلِسًا مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِ حُمْرَ النَّعَمِ، أَقْبَلْتُ أَنَا وَأَخِي، وَإِذَا مَشْيَخَةٌ مِنْ صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ عِنْدَ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِهِ، فَكَرِهْنَا أَنْ نُفَرِّقَ بَيْنَهُمْ، فَجَلَسْنَا حَجْرَةً، إِذْ ذَكَرُوا آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَتَمَارَوْا فِيهَا، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، قَدْ احْمَرَّ وَجْهُهُ، يَرْمِيهِمْ بِالتُّرَابِ، وَيَقُولُ:" مَهْلًا يَا قَوْمِ، بِهَذَا أُهْلِكَتْ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ، بِاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، وَضَرْبِهِمْ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ يَنْزِلْ يُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا، بَلْ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ، فَاعْمَلُوا بِهِ، وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ، فَرُدُّوهُ إِلَى عَالِمِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور میرا بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں ہے ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیا تو کچھ بزرگ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہم نے ان کے درمیان گھس کر تفریق کر نے کو اچھا نہیں سمجھا اس لئے ایک کونے میں بیٹھ گئے اس دوران صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ایک آیت کا تذکر ہ چھیڑا اور اس کی تفسیر میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہو کر باہر نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی پھینک رہے تھے اور فرما رہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے سامنے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کے ایک حصے کو دوسرے حصے پر مارا قرآن اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کر لو اور جو معلوم نہ ہو تو اسے اس کے عالم سے معلوم کر لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا انس بن عياض ، حدثنا ابو حازم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يؤمن المرء حتى يؤمن بالقدر خيره وشره"، قال ابو حازم: لعن الله دينا انا اكبر منه، يعني التكذيب بالقدر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ الْمَرْءُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لَعَنَ اللَّهُ دِينًا أَنَا أَكْبَرُ مِنْهُ، يَعْنِي التَّكْذِيبَ بِالْقَدَرِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا حجاج ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان العاص بن وائل نذر في الجاهلية ان ينحر مائة بدنة، وان هشام بن العاص نحر حصته، خمسين بدنة، وان عمرا سال النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟ فقال:" اما ابوك، فلو كان اقر بالتوحيد، فصمت، وتصدقت عنه، نفعه ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَنْحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ، وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ العاص نَحَرَ حِصَّتَهُ، خَمْسِينَ بَدَنَةً، وَأَنَّ عَمْرًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:" أَمَّا أَبُوكَ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ، فَصُمْتَ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ، نَفَعَهُ ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ قربان کر نے کی منت مانی تھی، اس کے ایک بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ قربان کر دئیے دوسرے بیٹے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کر لیا ہوتا تو تم اس کی طرف سے جو بھی روزہ اور صدقہ کرتے اسے ان کا نفع ہوتا (لیکن چونکہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا اس لئے اسے کیا فائدہ ہو گا)
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنا ہدیہ واپس نہ مانگے سوائے باپ اپنے بیٹے سے اور ہدیہ دے کرواپس لینے والا ایسے ہے جیسے قے کر کے اسے چاٹ لینے والا۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وحجري له حواء، وثديي له سقاء، وزعم ابوه انه ينزعه مني؟ قال:" انت احق به ما لم تنكحي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً، وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً، وَزَعَمَ أَبُوهُ أَنَّهُ يَنْزِعُهُ مِنِّي؟ قَالَ:" أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میرا یہ بیٹا ہے میرا پیٹ اس کا برتن تھا میری گود اس کا گہوارہ تھی اور میری چھاتی اس کے لئے سیرابی کا ذریعہ تھی لیکن اب اس کا باپ کہہ رہا ہے کہ وہ اسے مجھ سے چھین لے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک تم کہیں اور شادی نہیں کر تیں اس پر تمہارا حق زیادہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كلوا، واشربوا، وتصدقوا والبسوا، في غير مخيلة، ولا سرف، إن الله يحب ان ترى نعمته على عبده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا، فِي غَيْرِ مَخِيلَةٍ، وَلَا سَرَفٍ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُرَى نِعْمَتُهُ عَلَى عَبْدِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ پیو صدقہ کرو اور پہنو لیکن تکبر نہ کرو اور اسراف بھی نہ کرو اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر اس کے بندے پر ظاہر ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: قال عمرو بن شعيب : عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ايما امراة نكحت على صداق او حباء او عدة قبل عصمة النكاح، فهو لها، وما كان بعد عصمة النكاح، فهو لمن اعطيه، واحق ما يكرم عليه الرجل ابنته او اخته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ : عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ عَلَى صَدَاقٍ أَوْ حِبَاءٍ أَوْ عِدَةٍ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ، فَهُوَ لَهَا، وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ، فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ، وَأَحَقُّ مَا يُكْرَمُ عَلَيْهِ الرَّجُلُ ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت مہر، تحفہ یا ہدیہ کے بدلے نکاح کرے تو نکاح سے قبل ہونے کی صورت میں وہ اسی کی ملکیت ہو گا اور نکاح کا بندھن بندھ جانے کے بعد وہ اس کی ملکیت میں ہو گا جسے دیا گیا ہو اور کسی آدمی کا اکر ام اس وجہ سے کرنا زیادہ حق بنتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہن کی وجہ سے اس کا اکر ام کیا جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرني معمر ، ان ابن جريج اخبره، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، ان زنباعا ابا روح وجد غلاما له مع جارية له، فجدع انفه وجبه، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" من فعل هذا بك؟" قال: زنباع، فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما حملك على هذا؟" فقال: كان من امره كذا وكذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعبد:" اذهب فانت حر"، فقال: يا رسول الله، فمولى من انا؟ قال:" مولى الله ورسوله"، فاوصى به رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين، قال: فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء إلى ابي بكر، فقال: وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، نجري عليك النفقة وعلى عيالك، فاجراها عليه، حتى قبض ابو بكر، فلما استخلف عمر جاءه، فقال: وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم اين تريد؟ قال: مصر، فكتب عمر إلى صاحب مصر ان يعطيه ارضا ياكلها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، أَنَّ زِنْبَاعًا أَبَا رَوْحٍ وَجَدَ غُلَامًا لَهُ مَعَ جَارِيَةٍ لَهُ، فَجَدَعَ أَنْفَهُ وَجَبَّهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ فَعَلَ هَذَا بِكَ؟" قَالَ: زِنْبَاعٌ، فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا حَمَلَكَ عَلَى هَذَا؟" فَقَالَ: كَانَ مِنْ أَمْرِهِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبْدِ:" اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَوْلَى مَنْ أَنَا؟ قَالَ:" مَوْلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ"، فَأَوْصَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: وَصِيَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، نُجْرِي عَلَيْكَ النَّفَقَةَ وَعَلَى عِيَالِكَ، فَأَجْرَاهَا عَلَيْهِ، حَتَّى قُبِضَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ جَاءَهُ، فَقَالَ: وَصِيَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: مِصْرَ، فَكَتَبَ عُمَرُ إِلَى صَاحِبِ مِصْرَ أَنْ يُعْطِيَهُ أَرْضًا يَأْكُلُهَا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوروح " جس کا اصل نام زنباع تھا " نے اپنے غلام کو ایک باندی کے ساتھ " پایا اس نے اس غلام کی ناک کاٹ دی اور اسے خصی کر دیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تیرے ساتھ یہ سلوک کسی نے کیا؟ اس نے زنباع کا نام لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ اس نے ساراواقعہ ذکر کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام سے فرمایا: ”جا تو آزاد ہے وہ کہنے لگا یا رسول اللہ!! میرا آزاد کر نے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کر دہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی اس کی وصیت کر دی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا ذکر کیا، انہوں نے فرمایا: ”ہاں! مجھے یاد ہے ہم تیرا اور تیرے اہل و عیال کا نفقہ جاری کر دیتے ہیں چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کا نفقہ جاری کر دیا پھر جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو وہ پھر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا ذکر کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا: ”ہاں! یاد ہے تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے مصر کا نام لیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گورنر مصر کے نام اس مضمون کا خط لکھ دیا کہ اسے اتنی زمین دے دی جائے کہ جس سے یہ کھا پی سکے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن جريج مدلس وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا محمد يعني ابن راشد ، عن سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" في كل إصبع عشر من الإبل، وفي كل سن خمس من الإبل، والاصابع سواء، والاسنان سواء"، قال محمد: وسمعت مكحولا يقول، ولا يذكره عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: قال عبد الرزاق: ما رايت احدا اورع في الحديث من محمد بن راشد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي كُلِّ إِصْبَعٍ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْأَصَابِعُ سَوَاءٌ، وَالْأَسْنَانُ سَوَاءٌ"، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَسَمِعْتُ مَكْحُولًا يَقُولُ، وَلَا يَذْكُرُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أبِي: قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَوْرَعَ فِي الْحَدِيثِ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر انگلی میں دس اونٹ واجب ہیں ہر دانت میں پانچ اونٹ ہیں اور سب انگلیاں بھی برابر ہیں اور تمام دانت بھی برابر ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، عن عبد الكريم الجزري ، ان عمرو بن شعيب اخبره، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استند إلى بيت، فوعظ الناس، وذكرهم، قال:" لا يصلي احد بعد العصر حتى الليل، ولا بعد الصبح حتى تطلع الشمس، ولا تسافر المراة إلا مع ذي محرم مسيرة ثلاث، ولا تتقدمن امراة على عمتها ولا على خالتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَنَدَ إِلَى بَيْتٍ، فَوَعَظَ النَّاسَ، وَذَكَّرَهُمْ، قَالَ:" لَا يُصَلِّي أَحَدٌ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى اللَّيْلِ، وَلَا بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا تُسَافِرُ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ مَسِيرَةَ ثَلَاثٍ، وَلَا تَتَقَدَّمَنَّ امْرَأَةٌ عَلَى عَمَّتِهَا وَلَا عَلَى خَالَتِهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ سے ٹیک لگا کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”کوئی شخص عصر کی نماز کے بعد رات تک نوافل نہ پڑھے اور نہ فجر کے بعد طلوع آفتاب تک، نیز کوئی عورت تین دن کی مسافت کا محرم کے بغیر سفر نہ کرے اور کسی عورت سے اس کی پھوپھی یاخالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کیا جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا داود بن قيس ، عن عمرو بن شعيب عن ابيه ، عن جده ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة؟ فقال:" إن الله لا يحب العقوق"، وكانه كره الاسم، قالوا: يا رسول الله، إنما نسالك عن احدنا يولد له؟ قال:" من احب منكم ان ينسك عن ولده فليفعل، عن الغلام شاتان مكافاتان، وعن الجارية شاة"، قال: وسئل عن الفرع؟ قال:" والفرع حق، وان تتركه حتى يكون شغزبا، او شغزوبا ابن مخاض او ابن لبون، فتحمل عليه في سبيل الله، او تعطيه ارملة، خير من ان تذبحه يلصق لحمه بوبره، وتكفئ إناءك، وتوله ناقتك"، وقال وسئل عن العتيرة؟ فقال" العتيرة حق"، قال بعض القوم لعمرو بن شعيب: ما العتيرة؟ قال: كانوا يذبحون في رجب شاة، فيطبخون وياكلون ويطعمون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ؟ فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْعُقُوقَ"، وَكَأَنَّهُ كَرِهَ الِاسْمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا نَسْأَلُكَ عَنْ أَحَدِنَا يُولَدُ لَهُ؟ قَالَ:" مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَفْعَلْ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ"، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ الْفَرَعِ؟ قَالَ:" وَالْفَرَعُ حَقٌّ، وَأَنْ تَتْرُكَهُ حَتَّى يَكُونَ شُغْزُبًّا، أَوْ شُغْزُوبًّا ابْنَ مَخَاضٍ أَوْ ابْنَ لَبُونٍ، فَتَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ تُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ يَلْصَقُ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ، وَتُكْفِئُ إِنَاءَكَ، وَتُولِهُ نَاقَتَكَ"، وَقَالَ وَسُئِلَ عَنِ الْعَتِيرَةِ؟ فَقَالَ" الْعَتِيرَةُ حَقٌّ"، قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ لِعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ: مَا الْعَتِيرَةُ؟ قَالَ: كَانُوا يَذْبَحُونَ فِي رَجَبٍ شَاةً، فَيَطْبُخُونَ وَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے " عقیقہ " کے متعلق سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق (نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظی مناسبت کو اچھا نہیں سمجھا صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!! ہم آپ سے اپنی اولاد کے حوالے سے سوال کر رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے وہ لڑکے کی طرف دو برابر کی بکر یاں ذبح کر دے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکر ی ذبح کر لے۔ پھر کسی نے اونٹ کے پہلے بچے کی قربانی کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ برحق ہے لیکن اگر تم اسے جوان ہونے تک چھوڑ دو کہ وہ دو تین سال کا ہو جائے پھر تم اسے کسی کو فی سبیل اللہ سواری کے لئے دے دو یا بیواؤں کو دے دو تو یہ زیادہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے ذبح کر کے اس کا گوشت اس کے بالوں کے ساتھ لگاؤ اپنا برتن الٹ دو اور اپنی اونٹنی کو پاگل کر دو پھر کسی نے " عتیرہ " کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عتیرہ برحق ہے۔ کسی نے عمرو بن شعیب سے عتیرہ کا معنی پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ لوگ ماہ رجب میں بکر ی ذبح کر کے اسے پکا کر خود بھی کھاتے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا الحسين بن محمد ، وسريج ، قالا: حدثنا ابن ابي الزناد ، عن عبد الرحمن بن الحارث ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ادرك رجلين وهما مقترنان، يمشيان إلى البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما بال القران؟" قالا: يا رسول الله، نذرنا ان نمشي إلى البيت مقترنين! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس هذا نذرا"، فقطع قرانهما، قال سريج في حديثه: إنما النذر ما ابتغي به وجه الله عز وجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَسُرَيْجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ رَجُلَيْنِ وَهُمَا مُقْتَرِنَانِ، يَمْشِيَانِ إِلَى الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا بَالُ الْقِرَانِ؟" قَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَذَرْنَا أَنْ نَمْشِيَ إِلَى الْبَيْتِ مُقْتَرِنَيْنِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ هَذَا نَذْرًا"، فَقَطَعَ قِرَانَهُمَا، قَالَ سُرَيْجٌ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّمَا النَّذْرُ مَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر بیت اللہ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس طرح چمٹ کر چلنے کا کیا مطلب؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ!! ہم نے یہ منت مانی تھی کہ اسی طرح بیت اللہ تک چل کر جائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ منت نہیں ہے اور ان دونوں کی اس کیفیت کو ختم کروا دیا سریج اپنی حدیث میں یہ بھی کہتے ہیں کہ نذر اس چیز کی ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا الفرج ، عن عبد الله بن عامر ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يقص إلا امير، او مامور، او مراء"، فقلت له: إنما كان يبلغنا، او متكلف، قال: هكذا سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ، أَوْ مَأْمُورٌ، أَوْ مُرَاءٍ"، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّمَا كَانَ يَبْلُغُنَا، أَوْ مُتَكَلِّفٌ، قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وعظ صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کی اجازت دی گئی ہو یا ریاکار۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف الفرج و عبدالله بن عامر الأسلمي
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ ان کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، وعبد الصمد ، قالا: حدثنا محمد ، حدثنا سليمان يعني ابن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من قتل متعمدا دفع إلى اولياء القتيل، فإن شاءوا قتلوه، وإن شاءوا اخذوا الدية، وهي ثلاثون حقة وثلاثون جذعة، واربعون خلفة، وذلك عقل العمد، وما صالحوا عليه، فهو لهم، وذلك تشديد العقل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، وعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوهُ، وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ، وَهِيَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، وَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمْدِ، وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ، فَهُوَ لَهُمْ، وَذَلِكَ تَشْدِيدُ الْعَقْلِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کو عمداً قتل کر دے اسے مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو اسے بدلے میں قتل کر دیں اور چاہیں تو دیت لے لیں جو تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس حاملہ اونٹنیوں پر مشتمل ہو گی، یہ قتل عمد کی دیت ہے اور جس چیز پر فریقین کے درمیان صلح ہو جائے وہ ورثاء مقتول کو ملے گی اور یہ سخت دیت ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، وعبد الصمد ، قالا: حدثنا محمد ، حدثنا سليمان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" عقل شبه العمد مغلظ مثل عقل العمد، ولا يقتل صاحبه، وذلك ان ينزو الشيطان بين الناس"، قال ابو النضر:" فيكون رميا في عميا، في غير فتنة ولا حمل سلاح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَذَلِكَ أَنْ يَنْزُوَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ"، قَالَ أَبُو النَّضْرِ:" فَيَكُونُ رِمِّيًّا فِي عِمِّيًّا، فِي غَيْرِ فِتْنَةٍ وَلَا حَمْلِ سِلَاحٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل شبہ عمد کی دیت بھی قتل عمد کی دیت کی طرح مغلظ ہو گی (جس کی تفصیل گزشتہ حدیث میں گزری) البتہ اس صورت میں قاتل کو قتل نہیں کیا جاسکے گا اور اس کی صورت یہ ہے کہ شیطان لوگوں کے درمیان کود پڑے اور بغیر کسی امتحان کے یا اسلحہ اٹھانے کے اندھا دھند تیر اندازی شروع ہو جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر الحنفي ، حدثنا اسامة بن زيد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان نائما فوجد تمرة تحت جنبه، فاخذها، فاكلها، ثم جعل يتضور من آخر الليل، وفزع لذلك بعض ازواجه، فقال:" إني وجدت تمرة تحت جنبي فاكلتها، فخشيت ان تكون من تمر الصدقة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ نَائِمًا فَوَجَدَ تَمْرَةً تَحْتَ جَنْبِهِ، فَأَخَذَهَا، فَأَكَلَهَا، ثُمَّ جَعَلَ يَتَضَوَّرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، وَفَزِعَ لِذَلِكَ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ، فَقَالَ:" إِنِّي وَجَدْتُ تَمْرَةً تَحْتَ جَنْبِي فَأَكَلْتُهَا، فَخَشِيتُ أَنْ تَكُونَ مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلو کے نیچے ایک کھجور پائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھالیا پھر رات کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےچین ہونے لگے، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ گھبرا گئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ”کہ مجھے اپنے پہلو کے نیچے ایک کھجور ملی تھی جسے میں نے کھالیا تھا اب مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ صدقہ کی کھجور نہ ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن ابن عجلان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" البائع والمبتاع بالخيار حتى يتفرقا، إلا ان يكون سفقة خيار، ولا يحل له ان يفارقه خشية ان يستقيله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْبَائِعُ وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ حَتَّى يَتَفَرَّقَا، إِلَّا أَنْ يَكُونَ سَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) جب تک جدا نہ ہو جائیں ان کا اختیار فسخ باقی رہتا ہے الاّ یہ کہ معاملہ اختیار کا ہو اور کسی کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے ساتھی سے اس ڈر سے جلدی جدا ہو جائے کہ کہیں یہ اقالہ ہی نہ کر لے (بیع ختم ہی نہ کر دے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «ولا يحل له أن يفارقه خشية أن يستقيله» ، و هذا إسناده حسن
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنی زمین میں کام کر نے والے کی طرف ایک مرتبہ خط لکھا کہ زائد پانی سے کسی کو مت روکنا کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص زائد پانی یا زائد گھاس کسی کو دینے سے روکتا ہے اللہ قیامت کے دن اس سے اپنا فضل روک لے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، سليمان بن موسي الأشدق لم يدرك عبد الله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو ہم پر اسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثني ابي ، حدثنا حبيب ، عن عمرو ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان ابا ثعلبة الخشني اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن لي كلابا مكلبة، فافتني في صيدها؟ فقال:" إن كانت لك كلاب مكلبة فكل مما امسكت عليك"، فقال: يا رسول الله، ذكي وغير ذكي؟ قال:" ذكي وغير ذكي"، قال: وإن اكل منه؟ قال:" وإن اكل منه"، قال: يا رسول الله، افتني في قوسي؟ قال:" كل ما امسكت عليك قوسك"، قال: ذكي وغير ذكي؟ قال:" ذكي وغير ذكي"، قال: وإن تغيب عني؟ قال:" وإن تغيب عنك، ما لم يصل" يعني يتغير" او تجد فيه اثر غير سهمك"، قال: يا رسول الله، افتنا في آنية المجوس إذا اضطررنا إليها؟ قال:" إذا اضطررتم إليها فاغسلوها بالماء، واطبخوا فيها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً، فَأَفْتِنِي فِي صَيْدِهَا؟ فَقَالَ:" إِنْ كَانَتْ لَكَ كِلَابٌ مُكَلَّبَةٌ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكَتْ عَلَيْكَ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَكِيٌّ وَغَيْرُ ذَكِيٍّ؟ قَالَ:" ذَكِيٌّ وَغَيْرُ ذَكِيٍّ"، قَالَ: وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ؟ قَالَ:" وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفْتِنِي فِي قَوْسِي؟ قَالَ:" كُلْ مَا أَمْسَكَتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ"، قَالَ: ذَكِيٌّ وَغَيْرُ ذَكِيٍّ؟ قَالَ:" ذَكِيٌّ وَغَيْرُ ذَكِيٍّ"، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنِّي؟ قَالَ:" وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنْكَ، مَا لَمْ يَصِلَّ" يَعْنِي يَتَغَيَّرْ" أَوْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ غَيْرِ سَهْمِكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفْتِنَا فِي آنِيَةِ الْمَجُوسِ إِذَا اضْطُرِرْنَا إِلَيْهَا؟ قَالَ:" إِذَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهَا فَاغْسِلُوهَا بِالْمَاءِ، وَاطْبُخُوا فِيهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ!! میرے پاس کچھ سدھائے ہوئے کتے ہیں ان کے ذریعے شکار کے بارے مجھے فتویٰ دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارے کتے سدھائے ہوئے ہوں تو وہ تمہارے لئے شکار کر یں تم اسے کھا سکتے ہو، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ!! خواہ اسے ذبح کروں یا نہ کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں انہوں نے پوچھا اگرچہ کتا بھی اس میں سے کچھ کھالے؟ فرمایا: ”ہاں! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ!! کمان کے بارے بتایئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کمان کے ذریعے (مراد تیر ہے) تم جو شکار کرو وہ کھا بھی سکتے ہو انہوں نے پوچھا کہ خواہ ذبح کروں یا نہ کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، انہوں نے پوچھا اگرچہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہو جائے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! بشرطیکہ (جب تم شکار کے پاس پہنچو تو) وہ بگڑ نہ چکا ہو یا اس میں تمہارے تیر کے علاوہ کسی اور چیز کانشان نہ ہو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!! مجوسیوں کے برتن کے بارے بتائیے جب کہ انہیں استعمال کرنا ہماری مجبوری ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم انہیں استعمال کر نے پر مجبور ہو تو انہیں پانی سے دھو کر پھر اس میں پکا سکتے ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا عباس الجزري ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ايما عبد كاتب على مائة اوقية فاداها إلا عشرة اواق، فهو عبد، وايما عبد كاتب على مائة دينار فاداها إلا عشرة دنانير، فهو عبد"، قال عبد الله بن احمد: كذا قال عبد الصمد: عباس الجزري، كان في النسخة عباس الجريري، فاصلحه ابي كما قال عبد الصمد: الجزري.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْجَزَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَةَ أَوَاقٍ، فَهُوَ عَبْدٌ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ دِينَارٍ فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشَرَةَ دَنَانِيرَ، فَهُوَ عَبْدٌ"، قَالَ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: كَذَا قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: عَبَّاسٌ الْجَزَرِيُّ، كَانَ فِي النُّسْخَةِ عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، فَأَصْلَحَهُ أَبِي كَمَا قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: الْجَزَرِيُّ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام نے سو اوقیہ بدل کتابت اداء کر نے پر آزادی کا وعدہ کر لیاہو اور وہ نوے اوقیہ ادا کر دے تب بھی وہ غلام ہی رہے گا (تا آنکہ مکمل ادائیگی کر دے) اس طرح وہ غلام جو سو دینار پر کتابت کرے اور دس دینار کو چھوڑ کر باقی سب ادا کر دے تب بھی وہ غلام ہی رہے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی عطیہ قبول کر نے کی اجازت نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين وجاءته وفود هوازن، فقالوا: يا محمد، إنا اصل وعشيرة، فمن علينا، من الله عليك، فإنه قد نزل بنا من البلاء ما لا يخفى عليك، فقال:" اختاروا بين نسائكم واموالكم وابنائكم"، قالوا: خيرتنا بين احسابنا واموالنا، نختار ابناءنا، فقال:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب، فهو لكم، فإذا صليت الظهر، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله صلى الله عليه وسلم على المؤمنين، وبالمؤمنين على رسول الله صلى الله عليه وسلم، في نسائنا وابنائنا"، قال: ففعلوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب، فهو لكم"، وقال المهاجرون: وما كان لنا، فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالت الانصار: مثل ذلك، وقال عيينة بن بدر: اما ما كان لي ولبني فزارة، فلا، وقال الاقرع بن حابس: اما انا وبنو تميم فلا، وقال عباس بن مرداس: اما انا وبنو سليم فلا، فقالت الحيان: كذبت، بل هو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس، ردوا عليهم نساءهم وابناءهم، فمن تمسك بشيء من الفيء، فله علينا ستة فرائض من اول شيء يفيئه الله علينا"، ثم ركب راحلته، وتعلق به الناس، يقولون: اقسم علينا فيئنا بيننا، حتى الجئوه إلى سمرة فخطفت رداءه، فقال:" يا ايها الناس، ردوا علي ردائي، فوالله لو كان لكم بعدد شجر تهامة نعم لقسمته بينكم، ثم لا تلفوني بخيلا، ولا جبانا، ولا كذوبا"، ثم دنا من بعيره، فاخذ وبرة من سنامه، فجعلها بين اصابعه السبابة والوسطى، ثم رفعها، فقال:" يا ايها الناس، ليس لي من هذا الفيء ولا هذه، إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فردوا الخياط والمخيط، فإن الغلول يكون على اهله يوم القيامة عارا ونارا وشنارا"، فقام رجل معه كبة من شعر، فقال: إني اخذت هذه اصلح بها بردعة بعير لي دبر، قال:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب، فهو لك"، فقال الرجل: يا رسول الله، اما إذ بلغت ما ارى فلا ارب لي بها، ونبذها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَجَاءَتْهُ وُفُودُ هَوَازِنَ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِيرَةٌ، فَمُنَّ عَلَيْنَا، مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ، فَإِنَّهُ قَدْ نَزَلَ بِنَا مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ، فَقَالَ:" اخْتَارُوا بَيْنَ نِسَائِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَأَبْنَائِكُمْ"، قَالُوا: خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا، نَخْتَارُ أَبْنَاءَنَا، فَقَالَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَهُوَ لَكُمْ، فَإِذَا صَلَّيْتُ الظُّهْرَ، فَقُولُوا: إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَبِالْمُؤْمِنِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا"، قَالَ: فَفَعَلُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَهُوَ لَكُمْ"، وَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ: وَمَا كَانَ لَنَا، فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: مِثْلَ ذَلِكَ، وَقَالَ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ: أَمَّا مَا كَانَ لِي ولِبَنِي فَزَارَةَ، فَلَا، وَقَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا، وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا، فَقَالَتْ الْحَيَّانِ: كَذَبْتَ، بَلْ هُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ، فَمَنْ تَمَسَّكَ بِشَيْءٍ مِنَ الْفَيْءِ، فَلَهُ عَلَيْنَا سِتَّةُ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا"، ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ، وَتَعَلَّقَ بِهِ النَّاسُ، يَقُولُونَ: اقْسِمْ عَلَيْنَا فَيْئَنَا بَيْنَنَا، حَتَّى أَلْجَئُوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطَفَتْ رِدَاءَهُ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي، فَوَاللَّهِ لَوْ كَانَ لَكُمْ بِعَدَدِ شَجَرِ تِهَامَةَ نَعَمٌ لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تُلْفُونِي بَخِيلًا، وَلَا جَبَانًا، وَلَا كَذُوبًا"، ثُمَّ دَنَا مِنْ بَعِيرِهِ، فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ، فَجَعَلَهَا بَيْنَ أَصَابِعِهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى، ثُمَّ رَفَعَهَا، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْءِ وَلَا هَذِهِ، إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ، فَرُدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ يَكُونُ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَارًا وَنَارًا وَشَنَارًا"، فَقَامَ رَجُلٌ مَعَهُ كُبَّةٌ مِنْ شَعَرٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَذْتُ هَذِهِ أُصْلِحُ بِهَا بَرْدَعَةَ بَعِيرٍ لِي دَبِرَ، قَالَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَهُوَ لَكَ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلَا أَرَبَ لِي بِهَا، وَنَبَذَهَا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر جب بنو ہوازن کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں بھی وہاں موجود تھا وفد کے لوگ کہنے لگے اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ہم اصل میں نسل اور خاندانی لوگ ہیں آپ ہم پر مہربانی کیجئے اللہ آپ پر مہربانی کرے گا اور ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ پر مخفی نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی عورتوں اور بچوں اور مال میں سے کسی ایک کو اختیار کر لو وہ کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں ہمارے حسب اور مال کے بارے میں اختیار دیا ہے ہم اپنی اولاد کو مال پر ترجیح دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہو گا وہی تمہارے لئے ہو گا جب میں ظہر کی نماز پڑھ چکوں تو اس وقت اٹھ کر تم لوگ یوں کہنا کہ ہم اپنی عورتوں اور بچوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے سامنے اور مسلمانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کی درخواست کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہے وہی تمہارے لئے ہے، مہاجرین کہنے لگے کہ جو ہمارے لئے ہے وہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے انصار نے بھی یہی کہا عیینہ بن بدر کہنے لگا کہ جو میرے لئے اور بنو فزارہ کے لئے ہے وہ نہیں، اقرع بن حابس نے کہا کہ میں اور بنو تمیم بھی اس میں شامل نہیں عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی اس میں شامل نہیں ان دونوں قبیلوں کے لوگ بولے تم غلط کہتے ہو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! انہیں ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دو جو شخص مال غنیمت کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس سے پہلا جو مال غنیمت آئے گا اس میں سے اس کے چھ حصے ہمارے ذمے ہیں۔ یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو گئے اور کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے درمیان مال غنیمت تقسیم کر دیجئے یہاں تک کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے ایک درخت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کر دیا اسی اثنا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداء مبارک بھی کسی نے چھین لی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری چادر مجھے واپس دے دو، واللہ اگر تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر جانور ہوتے تب بھی میں انہیں تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا پھر بھی تم مجھے بخیل بزدل یا جھوٹا نہ پاتے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کے قریب گئے اور اس کے کوہان سے ایک بال لیا اور اسے اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے پکڑا اور اسے بلند کر کے فرمایا: ”لوگو! خمس کے علاوہ اس مال غنیمت میں میرا کوئی حصہ نہیں یہ بال بھی نہیں اور خمس بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے اس لئے اگر کسی نے سوئی دھاگہ بھی لیاہو تو وہ واپس کر دے کیونکہ مال غنیمت میں خیانت قیامت کے دن اس خائن کے لئے باعث شرمندگی اور جہنم میں جانے کا ذریعہ اور بدترین عیب ہو گی۔ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا جس کے پاس بالوں کا ایک گچھا تھا اور کہنے لگا کہ میں نے یہ اس لئے لئے ہیں تاکہ اپنے اونٹ کا پالان صحیح کر لوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہے وہی تمہارے لئے بھی ہے وہ کہنے لگا یا رسول اللہ!! جب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اب مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں اور اس نے اسے پھینک دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا زكريا بن عدي ، حدثنا عبيد الله ، عن عبد الكريم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا قال: يا رسول الله، إني اعطيت امي حديقة حياتها، وإنها ماتت فلم تترك وارثا غيري؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وجبت صدقتك، ورجعت إليك حديقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَعْطَيْتُ أُمِّي حَدِيقَةً حَيَاتَهَا، وَإِنَّهَا مَاتَتْ فَلَمْ تَتْرُكْ وَارِثًا غَيْرِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَجَبَتْ صَدَقَتُكَ، وَرَجَعَتْ إِلَيْكَ حَدِيقَتُكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر عرض کیا کہ میں نے اپنی والدہ کو ان کی زندگی میں ایک باغ دیا تھا اب وہ فوت ہو گئی ہیں اور میرے علاوہ ان کا کوئی وارث بھی نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں صدقہ کا ثواب بھی مل گیا اور تمہارا باغ بھی تمہارے پاس واپس آگیا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منت انہیں چیزوں میں ہوتی ہے جن سے اللہ کی رضاحاصل ہو سکے اور قطع رحمی کے معاملے میں کسی قسم کا اعتبار نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن يزيد يعني ابن الهاد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" اللهم إني اعوذ بك من الكسل، والهرم، والمغرم، والماثم، واعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، واعوذ بك من عذاب القبر، واعوذ بك من عذاب النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَالْمَغْرَمِ، وَالْمَأْثَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے، قرض اور گناہ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں میں مسیح دجال کے فتنے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، عذاب قبر اور عذاب جہنم سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، وابو سلمة الخزاعي ، قالا: حدثنا ليث ، عن يزيد يعني ابن الهاد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" الا اخبركم باحبكم إلي واقربكم مني مجلسا يوم القيامة؟" فسكت القوم، فاعادها مرتين او ثلاثا، قال القوم: نعم يا رسول الله، قال:" احسنكم خلقا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَأَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟" فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ الْقَوْمُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" أَحْسَنُكُمْ خُلُقًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ میری نگاہوں میں محبوب اور میرے قریب تر مجلس والا کون ہو گا؟ لوگ خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین مرتبہ اس بات کو دہرایا تو لوگ کہنے لگے جی یا رسول اللہ!! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی بات پر قسم کھائے اور اس کے علاوہ کسی دوسری چیز میں خیر دیکھے تو اسے ترک کر دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن غير أن قوله: «فتركها كفارتها» فيه كلام، كما سيرد
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی طرف سے دو بکر یاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکر ی بطور عقیقہ کے قربان فرمائی۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله بن عامر الأسلمي
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن قيصر التجيبي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء شاب، فقال: يا رسول الله، اقبل وانا صائم؟ قال:" لا"، فجاء شيخ، فقال: اقبل وانا صائم؟ قال:" نعم"، قال: فنظر بعضنا إلى بعض، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد علمت لم نظر بعضكم إلى بعض، إن الشيخ يملك نفسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ قَيْصَرَ التُّجِيبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ شَابٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَ:" لَا"، فَجَاءَ شَيْخٌ، فَقَالَ: أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَنَظَرَ بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَلِمْتُ لِمَ نَظَرَ بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ، إِنَّ الشَّيْخَ يَمْلِكُ نَفْسَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! روزے کی حالت میں میں اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تھوڑی دیر بعد ایک بڑی عمر کا آدمی آیا اور اس نے بھی وہی سوال پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اس پر ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہے کہ تم ایک دوسرے کو کیوں دیکھ رہے ہو؟ دراصل عمر رسیدہ آدمی اپنے اوپر قابو رکھ سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على خلاف فى صحابيه، ابن لهيعة سيئ الحفظ
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، وداود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، مائتي مرة في كل يوم، لم يسبقه احد كان قبله، ولا يدركه احد بعده، إلا بافضل من عمله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَدَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، مِائَتَيْ مَرَّةٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ، لَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ كَانَ قَبْلَهُ، وَلَا يُدْرِكُهُ أَحَدٌ بَعْدَهُ، إِلَّا بِأَفْضَلَ مِنْ عَمَلِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص روزانہ دو سو مرتبہ یہ کلمات کہہ لے " اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا شریک نہیں حکومت بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے " اس پر کوئی پہلا سبقت نہیں لے جاسکے گا اور بعد والا اسے کوئی پا نہیں سکے گا الاّ یہ کہ اس سے افضل عمل سر انجام دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم قوما يتدارءون، فقال:" إنما هلك من كان قبلكم بهذا، ضربوا كتاب الله بعضه ببعض، وإنما نزل كتاب الله يصدق بعضه بعضا، فلا تكذبوا بعضه ببعض، فما علمتم منه فقولوا، وما جهلتم فكلوه إلى عالمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يَتَدَارَءُونَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا، ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا، وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنی کتابوں کے ایک حصے کو دوسرے حصے پر مارا قرآن اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کر لو اور جو معلوم نہ ہو تو اسے اس کے عالم سے معلوم کر لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من حمل علينا السلاح، فليس منا، ولا رصد بطريق، ومن قتل على غير ذلك، فهو شبه العمد، وعقله مغلظ، ولا يقتل صاحبه، وهو كالشهر الحرام، للحرمة والجوار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَلَا رَصَدَ بِطَرِيقٍ، وَمَنْ قُتِلَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، فَهُوَ شِبْهُ الْعَمْدِ، وَعَقْلُهُ مُغَلَّظٌ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَهُوَ كَالشَّهْرِ الْحَرَامِ، لِلْحُرْمَةِ وَالْجِوَارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو ہم پر اسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو شخص اس کے علاوہ صورت میں مارآ جائے تو اسے " شبہ عمد " کہا جاتا ہے اور اس کی دیت مغلظہ ہو گی، البتہ اس صورت میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور وہ حرمت اور پڑوس کے لئے حرمت والے مہینے کی طرح ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ جو شخص خطاء مارآ جائے اس کی دیت سو اونٹ ہو گی جن میں تیس بنت مخاض تیس بنت لبون، تیس حقے اور دس ابن لبون مذکر ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا بكر بن سوادة ، عن عبد الرحمن بن جبير ، ان عبد الله بن عمرو حدثه، ان نفرا من بني هاشم دخلوا على اسماء بنت عميس، فدخل ابو بكر، وهي تحته يومئذ، فرآهم، فكره ذلك، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: لم ار إلا خيرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله قد براها من ذلك"، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فقال:" لا يدخل رجل بعد يومي هذا على مغيبة، إلا ومعه رجل او اثنان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا بَكر بن سوادة ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَدَّثَهُ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ دَخَلُوا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَهِيَ تَحْتَهُ يَوْمَئِذٍ، فَرَآهُمْ، فَكَرِهَ ذَلِكَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: لَمْ أَرَ إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَرَّأَهَا مِنْ ذَلِكَ"، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" لَا يَدْخُلْ رَجُلٌ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا عَلَى مُغِيبَةٍ، إِلَّا وَمَعَهُ رَجُلٌ أَوْ اثْنَانِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو ہاشم کے کچھ لوگ ایک مرتبہ سیدنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے ہوئے تھے ان کے زوج محترم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے چونکہ وہ ان کی بیوی تھیں اس لئے انہیں اس پر ناگواری ہوئی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے خیر ہی دیکھی (کوئی برا منظر نہیں دیکھا لیکن پھر بھی اچھا نہیں لگا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے انہیں بچا لیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”آج کے بعد کوئی شخص کسی ایک عورت کے پاس تنہا نہ جائے جس کا شوہر موجود نہ ہو الاّ یہ کہ اس کے ساتھ ایک یا دو آدمی ہوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی ذمی کو قتل کرے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا الحسين ، حدثني ابن ابي الزناد ، عن عبد الرحمن يعني ابن الحارث ، اخبرني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، انه سمع رجلا من مزينة سال رسول الله صلى الله عليه وسلم ماذا تقول: يا رسول الله، في ضالة الإبل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لك ولها؟ معها حذاؤها وسقاؤها"، قال: فضالة الغنم؟ قال:" لك او لاخيك او للذئب"، قال: فمن اخذها من مرتعها؟ قال:" عوقب وغرم مثل ثمنها، ومن استطلقها من عقال، او استخرجها من حفش وهي المظال فعليه القطع"، قال: يا رسول الله، فالثمر يصاب في اكمامه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس على آكل سبيل، فمن اتخذ خبنة غرم مثل ثمنها وعوقب، ومن اخذ شيئا منها بعد ان اوى إلى مربد او كسر عنها بابا، فبلغ ما ياخذ ثمن المجن، فعليه القطع"، قال: يا رسول الله، فالكنز نجده في الخرب وفي الآرام؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا"، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ"، قَالَ: فَمَنْ أَخَذَهَا مِنْ مَرْتَعِهَا؟ قَالَ:" عُوقِبَ وَغُرِّمَ مِثْلَ ثَمَنِهَا، وَمَنْ اسْتَطْلَقَهَا مِنْ عِقَالٍ، أَوْ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ حِفْشٍ وَهِيَ الْمَظَالُّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالثَّمَرُ يُصَابُ فِي أَكْمَامِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ عَلَى آكِلٍ سَبِيلٌ، فَمَنْ اتَّخَذَ خُبْنَةً غُرِّمَ مِثْلَ ثَمَنِهَا وَعُوقِبَ، وَمَنْ أَخَذَ شَيْئًا مِنْهَا بَعْدَ أَنْ أَوَى إِلَى مِرْبَدٍ أَوْ كَسَرَ عَنْهَا بَابًا، فَبَلَغَ مَا يَأْخُذُ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالْكَنْزُ نَجِدُهُ فِي الْخَرِبِ وَفِي الْآرَامِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آیاہوں کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ اس کا " سم " اور اس کا " مشکیزہ " ہوتا ہے اس نے پوچھا کہ گمشدہ بکر ی کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تم اسے لے جاؤ گے یا تمہارا کوئی بھائی لے جائے گا یا کوئی بھیڑیا لے جائے گا۔ اس نے پوچھا وہ محفوظ بکر ی جو اپنی چراگاہ میں ہو اسے چوری کر نے والے کے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت اور سزا اور جسے باڑے سے چرایا گیا ہو تو اس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھا لئے چھپا کر ان پر تو کوئی چیز واجب نہیں ہو گی لیکن جو پھل وہ اٹھا کر لے جائے تو اس کی دوگنی قیمت اور پٹائی اور سزا واجب ہو گی اور اگر وہ پھلوں کو خشک کر نے کی جگہ سے چوری کئے گئے اور ان کی مقدار کم از کم ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس خزانے کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی ویران یا آباد علاقے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب الخفاف ، حدثنا حسين ، حدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ليس لي مال، ولي يتيم؟ فقال:" كل من مال يتيمك غير مسرف"، او قال:" ولا تفدي مالك بماله" شك حسين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الْخَفَّافُ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَيْسَ لِي مَالٌ، وَلِي يَتِيمٌ؟ فَقَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ"، أَوْ قَالَ:" وَلَا تَفْدِي مَالَكَ بِمَالِهِ" شَكَّ حُسَيْنٌ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے پاس تو مال نہیں ہے البتہ ایک یتیم بھتیجا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے یتیم بھتیجے کے مال میں سے تم کھا سکتے ہو کہ جو اسراف کے زمرے میں آئے یا یہ فرمایا: ”کہ اپنے مال کو اس کے مال کے بدلے فدیہ نہ بناؤ۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سوار ایک شیطان ہوتا ہے اور دو سوار دو شیطان ہوتے ہیں اور تین سوار ہوتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا الخزاعي يعني ابا سلمة ، قال: حدثنا ليث ، عن يزيد يعني ابن الهاد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" اللهم إني اعوذ بك من الكسل والهرم، والماثم والمغرم، واعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، واعوذ بك من عذاب القبر، واعوذ بك من عذاب النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْخُزَاعِيُّ يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ، وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے قرض اور گناہ سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں میں مسیح دجال کے فتنے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں عذاب قبر اور عذاب جہنم سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن ثابت ، عن ابي ايوب ، ان نوفا وعبد الله بن عمرو يعنى بن العاص اجتمعا، فقال نوف: لو ان السماوات ولارض وما فيهما وضع في كفة الميزان ووضعت" لا إله إلا الله" في الكفة الاخرى، لرجحت بهن، ولو ان السموات والارض وما فيهن كن طبقا من حديد، فقال رجل:" لا إله إلا الله"، لخرقتهن حتى تنتهي إلى الله عز وجل. فقال عبد الله بن عمرو : صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب، فعقب من عقب، ورجع من رجع، فجاء صلى الله عليه وسلم وقد كاد يحسر ثيابه عن ركبتيه، فقال:" ابشروا معشر المسلمين، هذا ربكم قد فتح بابا من ابواب السماء، يباهي بكم الملائكة، يقول: هؤلاء عبادي قضوا فريضة، وهم ينتظرون اخرى".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، أَنَّ نَوْفًا وعبد الله بن عمرو يعنى بن العاص اجتمعا، فقال نوف: لو أن السماوات ولأرض وما فيهما وضع في كفة الميزان ووضعت" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" فِي الْكِفَّةِ الْأُخْرَى، لَرَجَحَتْ بِهِنَّ، وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا فِيهِنَّ كُنَّ طَبَقًا مِنْ حَدِيدٍ، فَقَالَ رَجُلٌ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، لَخَرَقَتْهُنَّ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، فَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ، وَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ، فَجَاءَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ كَادَ يَحْسِرُ ثِيَابَهُ عَنْ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ:" أَبْشِرُوا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، هَذَا رَبُّكُمْ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ، يُبَاهِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ، يَقُولُ: هَؤُلَاءِ عِبَادِي قَضَوْا فَرِيضَةً، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ أُخْرَى".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور نوف کسی مقام پر جمع ہوئے نوف کہنے لگے کہ اگر آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجود تمام چیزوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور لاالہ الا اللہ " کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو یہ دوسرا پلڑا جھک جائے گا اگر آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزیں لوہے کی سطح بن جائیں اور ایک آدمی لاالہ اللہ اللہ کہہ دے تو یہ کلمہ لوہے کی ان تمام چادروں کو پھاڑتے ہوئے اللہ کے پاس پہنچ جائے۔ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ایک دن مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی، جانے والے چلے گئے اور بعد میں آنے والے بعد میں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے گھٹنوں سے ہٹنے کے قریب تھے اور فرمایا: ”اے گروہ مسلمین تمہیں خوشخبری ہو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور وہ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ان بندوں نے ایک فرض ادا کر دیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير ، ان نوفا، وعبد الله بن عمرو اجتمعا، فقال نوف: فذكر الحديث، فقال عبد الله بن عمرو بن العاص : وانا احدثك عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: صلينا مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فعقب من عقب، ورجع من رجع، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يثوب الناس لصلاة العشاء، فجاء وقد حفزه النفس، رافعا إصبعه هكذا، وعقد تسعا وعشرين، واشار بإصبعه السبابة إلى السماء، وهو يقول:" ابشروا معشر المسلمين، هذا ربكم عز وجل قد فتح بابا من ابواب السماء، يباهي بكم الملائكة، يقول: ملائكتي، انظروا إلى عبادي، ادوا فريضة، وهم ينتظرون اخرى".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، أَنَّ نَوْفًا، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو اجْتَمَعَا، فَقَالَ نَوْفٌ: فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ العاص : وَأَنَا أُحَدِّثُكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ، وَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَثُوبَ النَّاسُ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَجَاءَ وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، رَافِعًا إِصْبَعَهُ هَكَذَا، وَعَقَدَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَى السَّمَاءِ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَبْشِرُوا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، هَذَا رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ، يُبَاهِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ، يَقُولُ: مَلَائِكَتِي، انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي، أَدَّوْا فَرِيضَةً، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ أُخْرَى".
ایک مرتبہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور نوف کسی مقام پر جمع ہوئے نوف کہنے لگے۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ایک دن مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی، جانے والے چلے گئے اور بعد میں آنے والے بعد میں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس پھولا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اٹھا کر انتیس کا عدد بنایا اور آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”اے گروہ مسلمین تمہیں خوشخبری ہو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور وہ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ان بندوں نے ایک فرض ادا کر دیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، بما قبله، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کون سا اسلام افضل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح، م: 40 ، وهذا إسناد ضعيف ، ابن لهيعة - وإن كان سيئ الحفظ - متابع
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ دورد بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ وعبد الرحمن بن مريح مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن سلمة بن اكسوم ، قال: سمعت ابن حجيرة يسال القاسم بن البرحي كيف سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص يخبر؟ قال: سمعته يقول: إن خصمين اختصما إلى عمرو بن العاص، فقضى بينهما، فسخط المقضي عليه، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا قضى القاضي فاجتهد فاصاب، فله عشرة اجور، وإذا اجتهد فاخطا، كان له اجر او اجران".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ أُكْسُومٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ حُجَيْرَةَ يسأل القاسم بْنَ الْبَرْحِيِّ كَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص يُخْبِرُ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ خَصْمَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى عَمْرِو بْنِ العاص، فَقَضَى بَيْنَهُمَا، فَسَخِطَ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قَضَى الْقَاضِي فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ، فَلَهُ عَشَرَةُ أُجُورٍ، وَإِذَا اجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ، كَانَ لَهُ أَجْرٌ أَوْ أَجْرَانِ".
قاسم بن برحی رحمہ اللہ سے ابن حجیرہ نے پوچھا کہ آپ نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ دو فریق سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس ایک جھگڑالے کر آئے انہوں نے دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ ہوا وہ ناراض ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اس نے سارا واقعہ ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قاضی کوئی فیصلہ خوب احتیاط سے کرے اور صحیح کرے تو اسے دس گنا اجر ملے گا اور اگر احتیاط کے باوجود فیصلے میں غلطی ہو جائے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة وجهالة سلمة بن أكسوم
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچوں کی عمر جب سات سال ہو جائے تو انہیں نماز کا حکم دو دس سال کی عمر ہوجانے پر ترک صلوٰۃ کی صورت میں انہیں سزا دو اور سونے کے بستر الگ کر دو اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کر دے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے کیونکہ ناف کے نیچے سے گھٹنوں کا حصہ ستر ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سے اللہ کے معاملے میں سب سے آگے بڑھنے والا وہ شخص ہے جو کسی حرم شریف میں قتل کرے یا کسی ایسے شخص کو قتل کرے جو قاتل نہ ہو یا دور جاہلیت کی دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، ويونس ، قالا: حدثنا نافع بن عمرو ، عن بشر بن عاصم الثقفي ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال نافع: ولا اعلمه إلا، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: ولم يشك يونس، قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله عز وجل يبغض البليغ من الرجال، الذي يتخلل بلسانه، كما تتخلل الباقرة بلسانها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، وَيُونُسُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ نَافِعٌ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أَبِي: وَلَمْ يَشُكَّ يُونُسُ، قَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ، الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ، كَمَا تَتَخَلَّلُ الْبَاقِرَةُ بِلِسَانِهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو وہ شخص انتہائی ناپسند ہے جو اپنی زبان کو اس طرح ہلاتا رہتا ہے جیسے گائے جگالی کر تی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا داود بن قيس ، سمعت عمرو بن شعيب يحدث، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الفرع؟ فقال:" الفرع حق، وإن تركته حتى يكون شغزبا ابن مخاض او ابن لبون، فتحمل عليه في سبيل الله، او تعطيه ارملة، خير من ان تبكه يلصق لحمه بوبره، وتكفا إناءك، وتولي ناقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ ، سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفَرَعِ؟ فَقَالَ:" الْفَرَعُ حَقٌّ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكُونَ شُغْزُبًّا ابْنَ مَخَاضٍ أَوْ ابْنَ لَبُونٍ، فَتَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ تُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَبُكَّهُ يَلْصَقُ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ، وَتَكْفَأَ إِنَاءَكَ، وَتُولِيَ نَاقَتَكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے اونٹ کے پہلے بچے کی قربانی کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ برحق ہے لیکن اگر تم اسے جوان ہونے تک چھوڑ دو کہ وہ دو تین سال کا ہو جائے پھر تم اسے کسی کو فی سبیل اللہ سواری کے لئے دے دو یا بیواؤں کو دے دو تو یہ زیادہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے ذبح کر کے اس کا گوشت اس کے بالوں کے ساتھ لگاؤ اپنا برتن الٹ دو اور اپنی اونٹنی کو پاگل کر دو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن ابن المسيب ، وابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" الم احدث انك تقوم الليل؟ او انت الذي تقول: لاقومن الليل ولاصومن النهار؟" قال: احسبه قال: نعم، يا رسول الله، قد قلت ذلك، قال:" فقم ونم، وصم وافطر، وصم من كل شهر ثلاثة ايام، ولك مثل صيام الدهر"، قلت: يا رسول الله، إني اطيق اكثر من ذلك؟ قال:" فصم يوما وافطر يومين"، قلت: إني اطيق افضل من ذلك؟ قال:" فصم يوما وافطر يوما، وهو اعدل الصيام، وهو صيام داود"، قلت: إني اطيق افضل من ذلك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا افضل من ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ؟ أَوْ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ: لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ؟" قَالَ: أَحْسِبُهُ قَالَ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ قُلْتُ ذَلِكَ، قَالَ:" فَقُمْ وَنَمْ، وَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَلَكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ:" فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ:" فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ، وَهُوَ صِيَامُ دَاوُدَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ہی ہو جس کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ تم کہتے ہو میں روزانہ رات کو قیام اور دن کو صیام کروں گا؟ عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ!! میں نے ہی کہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو روزہ بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو اور ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو تمہیں ساری زندگی روزے رکھنے کا ثواب ہو گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!! مجھ میں اس سے زیادہ کر نے کی طاقت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ اور دو ناغہ کیا کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سے زیادہ افضل کی طاقت رکھتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کیا کرو، یہ روزہ کا معتدل ترین طریقہ ہے اور یہی سیدنا داؤد علیہ السلام کا طرییقہ صیام ہے میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے بھی افضل کی طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا محمد بن ابي حفصة ، اخبرنا ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، وابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم اني اقول: لاصومن الدهر، ولاقومن الليل ما بقيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت الذي تقول، او قلت: لاصومن الدهر، ولاقومن الليل ما بقيت؟" قال: قلت: نعم، قال:" فإنك لا تطيق ذلك"، قال:" فقم ونم، وصم وافطر، وصم ثلاثة ايام من كل شهر، فإن الحسنة عشر امثالها"، فذكر معناه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَقُولُ: لَأَصُومَنَّ الدَّهْرَ، وَلَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ مَا بَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ، أَوْ قُلْتَ: لَأَصُومَنَّ الدَّهْرَ، وَلَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ مَا بَقِيتُ؟" قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، قَالَ:" فَقُمْ وَنَمْ، وَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَإِنَّ الْحَسَنَةَ عَشْرُ أَمْثَالِهَا"، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چل گیا کہ میں کہتا ہوں میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا اور رات کو قیام کروں گا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ہی ہو جو کہتے ہو روزانہ رات کو قیام اور دن کو صیام کروں گا؟ عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ! میں نے ہی کہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی طاقت نہیں رکھتے لہٰذا قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو روزہ بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو اور ہر مہینے میں صرف تین روزے رکھا کرو کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع فاطال، قال شعبة: واحسبه قال: في السجود نحو ذلك، وجعل يبكي في سجوده وينفخ، ويقول:" رب لم تعدني هذا وانا استغفرك، رب، لم تعدني هذا وانا فيهم"، فلما صلى قال:" عرضت علي الجنة، حتى لو مددت يدي لتناولت من قطوفها، وعرضت علي النار، فجعلت انفخ خشية ان يغشاكم حرها، ورايت فيها سارق بدنتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورايت فيها اخا بني دعدع، سارق الحجيج، فإذا فطن له قال: هذا عمل المحجن، ورايت فيها امراة طويلة سوداء حميرية، تعذب في هرة ربطتها، فلم تطعمها ولم تسقها، ولم تدعها تاكل من خشاش الارض، حتى ماتت، وإن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا انكسف احدهما، او قال فعل باحدهما شيء من ذلك، فاسعوا إلى ذكر الله". قال عبد الله: قال ابي: قال ابن فضيل: لم تعذبهم وانا فيهم؟ لم تعذبنا ونحن نستغفرك؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: فِي السُّجُودِ نَحْوَ ذَلِكَ، وَجَعَلَ يَبْكِي فِي سُجُودِهِ وَيَنْفُخُ، وَيَقُولُ:" رَبِّ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا أَسْتَغْفِرُكَ، رَبِّ، لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا فِيهِمْ"، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ، حَتَّى لَوْ مَدَدْتُ يَدِي لَتَنَاوَلْتُ مِنْ قُطُوفِهَا، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَجَعَلْتُ أَنْفُخُ خَشْيَةَ أَنْ يَغْشَاكُمْ حَرُّهَا، وَرَأَيْتُ فِيهَا سَارِقَ بَدَنَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دَعْدَعٍ، سَارِقَ الْحَجِيجِ، فَإِذَا فُطِنَ لَهُ قَالَ: هَذَا عَمَلُ الْمِحْجَنِ، وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ حِمْيَرِيَّةً، تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقِهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ، وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا انْكَسَفَ أَحَدُهُمَا، أَوْ قَالَ فُعِلَ بِأَحَدِهِمَا شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ، فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ". قَاَل عبد الله: قَالَ أَبِي: قَالَ ابْنُ فُضَيْلٍ: لِمَ تُعَذِّبُهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ؟ لِمَ تُعَذِّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُكَ؟".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتناطویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے۔ پھر سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر پھونکتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ پروردگار تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ میری موجودگی میں انہیں عذاب نہیں دے گا؟ پروردگار ہماری طلب بخشش کے باوجود تو ہمیں عذاب دے گا؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل فرمائی اور فرمایا: ”میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور اسے میرے اتنا قریب کر دیا گیا کہ اگر میں اس کی کسی ٹہنی کو پکڑنا چاہتا تو پکڑ لیتا اسی طرح جہنم کو بھی میرے سامنے پیش کیا گیا اور اسے میرے اتنا قریب کر دیا گیا کہ میں اسے بجھانے لگا اس خوف سے کہ کہیں وہ تم پر نہ آپڑے اور میں نے جہنم میں اس آدمی کو بھی دیکھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو اونٹنیاں چرائی تھیں نیز قبیلہ حمیر کی ایک عورت کو دیکھاجو سیاہ رنگت اور لمبے قد کی تھی اسے اس کی ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا نہ خودا سے کھلایاپلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی وہ عورت جب بھی آگے بڑھتی تو جہنم میں وہی بلی اسے ڈستی اور اگر پیچھے ہٹتی تو اسے پیچھے سے ڈستی نیز میں نے وہاں بنو دعدع کے ایک آدمی کو بھی دیکھا اور میں نے لاٹھی والے کو بھی دیکھا جو جہنم میں اپنی لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے تھا یہ شخص اپنی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا اور جب حاجیوں کو پتہ چلتا تو کہہ دیتا کہ میں نے اسے چرایا تھوڑی ہے یہ چیز تو میری لاٹھی کے ساتھ چپک کر آگئی تھی۔ اور شمس و قمر کو کسی کی موت وحیات سے گہن نہیں لگتا یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو گہن لگ جائے تو مسجدوں کی طرف دوڑا کرو۔
قال عبد الله بن احمد: قال ابي: ووافق شعبة زائدة ، وقال" من خشاش الارض"، حدثناه معاوية .قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أبِي: وَوَافَقَ شُعْبَةُ زَائِدَةَ ، وَقَالَ" مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ"، حَدَّثَنَاه مُعَاوِيَةُ .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن حصين ، عن مجاهد ، عن عبد الله بن عمرو ، انه تزوج امراة من قريش، فكان لا ياتيها، كان يشغله الصوم والصلاة، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" صم من كل شهر ثلاثة ايام"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، فما زال به حتى قال له:" صم يوما وافطر يوما" وقال له:" اقرإ القرآن في كل شهر، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" اقراه في كل خمس عشرة"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" اقراه في كل سبع"، حتى قال:" اقرا في كل ثلاث"، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن لكل عمل شرة، ولكل شرة فترة، فمن كانت شرته إلى سنتي فقد افلح، ومن كانت فترته إلى غير ذلك، فقد هلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ، فَكَانَ لَا يَأْتِيهَا، كَانَ يَشْغَلُهُ الصَّوْمُ وَالصَّلَاةُ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَمَا زَالَ بِهِ حَتَّى قَالَ لَهُ:" صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا" وَقَالَ لَهُ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ خَمْسَ عَشْرَةَ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ"، حَتَّى قَالَ:" اقْرَأْ فِي كُلِّ ثَلَاثٍ"، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ شِرَّةً، وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ، فَمَنْ كَانَتْ شِرَّتُهُ إِلَى سُنَّتِي فَقَدْ أَفْلَحَ، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ، فَقَدْ هَلَكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے قریش کی ایک خاتون سے شادی کر لی لیکن نماز روزے کی طاقت اور شوق کی وجہ سے انہوں نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میں فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو اور فرمایا: ”مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ دن پھر میرے کہنے پر سات حتٰی کہ تین دن کا فرما دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر عمل میں ایک تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا ایک انقطاع ہوتا ہے یا سنت کی طرف یا بدعت کی طرف جس کا انقطاع سنت کی طرف ہو تو وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جس کا انقطاع کسی اور چیز کی طرف ہو تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لئے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بوچھا کیا تمہارے والدین حیات ہیں اس نے کہا جی ہاں فرمایا: ”جاؤ اور ان ہی میں جہاد کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن حبيب ، عن ابي العباس ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحدثنا روح ، حدثنا شعبة ، سمعت حبيب بن ابي ثابت ، سمعت ابا العباس الشاعر، وكان صدوقا يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الله بن عمرو، إنك تصوم الدهر، فإذا صمت الدهر، وقمت الليل، هجمت له العين، ونفهت له النفس، لا صام من صام الابد، صم ثلاثة ايام من الشهر، صوم الدهر كله"، قال: قلت: إني اطيق، قال:" صم صوم داود، فإنه كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى"، وقال روح:" نهثت له النفس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وحَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ ، سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ، وَكَانَ صَدُوقًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، إِنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ، فَإِذَا صُمْتَ الدَّهْرَ، وَقُمْتَ اللَّيْلَ، هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ، وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ، صَوْمَ الدَّهْرِ كُلِّهِ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:" صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى"، وَقَالَ رَوْحٌ:" نَهِثَتْ لَهُ النَّفْسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمرو! تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو جب تم ہمیشہ روزہ رکھو گے اور رات کو قیام کرو گے تو آنکھیں غالب آجائیں گی اور نفس کمزور ہو جائے گا ہمیشہ روزہ رکھنے والا کوئی روزہ نہیں رکھتا ہر مہینے صرف تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سیدنا داؤدعلیہ السلام کی طرح روزہ رکھ لیا کرو وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے اور دشمن سے سامنا ہونے پر بھاگتے نہیں تھے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار آدمیوں سے قرآن سیکھو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پھر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پھر سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عنہ۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال: قال: وقال:" لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاحشا ولا متفحشا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من احبكم إلي احسنكم خلقا".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ: قَالَ: وَقَالَ:" لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ أَحْسَنَكُمْ خُلُقًا".
نیز فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےتکلف یا بتکلف بےحیائی کرنے والے نہ تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک شعبہ موجود ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے جب عہد کرے تو بد عہدی کرے جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس خاتون کا (نکاح یا خرید کے ذریعہ) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے کا بھی حق نہیں رکھتا اپنے غیر مملوک کو آزاد کر نے کا بھی انسان کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی غیر مملوک چیز کی بیع کا اختیار ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص کسی عورت سے اس کی پھوپھی یاخالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن سعيد بن المسيب ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على جويرية بنت الحارث، وهي صائمة في يوم جمعة، فقال لها:" اصمت امس؟" فقالت: لا، قال:" اتريدين ان تصومي غدا؟" فقالت: لا، قال:" فافطري إذا"، قال سعيد: ووافقني عليه مطر عن سعيد بن المسيب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى جُوَيْرِيَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، وَهِيَ صَائِمَةٌ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ، فَقَالَ لَهَا:" أَصُمْتِ أَمْسِ؟" فَقَالَتْ: لَا، قَالَ:" أَتُرِيدِينَ أَنْ تَصُومِي غَدًا؟" فَقَالَتْ: لَا، قَالَ:" فَأَفْطِرِي إِذًا"، قَالَ سَعِيدٌ: وَوَافَقَنِي عَلَيْهِ مَطَرٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ام المؤمنین سیدنا جویریہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے وہ اس وقت روزے سے تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا آپ نے کل روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کل کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر روزہ ختم کر دو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں اور سر کے زخم میں پانچ پانچ اونٹ ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن يعلى بن عطاء ، عن نافع بن عاصم ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من شرب الخمر فسكر، لم تقبل صلاته اربعين ليلة، فإن شربها فسكر لم تقبل صلاته اربعين ليلة، فإن شربها فسكر لم تقبل صلاته اربعين ليلة، والثالثة والرابعة فإن شربها لم تقبل صلاته اربعين ليلة، فإن تاب لم يتب الله عليه، وكان حقا على الله ان يسقيه من عين خبال"، قيل: وما عين خبال؟ قال:" صديد اهل النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَسَكِرَ، لَمْ تُقْبَلْ صَلَاتُهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَإِنْ شَرِبَهَا فَسَكِرَ لَمْ تُقْبَلْ صَلَاتُهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَإِنْ شَرِبَهَا فَسَكِرَ لَمْ تُقْبَلْ صَلَاتُهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَالثَّالِثَةَ وَالرَّابِعَةَ فَإِنْ شَرِبَهَا لَمْ تُقْبَلْ صَلَاتُهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَإِنْ تَابَ لَمْ يَتُبْ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَكَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُسْقِيَهُ مِنْ عَيْنِ خَبَالٍ"، قِيلَ: وَمَا عَيْنُ خَبَالٍ؟ قَالَ:" صَدِيدُ أَهْلِ النَّارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص شراب پی کر مد ہوش ہو جائے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اگر دوبارہ شراب پیئے تو پھر چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ”کہ اگر دوبارہ پیئے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی اگر وہ توبہ کرے گا تو اللہ اس کی توبہ کو قبول نہیں کرے گا اور اللہ پر حق ہے کہ اسے چشمہ خبال کا پانی پلائے کسی نے پوچھا چشمہ خبال سے کیا مراد ہے تو فرمایا: ”اہل جہنم کی پیپ۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «فإن تاب لم يتب الله عليه»
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن رحم کو چرخے کی طرح ٹیڑھی شکل میں پیش کیا جائے گا اور وہ انتہائی فصیح وبلیغ زبان میں گفتگو کر رہا ہو گا جس نے اسے جوڑا ہو گا وہ اسے جوڑ دے گا اور جس نے اسے توڑا ہو گا وہ اسے توڑ دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى ثمامة الثقفي
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن يزيد اخي مطرف، عن عبد الله بن عمرو ، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، في كم اقرا القرآن؟ فذكر الحديث، قال يحيى قال:" في سبع، لا يفقه من قراه في اقل من ثلاث"، وقال: كيف اصوم؟ قال:" صم من كل شهر ثلاثة ايام، من كل عشرة ايام يوما، ويكتب لك اجر تسعة ايام"، قال: إني اقوى من ذلك، قال:" صم من كل عشرة يومين، ويكتب لك اجر ثمانية ايام"، حتى بلغ خمسة ايام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يَزِيدَ أَخِي مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ يَحْيَى قَالَ:" فِي سَبْعٍ، لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَهُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ"، وَقَالَ: كَيْفَ أَصُومُ؟ قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، مِنْ كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَيُكْتَبُ لَكَ أَجْرُ تِسْعَةِ أَيَّامٍ"، قَالَ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ عَشَرَةٍ يَوْمَيْنِ، وَيُكْتَبُ لَكَ أَجْرُ ثَمَانِيَةِ أَيَّامٍ"، حَتَّى بَلَغَ خَمْسَةَ أَيَّامٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میں کتنے دن میں ایک قرآن پڑھا کروں؟ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور کہا کہ سات دن میں اور تین دن سے کم میں پڑھنے والا اسے نہیں سمجھتا میں نے پوچھا کہ روزے کس طرح رکھوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے تین روزے رکھا کرو ایک روزہ دس دن کی طرف سے ہو جائے گا اور تمہارے لئے نو ایام کا اجر مزید لکھا جائے گا میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس دن میں دو روزے رکھ لیا کرو اور تمہارے لئے آٹھ ایام کا اجر لکھا جائے گا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ دن تک پہنچ گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن يوسف ، حدثنا سفيان ، عن الحسن بن عمرو ، عن ابن مسلم ، قال عبد الله بن احمد: وكان في كتاب ابي، عن الحسن بن مسلم، فضرب على الحسن، وقال: عن ابن مسلم، وإنما هو: محمد بن مسلم ابو الزبير، اخطا الازرق، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا رايت امتي لا يقولون للظالم منهم انت ظالم، فقد تودع منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: وَكَانَ فِي كِتَابِ أَبِي، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، فَضَرَبَ عَلَى الْحَسَنِ، وَقَالَ: عَنِ ابْنِ مُسْلِمٍ، وَإِنَمَا هُوَ: مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَبُو الزُّبَيْرِ، أَخْطَأَ الأزرق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا رَأَيْتَ أُمَّتِي لَا يَقُولُونَ لِلظَّالِمِ مِنْهُمْ أَنْتَ ظَالِمٌ، فَقَدْ تُوُدِّعَ مِنْهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میری امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہے تو ان سے رخصت ہو گئی (ضمیر کی زندگی یا دعاؤں کی قبولیت)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الزبير لم يسمع من عبد الله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ!! مجالس ذکر کی غنیمت کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجالس ذکر کی غنیمت جنت ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف، وراشد بن يحيى المعافري مجهول
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا عامر الاحول ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا نذر لابن آدم فيما لا يملك، ولا عتق لابن آدم فيما لا يملك، ولا طلاق له فيما لا يملك، ولا يمين فيما لا يملك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس خاتون کا (نکاح یا خرید کے ذریعے) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے کا بھی حق نہیں رکھتا اپنے غیر مملوک کو آزاد کر نے کا بھی انسان کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی غیر مملوک چیز کی منت ماننے کا اختیار ہے اور نہ ہی غیر مملوک چیز میں اس کی قسم کا کوئی اعتبار ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس چیز کا (نکاح یاخرید کے ذریعے) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے، بیچنے، آزاد کر نے یا منت پوری کر نے کا اختیار نہیں رکھتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقف عند الجمرة الثانية اكثر مما وقف عند الجمرة الاولى، ثم اتى جمرة العقبة فرماها ولم يقف عندها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَفَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الثَّانِيَةِ أَكْثَرَ مِمَّا وَقَفَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولَى، ثُمَّ أَتَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَرَمَاهَا وَلَمْ يَقِفْ عِنْدَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ ثانیہ کے پاس جمرہ اولیٰ کی نسبت زیادہ دیر ٹھہرے رہے پھر جمرہ عقبہ پر تشریف لا کر رمی کی اور وہاں نہیں ٹھہرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن محمد بن جحادة ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: انا" رايت النبي صلى الله عليه وسلم، ينفتل عن يمينه، وعن شماله في الصلاة، ويشرب قائما وقاعدا، ويصلي حافيا وناعلا، ويصوم في السفر ويفطر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: أَنَا" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَيَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا، وَيُصَلِّي حَافِيًا وَنَاعِلًا، وَيَصُومُ فِي السَّفَرِ وَيُفْطِرُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ دائیں بائیں جانب سے واپس چلے جاتے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے اور سفر میں روزہ رکھتے ہوئے اور ناغہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میری امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہے تو ان سے رخصت ہو گئی (ضمیر کی زندگی یا دعاؤں کی قبولیت)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الزبير لم يسمع من عبد الله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدلہ دینے والا صلہ رحمی کر نے والے کے زمرے میں نہیں آتا اصل صلہ رحمی کر نے والا تو وہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس سے رشتہ توڑے تو وہ اس سے رشتہ جوڑے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذوا القرآن من اربعة: من ابن مسعود، وابي بن كعب، ومعاذ بن جبل، وسالم مولى ابي حذيفة"، قال: فقال عبد الله: فذاك رجل لا ازال احبه منذ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم بدا به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنَ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ"، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَذَاكَ رَجُلٌ لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِهِ.
مسرورق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تذکر ہ کر نے لگے اور فرمایا: ”کہ وہ ایسا آدمی ہے جس سے میں ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چار آدمیوں سے قرآن سیکھو اور ان میں سب سے پہلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينزعه من الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤساء جهالا، فسئلوا، فافتوا بغير علم، فضلوا واضلوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے درمیان سے کھینچ لے گا بلکہ علماء کو اٹھا کر علم اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب ایک عالم بھی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوابنا لیں گے اور انہیں سے مسائل معلوم کیا کر یں گے وہ علم کے بغیر انہیں فتویٰ دیں گے نتیجہ یہ ہو گا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر یں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن ابي العباس المكي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افضل الصوم صوم اخي داود، كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا صام من صام الابد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الْمَكِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْضَلُ الصَّوْمِ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روزہ رکھنے کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ سیدنا داؤدعلیہ السلام کا ہے وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے اور دشمن سے سامنا ہونے پر بھاگتے نہیں تھے نیز فرمایا: ”کہ ہمیشہ روزہ رکھنے والا کوئی روزہ نہیں رکھتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذوا القرآن من اربعة: من ابن ام عبد" فبدا به" ومن معاذ بن جبل، وابي بن كعب، وسالم مولى ابي حذيفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ" فَبَدَأَ بِهِ" وَمِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار آدمیوں سے قرآن سیکھو اور ان میں سب سے پہلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني قرة ، وروح ، حدثنا اشعث ، وقرة بن خالد المعنى ، عن الحسن ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من شرب الخمر فاجلدوه، فإن عاد فاجلدوه، فإن عاد فاجلدوه، فإن عاد فاقتلوه"، قال وكيع: في حديثه قال عبد الله ائتوني برجل قد شرب الخمر في الرابعة، فلكم علي ان اقتله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي قُرَّةُ ، وَرَوْحٌ ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ ، وَقُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ الْمَعْنَى ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فَاقْتُلُوهُ"، قَالَ وَكِيعٌ: فِي حَدِيثِهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ائْتُونِي بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الرَّابِعَةِ، فَلَكُمْ عَلَيَّ أَنْ أَقْتُلَهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص شراب پیئے اسے کوڑے مارو دوبارہ پیئے تو دوبارہ کوڑے مارو اور چوتھی مرتبہ پینے پر اسے قتل کر دو اس بناء پر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میرے پاس ایسے شخص کو لے کر آؤ جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی ہو میرے ذمے اسے قتل کرنا واجب ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، الحسن البصري لم يسمع هذا الحديث من عبد الله بن عمرو
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا المسعودي . ويزيد ، قال: اخبرنا المسعودي، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن الحارث المكتب ، عن ابي كثير الزبيدي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إياكم والشح، فإنه اهلك من كان قبلكم، امرهم بالظلم فظلموا، وامرهم بالقطيعة فقطعوا، وامرهم بالفجور ففجروا، وإياكم والظلم، فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، وإياكم والفحش، فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش"، قال: فقام إليه رجل، فقال: يا رسول الله، اي المسلمين افضل؟ قال:" من سلم المسلمون من لسانه ويده"، قال: فقام هو او آخر، فقال: يا رسول الله، اي الجهاد افضل؟ قال:" من عقر جواده، واهريق دمه"، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: وقال يزيد بن هارون في حديثه: ثم ناداه هذا او غيره، فقال: يا رسول الله، اي الهجرة افضل؟ قال:" ان تهجر ما كره ربك، وهما هجرتان هجرة للبادي، وهجرة للحاضر، فاما هجرة البادي، فيطيع إذا امر، ويجيب إذا دعي، واما هجرة الحاضر، فهي اشدهما بلية، واعظمهما اجرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ . وَيَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُكْتِبِ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ الزُّبَيْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَمَرَهُمْ بِالظُّلْمِ فَظَلَمُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا، وَإِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ"، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"، قَالَ: فَقَامَ هُوَ أَوْ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" مَنْ عَقَرَ جَوَادَهُ، وَأُهْرِيقَ دَمُهُ"، قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أَبِي: وقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي حَدِيثِهِ: ثُمَّ نَادَاهُ هَذَا أَوْ غَيْرُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ، وَهُمَا هِجْرَتَانِ هِجْرَةٌ لِلْبَادِي، وَهِجْرَةٌ لِلْحَاضِرِ، فَأَمَّا هِجْرَةُ الْبَادِي، فَيُطِيعُ إِذَا أُمِرَ، وَيُجِيبُ إِذَا دُعِيَ، وَأَمَّا هِجْرَةُ الْحَاضِرِ، فَهِيَ أَشَدُّهُمَا بَلِيَّةً، وَأَعْظَمُهُمَا أَجْرًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہو گا بےحیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اللہ بےتکلف یا بتکلف کسی نوعیت کی بےحیائی پسند نہیں کرتا بخل سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا اسی بخل نے انہیں قطع رحمی کا راستہ دکھایا سو انہوں نے رشتے ناطے توڑ دیئے اسی بخل نے انہیں اپنی دولت اور چیزیں اپنے پاس سمیٹ کر رکھنے کا حکم دیاسو انہوں نے ایساہی کیا اسی بخل نے انہیں گناہوں کا راستہ دکھایا سو وہ گناہ کر نے لگے۔ اسی دوران ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ!! کون سا مسلمان افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ دوسرے مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں ایک اور آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ! کون سا جہاد افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی گئی ہوں اور اس کا خون بہا دیا گیا ہو یزید کی سند سے روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ پھر ایک اور آدمی نے پکار کر پوچھا یا رسول اللہ!! کون سی ہجرت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم ان چیزوں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناگوار گزریں اور ہجرت کی دو قسمیں ہیں شہری کی ہجرت اور دیہاتی کی ہجرت دیہاتی کی ہجرت تو یہ ہے کہ جب اسے دعوت ملے تو قبول کر لے اور جب حکم ملے تو اس کی اطاعت کرے اور شہری کی آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت جالسا معه في ظل الكعبة وهو يحدث الناس، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فنزلنا منزلا، فمنا من يضرب خباءه، ومنا من هو في جشره، ومنا من ينتضل، إذ نادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة جامعة، قال فانتهيت إليه وهو يخطب الناس، ويقول:" ايها الناس، إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه ان يدل امته على ما يعلمه خيرا لهم، وينذرهم ما يعلمه شرا لهم، الا وإن عافية هذه الامة في اولها، وسيصيب آخرها بلاء وفتن، يرقق بعضها بعضا، تجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، ثم تجيء فيقول: هذه هذه، ثم تجيء فيقول: هذه هذه، ثم تنكشف، فمن احب ان يزحزح عن النار، ويدخل الجنة، فلتدركه منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وياتي إلى الناس ما يحب ان يؤتى إليه، ومن بايع إماما، فاعطاه صفقة يده وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع"، وقال مرة: ما استطاع، فلما سمعتها ادخلت راسي بين رجلين، وقلت: فإن ابن عمك معاوية يامرنا؟ فوضع جمعه على جبهته، ثم نكس، ثم رفع راسه، فقال: اطعه في طاعة الله، واعصه في معصية الله، قلت: له انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم سمعته اذناي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَهُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشْرِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، قَالَ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ، وَيَقُولُ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، أَلَا وَإِنَّ عَافِيَةَ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وَفِتَنٌ، يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، تَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ فَيَقُولُ: هَذِهِ هَذِهِ، ثُمَّ تَجِيءُ فَيَقُولُ: هَذِهِ هَذِهِ، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَيَأْتِي إِلَى النَّاسِ مَا يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا، فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ"، وَقَالَ مَرَّةً: مَا اسْتَطَاعَ، فَلَمَّا سَمِعْتُهَا أَدْخَلْتُ رَأْسِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَقُلْتُ: فَإِنَّ ابْنَ عَمِّكَ مُعَاوِيَةَ يَأْمُرُنَا؟ فَوَضَعَ جُمْعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ نَكَسَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، قُلْتُ: لَهُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ.
عبدالرحمان بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا وہ اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا ہم میں سے بعض لوگوں نے خیمے لگا لئے بعض چراگاہ میں چلے گئے اور بعض تیر اندازی کر نے لگے اچانک ایک منادی نداء کر نے لگا کہ نماز تیار ہے ہم لوگ اسی وقت جمع ہو گئے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو وہ خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرما رہے تھے اے لوگو! مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کر ام (علیہم السلام) گزرے ہیں وہ اپنی امت کے لئے جس چیز کو خیر سمجھتے تھے انہوں نے وہ سب چیزیں اپنی امت کو بتادیں اور جس چیز کو شر سمجھتے تھے اس سے انہیں خبردار کر دیا اور اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھی گئی ہے اور اس امت کے آخری لوگوں کو سخت مصائب اور عجیب و غریب امور کا سامنا ہو گا ایسے فتنے رونما ہوں گے جو ایک دوسرے کے لئے نرم کر دیں گے مسلمان پر آزمائش آئے گی تو وہ کہے گا کہ یہ میری موت کا سبب بن کر ر ہے گی اور کچھ عرصے بعد وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے تو اسے اس حال میں موت آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کو وہ دے جو خود لینا پسند کرتا ہو اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر لوگوں میں گھسا کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا یہ بات آپ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”میرے دونوں کانوں نے یہ بات سنی اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، قال: كنا ناتي عبد الله بن عمرو فنتحدث عنده، فذكرنا يوما عبد الله بن مسعود، فقال: لقد ذكرتم رجلا لا ازال احبه منذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" خذوا القرآن من اربعة: من ابن ام عبد" فبدا به" ومعاذ بن جبل، وابي بن كعب، وسالم مولى ابي حذيفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو فَنَتَحَدَّثُ عِنْدَهُ، فَذَكَرْنَا يَوْمًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لَقَدْ ذَكَرْتُمْ رَجُلًا لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ" فَبَدَأَ بِهِ" وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ".
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تذکر ہ کر نے لگے اور فرمایا: ”کہ ایسا آدمی ہے جس میں ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چار آدمیوں سے قرآن سیکھو اور ان میں سب سے پہلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں یا کسی ذمی کو اس کے معاہدے کی مدت میں قتل نہ کیا جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني خليفة بن خياط ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال في خطبته، وهو مسند ظهره إلى الكعبة:" المسلمون تكافا دماؤهم، ويسعى بذمتهم ادناهم، وهم يد على من سواهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ، وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ:" الْمُسْلِمُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”مسلمان اپنے علاوہ سب پر ایک ہاتھ ہیں سب کا خون برابر ہے ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مالدار آدمی کے لئے یا کسی مضبوط اور طاقتور (ہٹے کٹے) آدمی کے لئے زکوٰۃ لیناجائز نہیں ہے۔
(حديث قدسي) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يقال لصاحب القرآن اقرا: وارق، ورتل كما كنت ترتل في الدنيا، فإن منزلتك عند آخر آية تقرؤها".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ: وَارْقَ، وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور درجات جنت چڑھتاجا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے دنیا میں میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا کہ تیری منزل اس آخری آیت پر ہو گی جو تو پڑھے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك بن انس ، عن الزهري ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا قال: يا رسول الله، لم اشعر، نحرت قبل ان ارمي؟ قال:" ارم ولا حرج"، قال آخر: يا رسول الله، حلقت قبل ان انحر؟ قال:" انحر ولا حرج"، فما سئل يومئذ عن شيء قدم ولا اخر إلا قال:" افعل ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ:" انْحَرْ وَلَا حَرَجَ"، فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروا لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ دو آدمیوں کے درمیان ایک آیت کی تفسیر میں اختلاف ہو گیا اور بڑھتے بڑھتے ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتیں اپنی کتاب میں اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابي مالك يعني عبيد بن الاخنس ، حدثني الوليد بن عبد الله ، عن يوسف بن ماهك ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت اكتب كل شيء اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم، اريد حفظه، فنهتني قريش عن ذلك، وقالوا: تكتب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في الغضب والرضا؟ فامسكت، حتى ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال:" اكتب، فوالذي نفسي بيده، ما خرج منه إلا حق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ يَعْنِي عُبَيْدَ بْنَ الْأَخْنَسِ ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ عَنْ ذَلِكَ، وَقَالُوا: تَكْتُبُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا؟ فَأَمْسَكْتُ، حَتَّى ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:" اكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا خَرَجَ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو چیزیں سن لیتا اسے لکھ لیتا تاکہ یاد کر سکوں مجھے قریش کے لوگوں نے اس سے منع کیا اور کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سنتے ہو سب لکھ لیتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک انسان بعض اوقات غصہ میں بات کرتے ہیں اور بعض اوقات خوشی میں ان لوگوں کے کہنے کے بعد میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کر دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھ لیا کرو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میری زبان سے حق کے سواکچھ نہیں نکلتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن التيمي ، عن اسلم ، عن ابي مرية ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، او عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" النفاخان في السماء الثانية، راس احدهما بالمشرق ورجلاه بالمغرب"، او قال:" راس احدهما بالمغرب ورجلاه بالمشرق، ينتظران متى يؤمران ينفخان في الصور، فينفخان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِي مُرَيَّةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" النَّفَّاخَانِ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، رَأْسُ أَحَدِهِمَا بِالْمَشْرِقِ وَرِجْلَاهُ بِالْمَغْرِبِ"، أَوْ قَالَ:" رَأْسُ أَحَدِهِمَا بِالْمَغْرِبِ وَرِجْلَاهُ بِالْمَشْرِقِ، يَنْتَظِرَانِ مَتَى يُؤْمَرَانِ يَنْفُخَانِ فِي الصُّورِ، فَيَنْفُخَانِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صور پھونکنے والے فرشتے دوسرے آسمان میں ہیں ان میں سے ایک کا سر مشرق میں اور پاؤں مغرب میں ہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں صور پھونکنے کا حکم کب ملتا ہے کہ وہ اسے پھونکیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف للشك بين إرساله ووصله، ولجهالة أبى مرية فيما لوثبت وصله
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر سوال پوچھا یا رسول اللہ! صور کیا چیز ہے؟ فرمایا: ”ایک سینگ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل ، قال: اخبرني عامر ، قال: جاء رجل إلى عبد الله بن عمرو ، وعنده القوم، فتخطى إليه، فمنعوه، فقال: دعوه، فاتى حتى جلس عنده، فقال: اخبرني بشيء حفظته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرٌ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، وَعِنْدَهُ الْقَوْمُ، فَتَخَطَّى إِلَيْهِ، فَمَنَعُوهُ، فَقَالَ: دَعُوهُ، فَأَتَى حَتَّى جَلَسَ عِنْدَهُ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ حَفِظْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
عامر کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ان کے پاس کچھ لوگ پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے وہ ان کی گردنیں پھلانگنے لگا لوگوں نے روکا تو سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو وہ آ کر ان کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کی ہو؟ انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے تو اسے اس حال میں موت آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کو وہ دے جو خود لینا پسند کرتا ہو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے اعضاء وضو کو اچھی طرح مکمل دھویا کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھتا ہے اس نے اسے سمجھا نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لئے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں! فرمایا: ”جاؤ اور ان ہی میں جہاد کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سی ہجرت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم ان چیزوں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناگوار گزریں اور ہجرت کی دو قسمیں ہیں شہری کی ہجرت اور دیہاتی کی ہجرت دیہاتی کی ہجرت تو یہ ہے کہ جب اسے دعوت ملے تو قبول کر لے اور جب حکم ملے تو اس کی اطاعت کرے اور شہری کی آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا زكريا ، عن عامر ، عن عبد الله ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله من المهاجر؟ قال:" من هجر ما نهى الله عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ الْمُهَاجِرُ؟ قَالَ:" مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ!! اصل مہاجر کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا ثمرہ دے دے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا فطر . ويزيد بن هارون ، قال: اخبرنا فطر، عن مجاهد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الرحم معلقة بالعرش، وليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل من إذا قطعته رحمه وصلها"، قال يزيد: المواصل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ . وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا فِطْرٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّحِمَ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، وَلَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ مَنْ إِذَا قَطَعَتْهُ رَحِمُهُ وَصَلَهَا"، قَالَ يَزِيدُ: الْمُوَاصِلُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”رحم عرش کے ساتھ معلق ہے بدلہ دینے والا صلہ رحمی کر نے والے کے زمرے میں نہیں آتا اصل میں صلہ رحمی کر نے والا تو وہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس سے رشتہ توڑے تو وہ اس سے رشتہ جوڑے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق . وابن نمير ، قال: اخبرنا الاعمش، عن شقيق، عن مسروق ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا وكان، يقول:" من خياركم احاسنكم اخلاقا"، قال ابن نمير:" إن خياركم احاسنكم اخلاقا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ . وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَكَانَ، يَقُولُ:" مِنْ خِيَارِكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا"، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ:" إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےتکلف یا بتکلف بےحیائی کر نے والے نہ تھے اور وہ فرمایا: ”کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے گناہگار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کی روزی کا وہ ذمہ دار ہو (مثلاً ضعیف والدین اور بیوی بچے)
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا اسامة بن زيد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، وجد تحت جنبه تمرة من الليل، فاكلها، فلم ينم تلك الليلة، فقال بعض نسائه: يا رسول الله، ارقت البارحة؟ قال:" إني وجدت تحت جنبي تمرة، فاكلتها، وكان عندنا تمر من تمر الصدقة، فخشيت ان تكون منه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَدَ تَحْتَ جَنْبِهِ تَمْرَةً مِنَ اللَّيْلِ، فَأَكَلَهَا، فَلَمْ يَنَمْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَقَالَ بَعْضُ نِسَائِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرِقْتَ الْبَارِحَةَ؟ قَالَ:" إِنِّي وَجَدْتُ تَحْتَ جَنْبِي تَمْرَةً، فَأَكَلْتُهَا، وَكَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَخَشِيتُ أَنْ تَكُونَ مِنْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلو کے نیچے ایک کھجور پائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھالیا پھر رات کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےچین ہونے لگے، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ گھبرا گئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ”کہ مجھے اپنے پہلو کے نیچے ایک کھجور ملی تھی جسے میں نے کھالیا تھا اب مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ صدقہ کی کھجور نہ ہو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصفر سے رنگے ہوئے دو کپڑے میرے جسم پر دیکھے تو فرمایا: ”یہ کافروں کا لباس ہے اسے اتار دو۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا داود بن قيس الفراء ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة؟ فقال:" لا احب العقوق، ومن ولد له مولود فاحب ان ينسك عنه فليفعل، عن الغلام شاتان مكافاتان، وعن الجارية شاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ الْفَرَّاءُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ؟ فَقَالَ:" لَا أُحِبُّ الْعُقُوقَ، وَمَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْهُ فَلْيَفْعَلْ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے " عقیقہ " کے متعلق سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عقوق (نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا جو شخص اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے وہ لڑکے کی طرف دو برابر کی بکر یاں ذبح کر دے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکر ی ذبح کر لے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا: ”اور اپنی پشت خانہ کعبہ سے لگا لی۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا وكيع ، وإسحاق يعنى الازرق ، قالا: حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما احد من المسلمين يبتلى ببلاء في جسده، إلا امر الله عز وجل الحفظة الذين يحفظونه: اكتبوا لعبدي مثل ما كان يعمل وهو صحيح، ما دام محبوسا في وثاقي"، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: وقال إسحاق: اكتبوا لعبدي في كل يوم وليلة.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وإسحاق يعنى الأزرق ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُبْتَلَى بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ، إِلَّا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْحَفَظَةَ الَّذِينَ يَحْفَظُونَهُ: اكْتُبُوا لِعَبْدِي مِثْلَ مَا كَانَ يَعْمَلُ وَهُوَ صَحِيحٌ، مَا دَامَ مَحْبُوسًا فِي وَثَاقِي"، قال عبد الله بن أحمد: قَالَ أبي: وَقَالَ إِسْحَاقُ: اكْتُبُوا لِعَبْدِي فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی جسمانی طور پر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرا بندہ خیر کے جتنے بھی کام کرتا تھا وہ ہر دن رات لکھتے رہو تا وقتیکہ یہ میری حفاظت میں رہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں یا کسی ذمی کو اس کے معاہدے کی مدت میں قتل نہ کیا جائے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے گناہگار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کی روزی کا وہ ذمہ دار ہو (مثلاً ضعیف والدین اور بیوی بچے)
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس نیکیاں " جن میں سے سب سے اعلیٰ نیکی بکر ی کا تحفہ ہے ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک نیکی پر اس کے ثواب کی امید اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے " عمل کر لے اللہ اسے جنت میں داخلہ عطاء فرمائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سليم يعني ابن حيان ، عن سعيد بن ميناء ، سمعت عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بلغني انك"، وحدثناه عفان ، قال: حدثنا سليم بن حيان ، حدثنا سعيد بن ميناء ، سمعت عبد الله بن عمرو ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بلغني انك تصوم النهار، وتقوم الليل، فلا تفعل، فإن لجسدك عليك حظا، ولعينك عليك حظا، ولزوجك عليك حظا، صم ثلاثة ايام من كل شهر، فذلك صوم الدهر"، قال: قلت: إن بي قوة، قال:" صم صوم داود، صم يوما، وافطر يوما"، قال: فكان ابن عمرو، يقول، يا ليتني كنت اخذت بالرخصة، وقال عفان، وبهز: إني اجد بي قوة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سَلِيمٌ يَعْنِي ابْنَ حَيَّانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَاءَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَغَنِي أَنَّكَ"، وحَدَّثَنَاه عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَلِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ بِي قُوَّةً، قَالَ:" صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عَمْرٍو، يَقُولُ، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ أَخَذْتُ بِالرُّخْصَةِ، وقَالَ عَفَّانُ، وَبَهْزٌ: إِنِّي أَجِدُ بِي قُوَّةً.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ہر مہینے صرف تین دن روزہ رکھا کرو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ اختیار کر کے ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو بعد میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرمایا: ”کرتے تھے کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رخصت کو قبول کر لیا ہوتا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہجرت پر آپ سے بیعت کر نے کے لئے آیا ہوں اور (میں نے بڑی قربانی دی ہے کہ) اپنے والدین کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ اور جیسے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔ اور اسے بیعت کر نے سے انکار کر دیا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو تو ستر سال کی مسافت سے آتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، سمعت سيفا يحدث، عن رشيد الهجري ، عن ابيه ، ان رجلا قال لعبد الله بن عمرو حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودعني وما وجدت في وسقك يوم اليرموك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، سَمِعْتُ سَيْفًا يُحَدِّثُ، عَنْ رُشَيْدٍ الْهَجَرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعْنِي وَمَا وَجَدْتَ فِي وَسْقِكَ يَوْمَ الْيَرْمُوكِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
رشید ہجیری کے والد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ عرض کیا کہ جنگ یرموک کے دن آپ کو مجھ سے جو ایذاء پہنچی اس سے درگزر کیجئے اور مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده غاية فى الضعف، سيف مجهول، ورشيد الهجري ضعيف، وأبوه مبهم غير معروف، وقد سلف متن الحديث بأسانيد صحيحة برقم: 6487 ، و 6515
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن الحارث ، عن ابي كثير ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إياكم والظلم، فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، وإياكم والفحش، فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش، وإياكم والشح فإنه اهلك من كان قبلكم، امرهم بالقطيعة فقطعوا، وبالبخل فبخلوا، وبالفجور ففجروا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فقام رجل فقال: يا رسول الله، اي الإسلام افضل؟ قال:" ان يسلم المسلمون من لسانك ويدك". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال ذلك الرجل او رجل آخر: يا رسول الله، فاي الهجرة افضل؟ قال:" ان تهجر ما كره الله، والهجرة هجرتان: هجرة الحاضر والبادي، فاما البادي فيطيع إذا امر، ويجيب إذا دعي، واما الحاضر فاعظمهما بلية، واعظمهما اجرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ، وَإِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَبِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَبِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِكَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ اللَّهُ، وَالْهِجْرَةُ هِجْرَتَانِ: هِجْرَةُ الْحَاضِرِ وَالْبَادِي، فَأَمَّا الْبَادِي فَيُطِيعُ إِذَا أُمِرَ، وَيُجِيبُ إِذَا دُعِيَ، وَأَمَّا الْحَاضِرُ فَأَعْظَمُهُمَا بَلِيَّةً، وَأَعْظَمُهُمَا أَجْرًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہو گا بےحیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اللہ بےتکلف یا بتکلف کسی نوعیت کی بےحیائی پسند نہیں بخل سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا اسی بخل نے انہیں قطع رحمی کا راستہ دکھایا سو انہوں نے رشتے ناطے توڑ دیئے اسی بخل نے انہیں اپنی دولت اور چیزیں اپنے پاس سمیٹ کر رکھنے کا حکم دیا سو انہوں نے ایسا ہی کیا اسی بخل نے انہیں گناہوں کا راستہ دکھایا سو وہ گناہ کر نے لگے۔ اسی دوران ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ!! کون سا مسلمان افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ دوسرے مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں ایک اور آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ! کون سی ہجرت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم ان چیزوں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناگوار گزریں اور ہجرت کی دو قسمیں ہیں شہری کی ہجرت اور دیہاتی کی ہجرت دیہاتی کی ہجرت تو یہ ہے کہ جب اسے دعوت ملے تو قبول کر لے اور جب حکم ملے تو اس کی اطاعت کرے اور شہری کی آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تذکر ہ کر نے لگے اور فرمایا: ”کہ ایسا آدمی ہے جس میں ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چار آدمیوں سے قرآن سیکھو اور ان میں سب سے پہلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کا اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، حدثنا رجل في بيت ابي عبيدة، انه سمع عبد الله بن عمرو ، يحدث عبد الله بن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من سمع الناس بعمله، سمع الله به سامع خلقه، وصغره وحقره"، قال: فذرفت عينا عبد الله بن عمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ فِي بَيْتِ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ سَمَّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ، سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ سَامِعَ خَلْقِهِ، وَصَغَّرَهُ وَحَقَّرَهُ"، قَالَ: فَذَرَفَتْ عَيْنَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے عمل کے ذریعے لوگوں میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، عن حميد ، قال حجاج: سمعت حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن من اكبر الذنب ان يسب الرجل والديه"، قالوا: وكيف يسب الرجل والديه؟ قال:" يسب ابا الرجل فيسب اباه، ويسب امه، فيسب امه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، قَالَ حَجَّاجٌ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الذَّنْبِ أَنْ يَسُبَّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ"، قَالُوا: وَكَيْفَ يَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ:" يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ، فَيَسُبُّ أُمَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دے اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کی ماں کو گالی دے دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھتا ہے اس نے اسے سمجھا نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، سمعت وهب بن جابر ، يقول: إن مولى لعبد الله بن عمرو قال له: إني اريد ان اقيم هذا الشهر هاهنا ببيت المقدس؟ فقال له: تركت لاهلك ما يقوتهم هذا الشهر؟ قال: لا، قال فارجع إلى اهلك فاترك لهم ما يقوتهم، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" كفى بالمرء إثما ان يضيع من يقوت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ جَابِرٍ ، يَقُولُ: إِنَّ مَوْلًى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَهُ: إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُقِيمَ هَذَا الشَّهْرَ هَاهُنَا بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَقَالَ لَهُ: تَرَكْتَ لِأَهْلِكَ مَا يَقُوتُهُمْ هَذَا الشَّهْرَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَاتْرُكْ لَهُمْ مَا يَقُوتُهُمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضِيعَ مَنْ يَقُوتُ".
وہب بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے ایک غلام نے ان سے کہا کہ میں یہاں بیت المقدس میں ایک ماہ قیام کرنا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے اہل خانہ کے لئے اس مہینے کی غذائی ضروریات کا انتظام کر دیا ہے؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا: ”پھر اپنے اہل خانہ کے پاس جا کر ان کے لئے اس کا انتظام کرو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انسان کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کی روزی کا وہ ذمہ دار ہو (مثلاً ضعیف والدین اور بیوی بچے)
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، عن ابي العباس يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرإ القرآن في شهر"، فقلت: إني اطيق اكثر من ذلك، فلم ازل اطلب إليه، حتى قال:" اقرإ القرآن في خمسة ايام، وصم ثلاثة ايام من الشهر"، قلت: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" فصم احب الصوم إلى الله عز وجل، صوم داود عليه السلام، كان يصوم يوما، ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ"، فَقُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمْ أَزَلْ أَطْلُبُ إِلَيْهِ، حَتَّى قَالَ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي خَمْسَةِ أَيَّامٍ، وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَصُمْ أَحَبَّ الصَّوْمِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، صَوْمِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے میں مسلسل درخواست کرتا رہاحتٰی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ دن میں ایک قرآن پڑھا کرو اور مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس طریقے سے روزہ رکھو جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا طریقہ ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان نفرا كانوا جلوسا بباب النبي صلى الله عليه وسلم فقال بعضهم: الم يقل الله كذا وكذا؟ وقال بعضهم: الم يقل الله كذا وكذا؟ فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج كانما فقئ في وجهه حب الرمان، فقال:" بهذا امرتم؟! او بهذا بعثتم؟! ان تضربوا كتاب الله بعضه ببعض؟! إنما ضلت الامم قبلكم في مثل هذا، إنكم لستم مما هاهنا في شيء، انظروا الذي امرتم به، فاعملوا به، والذي نهيتم عنه فانتهوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ نَفَرًا كَانُوا جُلُوسًا بِبَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ كَذَا وَكَذَا؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ كَذَا وَكَذَا؟ فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْهِهِ حَبُّ الرُّمَّانِ، فَقَالَ:" بِهَذَا أُمِرْتُمْ؟! أَوْ بِهَذَا بُعِثْتُمْ؟! أَنْ تَضْرِبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ؟! إِنَّمَا ضَلَّتْ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ فِي مِثْلِ هَذَا، إِنَّكُمْ لَسْتُمْ مِمَّا هَاهُنَا فِي شَيْءٍ، انْظُرُوا الَّذِي أُمِرْتُمْ بِهِ، فَاعْمَلُوا بِهِ، وَالَّذِي نُهِيتُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ مسجد نبوی کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس دوران قرآن کی ایک آیت کی تفسیر میں ان کے درمیان میں اختلاف رائے ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سن کر باہر نکلے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر سرخ انار نچوڑ دیا گیا ہو اور فرمایا: ”کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا تم اسی کے ساتھ بھیجے گئے ہو کہ اللہ کی کتاب کو ایک دوسرے پر مارو تم سے پہلی امتیں بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کر لو اور جو معلوم نہ ہو تو اسے اس کے عالم سے معلوم کر لو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو لوگ تقدیر کے متعلق گفتگو کر رہے۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قریش کا ایک آدمی حرم مکہ کو حل بنا لے گا اگر اس کے گناہوں کا جن و انس گناہوں سے وزن کیا جائے تو اس کے گناہوں کا پلڑا جھک جائے گا۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات رجال الشيخين، لكن رفعه كما قال ابن كثير فى النهاية : 345/8 قد يكون غلطًا ، وإنما هو من كلام عبد الله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحمان کی عبادت کرو سلام کو پھیلاؤ کھانا کھلاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، همام بن يحيى العوذي سمع من عطاء بعد الاختلاط
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی دعاء کر نے لگا کہ اے اللہ صرف مجھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس دعاء کو بہت سے لوگوں سے پردے میں چھپالیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا ابن عياش ، عن سليمان بن سليم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاءت اميمة بنت رقيقة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تبايعه على الإسلام، فقال:" ابايعك على ان لا تشركي بالله شيئا، ولا تسرقي ولا تزني، ولا تقتلي ولدك، ولا تاتي ببهتان تفترينه بين يديك ورجليك، ولا تنوحي، ولا تبرجي تبرج الجاهلية الاولى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَتْ أُمَيْمَةُ بِنْتُ رُقَيْقَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُبَايِعُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ:" أُبَايِعُكِ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكِي بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقِي وَلَا تَزْنِي، وَلَا تَقْتُلِي وَلَدَكِ، وَلَا تَأْتِي بِبُهْتَانٍ تَفْتَرِينَهُ بَيْنَ يَدَيْكِ وَرِجْلَيْكِ، وَلَا تَنُوحِي، وَلَا تَبَرَّجِي تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہ اسلام پر بیعت کر نے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کہ میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی۔ چوری نہیں کروگی، بدکاری نہیں کرو گی اپنے بچے کو قتل نہیں کرو گی اپنے ہاتھوں پیروں کے درمیان کوئی بہتان تراشی نہیں کرو گی۔ نوحہ نہیں کرو گی اور جاہلیت اولیٰ کی طرح زیب وزینت اختیار نہیں کرو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا ابن عياش ، عن محمد بن زياد الالهاني ، عن ابي راشد الحبراني ، قال: اتيت عبد الله بن عمرو بن العاص ، فقلت له: حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالقى بين يدي صحيفة، فقال: هذا ما كتب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظرت فيها، فإذا فيها ان ابا بكر الصديق قال: يا رسول الله، علمني ما اقول إذا اصبحت وإذا امسيت؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا بكر، قل: اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، لا إله إلا انت، رب كل شيء ومليكه، اعوذ بك من شر نفسي، ومن شر الشيطان وشركه، وان اقترف على نفسي سوءا، او اجره إلى مسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيِّ ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَقُلْتُ لَهُ: حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَلْقَى بَيْنَ يَدَيَّ صَحِيفَةً، فَقَالَ: هَذَا مَا كَتَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرْتُ فِيهَا، فَإِذَا فِيهَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مَا أَقُولُ إِذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَيْتُ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، قُلْ: اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا، أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ".
ابو راشد حبرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو اس پر انہوں نے میرے سامنے ایک صحیفہ رکھا اور فرمایا: ”کہ یہ وہ صحیفہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھوایا ہے میں نے دیکھا تو اس میں یہ بھی درج تھا کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ!! مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے جو میں صبح وشام پڑھ لیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر یہ دعاء پڑھ لیا کرو " اے آسمان و زمین کے پیدا کر نے والے اللہ پوشیدہ اور ظاہر سب کو جاننے والے اللہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو ہر چیز کا رب اور اس کا مالک ہے میں اپنی ذات کے شر شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس بات سے کہ خود کسی گناہ کا ارتکاب کروں یا کسی مسلمان کو کھینچ کر اس میں مبتلا کروں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو مغيرة ، حدثنا هشام بن الغاز ، حدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: هبطنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من ثنية اذاخر، قال: فنظر إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا علي ريطة مضرجة بعصفر، فقال:" ما هذه؟" فعرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كرهها، فاتيت اهلي وهم يسجرون تنورهم، فلففتها، ثم القيتها فيه، ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما فعلت الريطة؟" قال: قلت: قد عرفت ما كرهت منها، فاتيت اهلي وهم يسجرون تنورهم فالقيتها فيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" فهلا كسوتها بعض اهلك؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُغِيرَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا عَلَيَّ رَيْطَةٌ مُضَرَّجَةٌ بِعُصْفُرٍ، فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟" فَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَرِهَهَا، فَأَتَيْتُ أَهْلِي وَهُمْ يَسْجُرُونَ تَنُّورَهُمْ، فَلَفَفْتُهَا، ثُمَّ أَلْقَيْتُهَا فِيهِ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا فَعَلَتْ الرَّيْطَةُ؟" قَالَ: قُلْتُ: قَدْ عَرَفْتُ مَا كَرِهْتَ مِنْهَا، فَأَتَيْتُ أَهْلِي وَهُمْ يَسْجُرُونَ تَنُّورَهُمْ فَأَلْقَيْتُهَا فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَهَلَّا كَسَوْتَهَا بَعْضَ أَهْلِكَ؟".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثنیہ اذاخر " سے نیچے اتر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا تو مجھ پر عصفر سے رنگی ہوئی ایک چادر دکھائی دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟ میں سمجھ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند نہیں فرمایا: ”: چنانچہ جب میں اپنے گھر پہنچا تو اہل خانہ تنور دہکا رہے تھے میں نے اس چادر کو لپیٹا اور تنور میں جھونک دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس چادر کا کیا کیا؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی ناگواری کا احساس ہو گیا تھا اس لئے جب میں اپنے گھر پہنچا تو گھر والے تنور دہکا رہے تھے میں نے وہ چادر اس میں پھینک دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے وہ چادر اپنے گھرکے کسی فرد (خاتون) کو کیوں نہ پہنا دی؟
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وذكر انه حين هبط بهم من ثنية اذاخر صلى بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جدر اتخذه قبلة، فاقبلت بهمة تمر بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم، فما زال يدارئها ويدنو من الجدر، حتى نظرت إلى بطن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد لصق بالجدار، ومرت من خلفه.(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَذَكَرَ أَنَّهُ حِينَ هَبَطَ بِهِمْ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ صَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَدْرٍ اتَّخَذَهُ قِبْلَةً، فَأَقْبَلَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا زَالَ يُدَارِئُهَا وَيَدْنُو مِنَ الْجَدْرِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى بَطْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ لَصِقَ بِالْجِدَارِ، وَمَرَّتْ مِنْ خَلْفِهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ذکر کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر '' ثنیہ اذخر " سے نیچے اتر رہے تھے تو انہیں ایک دیوار کی آڑ میں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کے رخ سترہ بنا لیا تھا نماز پڑھائی دوران نماز ایک جانور آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزرنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے مسلسل دور کرتے اور خود دیوار کے قریب ہوتے گئے یہاں تک کہ میں نے دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بطن مبارک دیوار سے لگ گیا اور جانور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے گزر گیا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چالیس نیکیاں جن میں سے سب سے اعلیٰ نیکی بکر ی کا تحفہ ہے ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک نیکی پر اس کے ثواب کی امید اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے عمل کر لے اللہ اسے جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا محمد بن مهاجر ، اخبرني عروة بن رويم ، عن ابن الديلمي الذي كان يسكن بيت المقدس، قال: ثم سالته هل سمعت يا عبد الله بن عمرو رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شارب الخمر بشيء؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يشرب الخمر احد من امتي فيقبل الله منه صلاة اربعين صباحا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ رُوَيْمٍ ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ هَلْ سَمِعْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَارِبَ الْخَمْرِ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي فَيَقْبَلَ اللَّهُ مِنْهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا".
عبداللہ بن دیلمی رحمہ اللہ جو بیت المقدس میں رہتے تھے " کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے عبداللہ بن عمرو کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شرابی کے متعلق کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص شراب کا ایک گھونٹ پی لے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله خلق خلقه، ثم جعلهم في ظلمة، ثم اخذ من نوره ما شاء فالقاه عليهم، فاصاب النور من شاء ان يصيبه، واخطا من شاء، فمن اصابه النور يومئذ فقد اهتدى، ومن اخطا يومئذ ضل، فلذلك قلت جف القلم بما هو كائن".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهُ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِي ظُلْمَةٍ، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ نُورِهِ مَا شَاءَ فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَصَابَ النُّورُ مَنْ شَاءَ أَنْ يُصِيبَهُ، وَأَخْطَأَ مَنْ شَاءَ، فَمَنْ أَصَابَهُ النُّورُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَ يَوْمَئِذٍ ضَلَّ، فَلِذَلِكَ قُلْتُ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ".
اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر اسی دن ان پر نور ڈالا جس پر وہ نور پڑگیا وہ ہدایت پا گیا اور جسے وہ نور نہ مل سکا وہ گمراہ ہو گیا اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ اللہ کے علم کے مطابق لکھ کر قلم خشک ہوچکے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا مؤمن کا قیدخانہ اور قحط سالی ہے جب وہ دنیاکو چھوڑے گا تو قید اور قحط سے بھی نجات پآ جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، اخبرنا عبد الله ، اخبرنا سعيد بن يزيد ، عن ابي السمح ، عن عيسى بن هلال الصدفي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو ان رصاصة مثل هذه، واشار إلى مثل جمجمة، ارسلت من السماء إلى الارض، وهي مسيرة خمس مائة سنة، لبلغت الارض قبل الليل، ولو انها ارسلت من راس السلسلة، لسارت اربعين خريفا، الليل والنهار، قبل ان تبلغ اصلها، او قعرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَنَّ رَصَاصَةً مِثْلَ هَذِهِ، وَأَشَارَ إِلَى مِثْلِ جُمْجُمَةٍ، أُرْسِلَتْ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَهِيَ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، لَبَلَغَتْ الْأَرْضَ قَبْلَ اللَّيْلِ، وَلَوْ أَنَّهَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ، لَسَارَتْ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا، اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَهَا، أَوْ قَعْرَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اتنا سا پتھریہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا آسمان سے زمین کی طرف پھینکآ جائے جو کہ پانچ سو سال کی مسافت بنتی ہے تو وہ رات ہونے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا اور اگر اسے زنجیر کے سرے سے پھینکا جائے تو وہ دن رات چالیس سال تک مسلسل لڑھکتا رہے گا اور اس کے بعد وہ اپنی اصل تک پہنچ سکے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، وبهز ، قالا: حدثنا شعبة ، عن حبيب بن ابي ثابت ، قال: سمعت ابا العباس ، وكان رجلا شاعرا، سمعت عبد الله بن عمرو ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستاذنه في الجهاد، فقال:" احي والداك؟" قال: نعم، قال:" ففيهما فجاهد". قال بهز: اخبرني ابن ابي ثابت، عن ابي العباس، قال: سالت عبد الله بن عمرو.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ ، وَكَانَ رَجُلًا شَاعِرًا، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ:" أَحَيٌّ وَالِدَاكَ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ". قَالَ بَهْزٌ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لئے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟ اس نے کہا کہ جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ان ہی میں جہاد کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، اخبرني يعلى بن عطاء ، عن ابيه ، قال: اظنه عن عبد الله بن عمرو ، قال: شعبة شك، قام رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد، فقال:" فهل لك والدان"، قال: نعم، قال: امي، قال:" انطلق فبرها"، قال: فانطلق يتخلل الركاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَظُنُّهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: شُعْبَةُ شَكَّ، قَامَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ:" فَهَلْ لَكَ وَالِدَانِ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أُمِّي، قَالَ:" انْطَلِقْ فَبِرَّهَا"، قَالَ: فَانْطَلَقَ يَتَخَلَّلُ الرِّكَابَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شرکت جہاد کی اجازت حاصل کے لئے حاضر ہوا اور کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا کہ جی ہاں میری والدہ زندہ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو چنانچہ وہ سواریوں کے درمیان سے گزرتا ہوا چلا گیا۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا بهز ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن ثابت ، حدثنا رجل من الشام، وكان يتبع عبد الله بن عمرو بن العاص ويسمع، قال كنت معه فلقي نوفا، فقال: نوف ذكر لنا ان الله تعالى قال لملائكته:" ادعوا لي عبادي"، قالوا: يا رب، كيف والسموات السبع دونهم، والعرش فوق ذلك؟ قال:" إنهم إذا قالوا: لا إله إلا الله استجابوا". (حديث قدسي) (حديث موقوف) قال: قال: يقول له عبد الله بن عمرو : صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة المغرب او غيرها، قال: فجلس قوم انا فيهم ينتظرون الصلاة الاخرى، قال: فاقبل إلينا يسرع المشي، كاني انظر إلى رفعه إزاره، ليكون احث له في المشي، فانتهى إلينا، فقال:" الا ابشروا، هذاك ربكم امر بباب السماء الوسطى او قال: بباب السماء ففتح، ففاخر بكم الملائكة، قال: انظروا إلى عبادي، ادوا حقا من حقي، ثم هم ينتظرون اداء حق آخر يؤدونه".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنَ الشَّامِ، وَكَانَ يَتْبَعُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَيَسْمَعُ، قَالَ كُنْتُ مَعَهُ فَلَقِيَ نَوْفًا، فَقَالَ: نَوْفٌ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِمَلَائِكَتِهِ:" ادْعُوا لِي عِبَادِي"، قَالُوا: يَا رَبِّ، كَيْفَ وَالسَّمَوَاتُ السَّبْعُ دُونَهُمْ، وَالْعَرْشُ فَوْقَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" إِنَّهُمْ إِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اسْتَجَابُوا". (حديث قدسي) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: يَقُولُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ أَوْ غَيْرَهَا، قَالَ: فَجَلَسَ قَوْمٌ أَنَا فِيهِمْ يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ الْأُخْرَى، قَالَ: فَأَقْبَلَ إِلَيْنَا يُسْرِعُ الْمَشْيَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَفْعِهِ إِزَارَهُ، لِيَكُونَ أَحَثَّ لَهُ فِي الْمَشْيِ، فَانْتَهَى إِلَيْنَا، فَقَالَ:" أَلَا أَبْشِرُوا، هَذَاكَ رَبُّكُمْ أَمَرَ بِبَابِ السَّمَاءِ الْوُسْطَى أَوْ قَالَ: بِبَابِ السَّمَاءِ فَفُتِحَ، فَفَاخَرَ بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ، قَالَ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي، أَدَّوْا حَقًّا مِنْ حَقِّي، ثُمَّ هُمْ يَنْتَظِرُونَ أَدَاءَ حَقٍّ آخَرَ يُؤَدُّونَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور نوف کسی مقام پر جمع ہوئے نوف کہنے لگے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا: ”میرے بندوں کو بلاؤ فرشتوں نے عرض کیا پروردگار یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ان کے درمیان سات آسمان اور اس سے آگے عرش حائل ہے؟ اللہ نے فرمایا: ”جب وہ لاالہ اللہ اللہ کہہ لیں تو ان کی پکار قبول ہو گی۔ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ایک دن مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی کچھ لوگ " جن میں میں بھی شامل تھا " دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے ہماری طرف آتے ہوئے دیکھائی دیئے میری نگاہوں میں اب بھی وہ منظر محفوظ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند اٹھا رکھا تھا تاکہ چلنے میں آسانی ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس پہنچ کر فرمایا: ”تمہیں خوشخبری ہو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور وہ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ان بندوں نے ایک فرض ادا کر دیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ناحق کسی چڑیا کو بھی مارے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس کی باز پرس کرے گا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! حق کیا ہے؟ فرمایا: ”اسے ذبح کرے گردن سے نہ پکڑے کہ اسے توڑ ہی دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا سليم بن حيان ، حدثنا سعيد بن ميناء ، سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الله بن عمرو، بلغني انك تصوم النهار وتقوم الليل، فلا تفعلن، فإن لجسدك عليك حظا، وإن لزوجك عليك حظا، وإن لعينيك عليك حظا، افطر وصم من كل شهر ثلاثة ايام، فذلك صوم الدهر"، قال: قلت: يا رسول الله، إني اجد قوة؟ قال:" صم صوم داود، صم يوما وافطر يوما"، قال: فكان عبد الله يقول: يا ليتني كنت اخذت بالرخصة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، سَمِعْتُ عَبْد اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا َتَفْعَلَنَّ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِعَيْنَيْكَ عَلَيْكَ حَظًّا، أَفْطِرْ وَصُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً؟ قَالَ:" صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ، صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ: يَا لَيْتَنِي كُنْتُ أَخَذْتُ بِالرُّخْصَةِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ہر مہینے صرف تین دن روزہ رکھا کرو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ اختیار کر کے ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو بعد میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرمایا: ”کرتے تھے کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رخصت کو قبول کر لیا ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن مغيرة ، سمعت مجاهدا يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" صم من الشهر ثلاثة ايام"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك؟ قال: فما زال حتى قال:" صم يوما وافطر يوما"، فقال له:" اقرإ القرآن في كل شهر"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك؟ قال: فما زال حتى قال:" اقرإ القرآن في كل ثلاث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" صُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَمَا زَالَ حَتَّى قَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، فَقَالَ لَهُ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَمَا زَالَ حَتَّى قَالَ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ ثَلَاثٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میں فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو اور فرمایا: ”مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ فرمایا: ”پھر تین راتوں میں مکمل کر لیا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اربع من كن فيه فهو منافق، او كانت فيه خصلة من الاربع كانت فيه خصلة من النفاق، حتى يدعها: إذا حدث كذب، وإذا وعد اخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ، أَوْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ الْأَرْبَعِ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ، حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک شعبہ موجود ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے جب عہد کرے تو بدعہدی کرے جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا خالد يعني الواسطي الطحان ، حدثنا ابو سنان ضرار بن مرة ، عن عبد الله بن ابي الهذيل ، عن شيخ من النخع، قال: دخلت مسجد إيلياء فصليت إلى سارية ركعتين، فجاء رجل، فصلى قريبا مني، فمال إليه الناس، فإذا هو عبد الله بن عمرو بن العاص ، فجاءه رسول يزيد بن معاوية ان اجب، قال: هذا ينهاني ان احدثكم كما كان ابوه ينهاني، وإني سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم، يقول:" اعوذ بك من نفس لا تشبع، ومن قلب لا يخشع، ومن دعاء لا يسمع، ومن علم لا ينفع، اعوذ بك من هؤلاء الاربع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي الْوَاسِطِيَّ الطَّحَّانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ ضِرَارُ بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ ، عَنْ شَيْخٍ مِنَ النَّخَعِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ إِيلِيَاءَ فَصَلَّيْتُ إِلَى سَارِيَةٍ رَكْعَتَيْنِ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَصَلَّى قَرِيبًا مِنِّي، فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ، فَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَجَاءَهُ رَسُولُ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ أَنْ أَجِبْ، قَالَ: هَذَا يَنْهَانِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ كَمَا كَانَ أَبُوهُ يَنْهَانِي، وَإِنِّي سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَعُوذُ بِكَ مِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ".
ایک نخعی بزرگ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد ایلیاء میں داخل ہوا ایک ستون کی آڑ میں دو رکعتیں پڑھیں اسی دوران ایک آدمی آیا اور میرے قریب کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ تھے ان کے پاس یزید کا قاصد آیا کہ امیرالمؤمنین آپ کو بلاتے ہیں انہوں نے فرمایا: ”یہ شخص مجھے تمہارے سامنے احادیث بیان کر نے سے روکتا ہے جیسے اس کے والد مجھے روکتے تھے اور میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ میں غیر نافع علم غیر مقبول دعاء خشوع و خضوع سے خالی دل اور نہ بھرنے والے نفس سے ان چاروں چیزوں سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح ، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الشيخ الذى روي عنه عبدالله بن أبى الهذيل
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن مصعب ، حدثنا الاوزاعي ، عن يحيى ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لقد اخبرت انك تقوم الليل وتصوم النهار؟ قال: قلت: يا رسول الله، نعم، قال:" فصم وافطر، وصل ونم، فإن لجسدك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقا، وإن لزورك عليك حقا، وإن بحسبك ان تصوم من كل شهر ثلاثة ايام"، قال: فشددت، فشدد علي، قال: فقلت: يا رسول الله، إني اجد قوة، قال:" فصم من كل جمعة ثلاثة ايام"، قال: فشددت، فشدد علي، قال: فقلت: يا رسول الله، إني اجد قوة، قال:" صم صوم نبي الله داود، ولا تزد عليه"، قلت: يا رسول الله، وما كان صيام داود؟ قال:" كان يصوم يوما ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَعَمْ، قَالَ:" فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: فَشَدَّدْتُ، فَشُدِّدَ عَلَيَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ:" فَصُمْ مِنْ كُلِّ جُمُعَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: فَشَدَّدْتُ، فَشُدِّدَ عَلَيَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ:" صُمْ صَوْمَ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ، وَلَا تَزِدْ عَلَيْهِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا كَانَ صِيَامُ دَاوُدَ؟ قَالَ:" كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو ایسا نہ کرو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ہر مہینے صرف تین دن روزہ رکھا کرو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا میں نے خود ہی اپنے اوپر سختی کی لہٰذا مجھ پر سختی ہو گئی میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ہر ہفتے میں تین روزے رکھ لیا کرو میں نے سختی کی لہٰذا مجھ پر سختی ہو گئی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا طریقہ اختیار کر کے ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1975، م: 1159، وهذا إسناد حسن
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" صلى بهم يوم كسفت الشمس، يوم مات إبراهيم ابنه، فقام بالناس، فقيل: لا يركع، فركع، فقيل: لا يرفع، فرفع، فقيل: لا يسجد، وسجد، فقيل: لا يرفع، فقام في الثانية، ففعل مثل ذلك، وتجلت الشمس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى بِهِمْ يَوْمَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ، يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُهُ، فَقَامَ بِالنَّاسِ، فَقِيلَ: لَا يَرْكَعُ، فَرَكَعَ، فَقِيلَ: لَا يَرْفَعُ، فَرَفَعَ، فَقِيلَ: لَا يَسْجُدُ، وَسَجَدَ، فَقِيلَ: لَا يَرْفَعُ، فَقَامَ فِي الثَّانِيَةِ، فَفَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَتَجَلَّتْ الشَّمْسُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتناطویل قیام کیا کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع نہیں کر یں گے پھر رکوع کیا تو رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدے میں جاتے ہوئے نہ لگے سجدے میں چلے گئے تو ایسا لگا کہ سجدے سے سر نہیں اٹھائیں گے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا اور سورج روشن ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني جئت لابايعك على الهجرة وتركت ابوي يبكيان؟ قال:" فارجع إليهما، فاضحكهما كما ابكيتهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمرو ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي جِئْتُ لِأُبَايِعَكَ على الهجرةِ وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ؟ قَالَ:" فَارْجِعْ إِلَيْهِمَا، فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہجرت پر آپ سے بیعت کر نے کے لئے آیا ہوں اور (میں نے بڑی قربانی دی ہے کہ) اپنے والدین کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ اور جیسے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما من احد من المسلمين يصاب ببلاء في جسده، إلا امر الله تعالى الحفظة الذين يحفظونه، قال: اكتبوا لعبدي في كل يوم وليلة مثل ما كان يعمل من الخير، ما دام محبوسا في وثاقي".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُصَابُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ، إِلَّا أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى الْحَفَظَةَ الَّذِينَ يَحْفَظُونَهُ، قَالَ: اكْتُبُوا لِعَبْدِي فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ مِثْلَ مَا كَانَ يَعْمَلُ مِنَ الْخَيْرِ، مَا دَامَ مَحْبُوسًا فِي وَثَاقِي".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی جسمانی طور پر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرا بندہ خیر کے جتنے بھی کام کرتا تھا وہ ہر دن رات لکھتے رہو تا وقتیکہ یہ میری حفاظت میں رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن قتادة ، عن شهر بن حوشب ، قال: لما جاءتنا بيعة يزيد بن معاوية، قدمت الشام، فاخبرت بمقام يقومه نوف، فجئته إذ جاء رجل، فاشتد الناس، عليه خميصة، وإذا هو عبد الله بن عمرو بن العاص، فلما رآه نوف امسك عن الحديث، فقال عبد الله : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنها ستكون هجرة بعد هجرة، ينحاز الناس إلى مهاجر إبراهيم، لا يبقى في الارض إلا شرار اهلها، تلفظهم ارضوهم، تقذرهم نفس الله، تحشرهم النار مع القردة والخنازير، تبيت معهم إذا باتوا، وتقيل معهم إذا قالوا، وتاكل من تخلف". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" سيخرج اناس من امتي من قبل المشرق، يقرءون القرآن لا يجاوز، تراقيهم كلما خرج منهم قرن قطع، كلما خرج منهم قرن قطع حتى عدها زيادة على عشرة مرات كلما خرج منهم قرن قطع، حتى يخرج الدجال في بقيتهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ: لَمَّا جَاءَتْنَا بَيْعَةُ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَدِمْتُ الشَّامَ، فَأُخْبِرْتُ بِمَقَامٍ يَقُومُهُ نَوْفٌ، فَجِئْتُهُ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَاشْتَدَّ النَّاسُ، عَلَيْهِ خَمِيصَةٌ، وَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَلَمَّا رَآهُ نَوْفٌ أَمْسَكَ عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّهَا سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، يَنْحَازُ النَّاسُ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، لَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ أَرَضُوهُمْ، تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ، تَحْشُرُهُمْ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا، وَتَأْكُلُ مَنْ تَخَلَّفَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ، تَرَاقِيَهُمْ كُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ، كُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى عَدَّهَا زِيَادَةً عَلَى عَشْرَةِ مَرَّاتٍ كُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ، حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِهِمْ".
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ جب ہمیں یزید بن معاویہ کی بیعت کی اطلاع ملی تو میں شام آیا مجھے ایک ایسی جگہ کا پتہ معلوم ہوا جہاں نوف کھڑے ہو کر بیان کرتے تھے میں ان کے پاس پہنچا اسی اثناء میں ایک آدمی کے آنے پر لوگوں میں ہلچل مچ گئی جس نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی دیکھا تو وہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ تھے نوف نے انہیں دیکھ کر ان کے احترام میں حدیث بیان کرنا چھوڑ دی اور سیدنا عبداللہ کہنے لگے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب اس ہجرت کے بعد ایک اور ہجرت ہو گی جس میں لوگ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت گاہ میں جمع ہو جائیں گے زمین میں صرف بدترین لوگ رہ جائیں گے ان کی زمین انہیں پھینک دے گی اور اللہ کی ذات انہیں پسند نہیں کرے گی آگ انہیں بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کر لے گی جہاں وہ رات گزاریں گے وہ آگ بھی ان کے ساتھ وہیں رات گزارے گی اور جہاں وہ قیلولہ کر یں گے وہ بھی وہیں قیلولہ کرے گی اور جو پیچھے رہ جائے گا اسے کھا جائے گی۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب میری امت میں سے مشرقی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اسے ختم کر دیا جائے گا یہ جملہ دس مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ ان کے آخری حصے میں دجال نکل آئے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، ثم إنه معلول
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن مطر ، عن عبد الله بن بريدة ، قال: شك عبيد الله بن زياد في الحوض، فقال له ابو سبرة رجل من صحابة عبيد الله بن زياد: فإن اباك حين انطلق وافدا إلى معاوية انطلقت معه، فلقيت عبد الله بن عمرو، فحدثني من فيه إلى في، حديثا سمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاملاه علي، وكتبته، قال فإني اقسمت عليك لما اعرقت هذا البرذون حتى تاتيني بالكتاب، قال: فركبت البرذون، فركضته حتى عرق، فاتيته بالكتاب، فإذا فيه، حدثني عبد الله بن عمرو بن العاص ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله يبغض الفحش والتفحش، والذي نفس محمد بيده، لا تقوم الساعة حتى يخون الامين، ويؤتمن الخائن، حتى يظهر الفحش والتفحش، وقطيعة الارحام، وسوء الجوار، والذي نفس محمد بيده، إن مثل المؤمن لكمثل القطعة من الذهب، نفخ عليها صاحبها فلم تغير، ولم تنقص، والذي نفس محمد بيده، إن مثل المؤمن لكمثل النحلة، اكلت طيبا، ووضعت طيبا، ووقعت فلم تكسر ولم تفسد". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال:" الا إن لي حوضا ما بين ناحيتيه كما بين ايلة إلى مكة، او قال صنعاء إلى المدينة، وإن فيه من الاباريق مثل الكواكب، هو اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل، من شرب منه لم يظما بعدها ابدا"، قال ابو سبرة: فاخذ عبيد الله بن زياد الكتاب، فجزعت عليه، فلقيني يحيى بن يعمر ، فشكوت ذلك إليه، فقال والله لانا احفظ له مني لسورة من القرآن، فحدثني به كما كان في الكتاب، سواء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: شَكَّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ فِي الْحَوْضِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو سَبْرَةَ رَجُلٌ مِنْ صَحَابَةِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ: فَإِنَّ أَبَاكَ حِينَ انْطَلَقَ وَافِدًا إِلَى مُعَاوِيَةَ انْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَحَدَّثَنِي مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، حَدِيثًا سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمْلَاهُ عَلَيَّ، وَكَتَبْتُهُ، قَالَ فَإِنِّي أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَمَا أَعْرَقْتَ هَذَا الْبِرْذَوْنَ حَتَّى تَأْتِيَنِي بِالْكِتَابِ، قَالَ: فَرَكِبْتُ الْبِرْذَوْنَ، فَرَكَضْتُهُ حَتَّى عَرِقَ، فَأَتَيْتُهُ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُخَوَّنَ الْأَمِينُ، وَيُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ، حَتَّى يَظْهَرَ الْفُحْشُ وَالتَّفَحُّشُ، وَقَطِيعَةُ الْأَرْحَامِ، وَسُوءُ الْجِوَارِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَثَلَ الْمُؤْمِنِ لَكَمَثَلِ الْقِطْعَةِ مِنَ الذَّهَبِ، نَفَخَ عَلَيْهَا صَاحِبُهَا فَلَمْ تَغَيَّرْ، وَلَمْ تَنْقُصْ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَثَلَ الْمُؤْمِنِ لَكَمَثَلِ النَّحْلَةِ، أَكَلَتْ طَيِّبًا، وَوَضَعَتْ طَيِّبًا، وَوَقَعَتْ فَلَمْ تُكْسَرْ وَلَمْ تَفْسُدْ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ:" أَلَا إِنَّ لِي حَوْضًا مَا بَيْنَ نَاحِيَتَيْهِ كَمَا بَيْنَ أَيْلَةَ إِلَى مَكَّةَ، أَوْ قَالَ صَنْعَاءَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَإِنَّ فِيهِ مِنَ الْأَبَارِيقِ مِثْلَ الْكَوَاكِبِ، هُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا"، قَالَ أَبُو سَبْرَةَ: فَأَخَذَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ الْكِتَابَ، فَجَزِعْتُ عَلَيْهِ، فَلَقِيَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَقَالَ وَاللَّهِ لَأَنَا أَحْفَظُ لَهُ مِنِّي لِسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ كَمَا كَانَ فِي الْكِتَابِ، سَوَاءً.
عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد کو حوض کوثر کے وجود میں شک تھا اس کے ہم نشینوں میں سے ابو سبرہ نے اس سے کہا کہ تمہارے والد نے ایک مرتبہ کچھ مال دے کر مجھے سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا میری ملاقات سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی انہوں نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو انہوں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی انہوں نے وہ حدیث مجھے املاء کروائی اور میں نے اسے اپنے ہاتھ سے کسی ایک حرف کی بھی کمی پیشی کے بغیر لکھا اس نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اس گھوڑے کو پسینے میں غرق کر کے میرے پاس وہ تحریر لے آؤ چنانچہ میں اس گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے ایڑ لگا دی میں وہ تحریر لایا تو پسینے میں ڈوبا ہوا تھا اس میں یہ لکھا تھا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بےتکلف یا بتکلف کسی قسم کی بےحیائی کو پسند نہیں کرتا اور اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک ہر طرف بےحیائی عام نہ ہو جائے قطع رحمی غلط اور برا پڑوس عام نہ ہو جائے اور جب تک خائن کو امین اور امین کو خائن نہ سمجھاجانے لگے اور فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے مسلمان کی مثال سونے کے ٹکڑے جیسی ہے کہ اگر اس کا مالک اس پر پھونکیں مارے تو اس میں کوئی تبدیلی یا نقص واقع نہیں ہوتا اور اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے مسلمان کی مثال شہد کی مکھی جیسی ہے جو اچھا کھاتی ہے اور اچھا بناتی ہے اسے گرنے پر توڑا جاتا ہے اور نہ ہی وہ خراب کر تی ہے اور فرمایا: ”یاد رکھو! میرا ایک حوض ہے جس کی چوڑائی اور لمبائی ایک جیسی ہے یعنی ایلہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک جو تقریبا ایک ماہ مسافت بنتی ہے اس کے آبخورے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہو گا جو اس کا ایک گھونٹ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ عبیداللہ بن زیاد نے وہ صحیفہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا جس پر مجھے گھبراہٹ ہوئی پھر یحییٰ بن یعمر سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے اس کا شکوہ کیا انہوں نے کہا کہ واللہ وہ مجھے قرآن کی کسی سورت سے زیادہ یاد ہے چنانچہ انہوں نے مجھے وہ حدیث اسی طرح سنا دی جیسے اس تحریر میں لکھی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى سبرة، وضعف مطر الوراق
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، سمعت ابن ابي مليكة يحدث، عن يحيى بن حكيم بن صفوان ، ان عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: جمعت القرآن، فقراته في ليلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني اخشى ان يطول عليك الزمان، وان تمل، اقرا به في كل شهر"، قلت: اي رسول الله، دعني استمتع من قوتي ومن شبابي، قال:" اقرا به في عشرين"، قلت: اي رسول الله، دعني استمتع من قوتي ومن شبابي، قال:" اقرا به في عشر"، قلت: اي رسول الله، دعني استمتع من قوتي ومن شبابي، قال:" اقرا به في كل سبع"، قلت: اي رسول الله، دعني استمتع من قوتي ومن شبابي، فابى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَكِيمِ بْنِ صَفْوَانَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: جَمَعْتُ الْقُرْآنَ، فَقَرَأْتُهُ فِي لَيْلَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَطُولَ عَلَيْكَ الزَّمَانُ، وَأَنْ تَمَلَّ، اقْرَأْ بِهِ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قُلْتُ: أَيْ رَسُول اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَمِنْ شَبَابِي، قَالَ:" اقْرَأْ بِهِ فِي عِشْرِينَ"، قُلْتُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَمِنْ شَبَابِي، قَالَ:" اقْرَأْ بِهِ فِي عَشْرٍ"، قُلْتُ: أي رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَمِنْ شَبَابِي، قَالَ:" اقْرَأْ بِهِ فِي كُلِّ سَبْعٍ"، قُلْتُ: أي رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَمِنْ شَبَابِي، فَأَبَى.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قرآن کریم یاد کیا اور ایک رات میں سارا قرآن پڑھ لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا: ”مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد تم تنگ ہو گے ہر مہینے میں ایک مرتبہ قرآن کریم پورا کیا کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئے اسی طرح تکرار ہوتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیس دس اور سات دن کہہ کر رک گئے میں نے سات دن سے کم کی اجازت بھی مانگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، وابن بكر ، قالا: اخبرنا ابن جريج . وروح ، قال: حدثنا ابن جريج، قال: سمعت عطاء يزعم، ان ابا العباس الشاعر اخبره، انه سمع عبد الله بن عمرو ، يقول: بلغ النبي صلى الله عليه وسلم اني اصوم اسرد، واصلي الليل، قال: فإما ارسل إلي، وإما لقيته، فقال:" الم اخبر انك تصوم ولا تفطر، وتصلي الليل؟ فلا تفعل، فإن لعينك حظا، ولنفسك حظا، ولاهلك حظا، فصم وافطر، وصل ونم، وصم من كل عشرة ايام يوما ولك اجر تسعة"، قال: إني اجدني اقوى من ذلك يا نبي الله، قال:" فصم صيام داود"، قال: فكيف كان داود يصوم يا نبي الله؟ قال:" كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى"، قال: من لي بهذه يا نبي الله؟ قال عطاء: فلا ادري كيف ذكر صيام الابد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا صام من صام الابد"، قال عبد الرزاق وروح:" لا صام من صام الابد" مرتين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . وَرَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَزْعُمُ، أَنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَصُومُ أَسْرُدُ، وَأُصَلِّي اللَّيْلَ، قَالَ: فَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ، وَإِمَّا لَقِيتُهُ، فَقَالَ:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلَا تُفْطِرُ، وَتُصَلِّي اللَّيْلَ؟ فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ حَظًّا، وَلِنَفْسِكَ حَظًّا، وَلِأَهْلِكَ حَظًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ، وَصُمْ مِنْ كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ تِسْعَةٍ"، قَالَ: إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ:" فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ"، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ دَاوُدُ يَصُومُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى"، قَالَ: مَنْ لِي بِهَذِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ عَطَاءٌ: فَلَا أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ صِيَامَ الْأَبَدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَرَوْحٌ:" لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ" مَرَّتَيْنِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ اور رات کو قیام کرتا ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا یوں ہی ملاقات ہو گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ تم کہتے ہو میں روزانہ رات کو قیام اور دن کو صیام کروں گا؟ ایسا نہ کرو کیونکہ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے تمہارے نفس اور تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے اس لئے قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو روزہ بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو اور ہر دس دن میں صرف ایک روزہ رکھا کرو تمہیں مزید نو روزے رکھنے کا ثواب ہو گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ میں اس سے زیادہ کر نے کی طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سیدنا داؤدعلیہ السلام کی طرح روزہ رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! سیدنا داؤدعلیہ السلام کس طرح روزہ رکھتے تھے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے اور دشمن سے سامنا ہونے پر بھاگتے نہیں تھے میں نے عرض کیا کہ میں اے اللہ کے نبی! یہ کیسے کر سکتا ہوں؟ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ بھی فرمایا: ”کہ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے وہ کوئی روزہ نہیں رکھتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا عمر بن حوشب رجل صالح، اخبرني عمرو بن دينار ، عن عطاء ، عن رجل من هذيل، قال: رايت عبد الله بن عمرو بن العاص، ومنزله في الحل، ومسجده في الحرم، قال: فبينا انا عنده راى ام سعيد ابنة ابي جهل متقلدة قوسا، وهي تمشي مشية الرجل، فقال عبد الله من هذه؟ قال: الهذلي فقلت: هذه ام سعيد بنت ابي جهل، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليس منا من تشبه بالرجال من النساء، ولا من تشبه بالنساء من الرجال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَوْشَبٍ رَجُلٌ صَالِحٌ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَمَنْزِلُهُ فِي الْحِلِّ، وَمَسْجِدُهُ فِي الْحَرَمِ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ رَأَى أُمَّ سَعِيدٍ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ مُتَقَلِّدَةً قَوْسًا، وَهِيَ تَمْشِي مِشْيَةَ الرَّجُلِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ هَذِهِ؟ قَالَ: الْهُذَلِيُّ فَقُلْتُ: هَذِهِ أُمُّ سَعِيدٍ بِنْتُ أَبِي جَهْلٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ، وَلَا مَنْ تَشَبَّهَ بِالنِّسَاءِ مِنَ الرِّجَالِ".
بنوہذیل کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کو دیکھا ان کا گھر حرم سے باہر اور مسجد حرم کے اندر تھی میں ان کے پاس ہی تھا کہ ان کی نظر ابوجہل کی بیٹی ام سعیدہ پر پڑی جس نے گلے میں کمان لٹکا رکھی تھی اور وہ مردانہ چال چل رہی تھی سیدنا عبداللہ کہنے لگے یہ کون عورت ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ ابوجہل کی بیٹی ام سعیدہ ہے اس پر انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مردوں کی مشابہت اختیار کر نے والی عورتیں اور عورتوں کی مشابہت اختیار کر نے والے مرد ہم میں سے نہیں ہیں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عمر بن حوشب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، قال: دخلت على عبد الله بن عمرو بن العاص، فسالني وهو يظن اني لام كلثوم ابنة عقبة، فقلت: إنما انا للكلبية، قال: فقال عبد الله : دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي، فقال:" الم اخبر انك تقرا القرآن في كل يوم وليلة؟ فاقراه في كل شهر"، قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" فاقراه في نصف كل شهر"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" فاقراه في كل سبع، لا تزيدن، وبلغني انك تصوم الدهر؟" قال: قلت: إني لاصومه يا رسول الله، قال:" فصم من كل شهر ثلاثة ايام"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" فصم من كل جمعة يومين"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" فصم صيام داود، صم يوما، وافطر يوما، فإنه اعدل الصيام عند الله، وكان لا يخلف إذا وعد، ولا يفر إذا لاقى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَسَأَلَنِي وَهُوَ يَظُنُّ أَنِّي لِأُمِّ كُلْثُومٍ ابْنَةِ عُقْبَةَ، فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَنَا لِلْكَلْبِيَّةِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَقَالَ:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ؟ فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي نِصْفِ كُلِّ شَهْرٍ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ، لَا تَزِيدَنَّ، وَبَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي لَأَصُومُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَصُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَصُمْ مِنْ كُلِّ جُمُعَةٍ يَوْمَيْنِ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَإِنَّهُ أَعْدَلُ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ، وَكَانَ لَا يُخْلِفُ إِذَا وَعَدَ، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى".
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ سمجھے کہ میں ام کلثوم بنت عقبہ کا بیٹا ہوں چنانچہ انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق پوچھا میں نے انہیں بتایا کہ میں کلبیہ کا بیٹا ہوں پھر انہوں نے فرمایا: ”کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ایک دن رات میں پورا قرآن پڑھ لیتے ہو؟ ہر مہینے میں صرف ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر پندرہ دن میں مکمل کر لیا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے بھی زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سات راتوں میں مکمل کر لیا کرو اور اس پر اضافہ نہ کرنا۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مسلسل کچھ چھوٹ دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میں فرمایا: ”پھر سیدنا داؤدعلیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو یہ بہترین روزہ ہے اور عدہ خلافی نہیں کرتے تھے اور دشمن سے سامنا ہونے پر بھاگتے نہیں تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، اخبرني الجريري ، عن ابي العلاء ، عن مطرف بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، مرني بصيام، قال:" صم يوما ولك اجر تسعة"، قال: قلت: يا رسول الله، إني اجد قوة، فزدني، قال:" صم يومين ولك اجر ثمانية ايام"، قال: قلت: يا رسول الله، إني اجد قوة، فزدني، قال:" فصم ثلاثة ايام ولك اجر سبعة ايام"، قال: فما زال يحط لي، حتى قال:" إن افضل الصوم صوم اخي داود، او نبي الله داود" شك الجريري" صم يوما، وافطر يوما"، فقال: عبد الله لما ضعف ليتني كنت قنعت بما امرني به النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِصِيَامٍ، قَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ تِسْعَةٍ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، فَزِدْنِي، قَالَ:" صُمْ يَوْمَيْنِ وَلَكَ أَجْرُ ثَمَانِيَةِ أَيَّامٍ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، فَزِدْنِي، قَالَ:" فَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ سَبْعَةِ أَيَّامٍ"، قَالَ: فَمَا زَالَ يَحُطُّ لِي، حَتَّى قَالَ:" إِنَّ أَفْضَلَ الصَّوْمِ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ، أَوْ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ" شَكَّ الْجُرَيْرِيُّ" صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ لَمَّا ضَعُفَ لَيْتَنِي كُنْتُ قَنَعْتُ بِمَا أَمَرَنِي بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے روزے کے حوالے سے کوئی حکم دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھو تو نو کا ثواب ملے گا میں نے اس میں اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو تمہیں آٹھ کا ثواب ملے گا میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”تین روزے رکھو تمہیں سات روزوں کا ثواب ملے گا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل کمی کرتے رہے حتیٰ کے آخر میں فرمایا: ”روزہ رکھنے کا سب سے افضل طریقہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا ہے اس لئے ایک دن ورزہ رکھا کرو اور ایک دن ناغہ کیا کرو سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہو گئے تو کہنے لگے اے کاش میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قناعت کر لی ہوتی۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، الجريري اختلط قبل موته بثلاث سنين، وسماع عبدالوهاب الخفاف منه لم يتحرر لنا أهو قبل الاختلاط أم بعده، وهو حديث صحيح بغير هذه السياقة كما سلف برقم: 6545
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، اخبرني محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليه بيته، فقال:" يا عبد الله بن عمرو، الم اخبر انك تكلف قيام الليل وصيام النهار؟"، قال: إني لافعل، فقال:" إن حسبك، ولا اقول افعل، ان تصوم من كل شهر ثلاثة ايام، الحسنة عشر امثالها، فكانك قد صمت الدهر كله"، قال: فغلظت فغلظ علي، قال: فقلت: إني لاجد قوة من ذلك، قال:" إن من حسبك ان تصوم كل جمعة ثلاثة ايام"، قال: فغلظت فغلظ علي، فقلت: إني لاجد بي قوة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اعدل الصيام عند الله صيام داود، نصف الدهر"، ثم قال:" لنفسك عليك حق، ولاهلك عليك حق"، قال: فكان عبد الله يصوم ذلك الصيام، حتى إذا ادركه السن والضعف، كان يقول: لان اكون قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم، احب إلي من اهلي ومالي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ بَيْتَهُ، فَقَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَكَلَّفُ قِيَامَ اللَّيْلِ وَصِيَامَ النَّهَارِ؟"، قَالَ: إِنِّي لَأَفْعَلُ، فَقَالَ:" إِنَّ حَسْبَكَ، وَلَا أَقُولُ افْعَلْ، أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا، فَكَأَنَّكَ قَدْ صُمْتَ الدَّهْرَ كُلَّهُ"، قَالَ: فَغَلَّظْتُ فَغُلِّظَ عَلَيَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي لَأَجِدُ قُوَّةً مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" إِنَّ مِنْ حَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ كُلَّ جُمُعَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: فَغَلَّظْتُ فَغُلِّظَ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: إِنِّي لَأَجِدُ بِي قُوَّةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْدَلُ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، نِصْفُ الدَّهْرِ"، ثُمَّ قَالَ:" لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ"، قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَصُومُ ذَلِكَ الصِّيَامَ، حَتَّى إذا أَدْرَكَهُ السِّنُّ وَالضَّعْفُ، كَانَ يَقُولُ: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ہی ہو جس کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ تم کہتے ہو میں روزانہ رات کو قیام اور دن کو صیام کروں گا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ!! میں نے ہی کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے صرف تین دن روزہ رکھا کرو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا میں نے خود ہی اپنے اوپر سختی کی لہٰذا مجھ پر سختی ہو گئی میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ہر ہفتے میں تین روزے رکھ لیا کرو میں نے سختی کی لہٰذا مجھ پر سختی ہو گئی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ میں اس سے زیادہ افضل کی طاقت رکھتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو یہ روزہ کا معتدل ترین طریقہ ہے اور یہی سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ صیام ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر تمہارے نفس اور تمہارے نفس اور تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس طریقے کے مطابق روزے رکھتے رہے حتیٰ کہ وہ بوڑھے اور کمزور ہو گئے اس وقت وہ کہا کرتے تھے کہ اب مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کرنا اپنے اہل خانہ اور مال و دولت سے بھی زیادہ پسند ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1976، م: 1159 ، وهذا إسناد حسن
(حديث مرفوع) حدثنا الوليد بن القاسم بن الوليد ، سمعت ابي يذكره، عن ابي الحجاج ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاث إذا كن في الرجل فهو المنافق الخالص: إن حدث كذب، وإن وعد اخلف، وإن اؤتمن خان، ومن كانت فيه خصلة منهن، لم يزل يعني، فيه خصلة من النفاق، حتى يدعها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ ، سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُهُ، عَنْ أَبِي الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثٌ إِذَا كُنَّ فِي الرَّجُلِ فَهُوَ الْمُنَافِقُ الْخَالِصُ: إِنْ حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِنْ وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِنْ اؤْتُمِنَ خَانَ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ، لَمْ يَزَلْ يَعْنِي، فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ، حَتَّى يَدَعَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان تینوں میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک شعبہ موجود ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، روي مرفوعا وموقوفا، والمرفوع أصح
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ، قال: دخلت على عبد الله بن عمرو بن العاص داره، فسالني، وهو يظن اني من بني ام كلثوم ابنة عقبة، فقلت له: إنما انا للكلبية ابنة الاصبغ، وقد جئتك لاسالك عما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إليك او قال لك؟ قال: كنت اقول في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم لاقران القرآن في كل يوم وليلة، ولاصومن الدهر، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم عني، فجاءني، فدخل علي بيتي، فقال:" الم يبلغني يا عبد الله انك تقول: لاصومن الدهر، ولاقران القرآن في كل يوم وليلة؟"، قال: قلت: بلى قلت ذاك يا نبي الله، قال:" فلا تفعل، صم من كل شهر ثلاثة ايام"، قال: فقلت: إني اقوى على اكثر من ذلك، قال:" فصم الاثنين والخميس"، قال: فقلت: إني اقوى على اكثر من ذلك يا نبي الله، قال:" فصم يوما، وافطر يوما، فإنه اعدل الصيام عند الله، وهو صيام داود عليه السلام، وكان لا يخلف إذا وعد، ولا يفر إذا لاقى، واقرا القرآن في كل شهر مرة"، قال: فقلت: إني لاقوى على اكثر من ذلك، يا نبي الله، قال:" فاقراه في كل نصف شهر مرة"، قال: قلت: إني اقوى على اكثر من ذلك يا نبي الله، قال:" فاقراه في كل سبع، لا تزيدن على ذلك"، ثم انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إسحاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ دَارَهُ، فَسَأَلَنِي، وَهُوَ يَظُنُّ أَنِّي مِنْ بَنِي أُمِّ كُلْثُومٍ ابْنَةِ عُقْبَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّمَا أَنَا لِلْكَلْبِيَّةِ ابْنَةِ الْأَصْبَغِ، وَقَدْ جِئْتُكَ لِأَسْأَلَكَ عَمَّا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيْكَ أَوْ قَالَ لَكَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَقُولُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، وَلَأَصُومَنَّ الدَّهْرَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي، فَجَاءَنِي، فَدَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي، فَقَالَ:" أَلَمْ يَبْلُغْنِي يَا عَبْدَ اللَّهِ أَنَّكَ تَقُولُ: لَأَصُومَنَّ الدَّهْرَ، وَلَأَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى قُلْتُ ذَاكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلْ، صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَصُمْ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ:" فَصُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَإِنَّهُ أَعْدَلُ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ، وَهُوَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، وَكَانَ لَا يُخْلِفُ إِذَا وَعَدَ، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى، وَاقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً"، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي لَأَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ نِصْفِ شَهْرٍ مَرَّةً"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ:" فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ، لَا تَزِيدَنَّ عَلَى ذَلِكَ"، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ سمجھے کہ میں ام کلثوم بنت عقبہ کا بیٹا ہوں چنانچہ انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق پوچھا میں نے انہیں بتایا کہ میں کلبیہ کا بیٹا ہوں اور آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ”میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کہا کرتا تھا کہ میں ایک دن رات میں پورا قرآن مکمل کر لیا کروں گا اور ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پتہ چلی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ایک دن میں پورا قرآن پڑھ لیتے ہو؟ ہر مہینے میں صرف ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سات راتوں میں مکمل کر لیا کرو اور اس پر اضافہ نہ کرنا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیر اور جمعرات کا روزہ رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میں اپنے اندر اس سے زیادہ طاقت محسوس کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سیدنا داؤدعلیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو یہ بہترین روزہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے اور دشمن سے سامنا ہونے پر بھاگتے نہیں تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم يعني ابن علية ، اخبرنا ابو حيان ، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير ، قال: جلس ثلاثة نفر من المسلمين إلى مروان بالمدينة، فسمعوه وهو يحدث في الآيات، ان اولها خروج الدجال، قال: فانصرف النفر إلى عبد الله بن عمرو، فحدثوه بالذي سمعوه من مروان في الآيات، فقال عبد الله لم يقل مروان شيئا، قد حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في مثل ذلك حديثا لم انسه بعد، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن اول الآيات خروجا طلوع الشمس من مغربها، وخروج الدابة ضحى، فايتهما كانت قبل صاحبتها فالاخرى على إثرها"، ثم قال عبد الله وكان يقرا الكتب: واظن اولاها خروجا طلوع الشمس من مغربها، وذلك انها كلما غربت اتت تحت العرش فسجدت، واستاذنت في الرجوع، فاذن لها في الرجوع، حتى إذا بدا لله ان تطلع من مغربها، فعلت كما كانت تفعل اتت تحت العرش فسجدت، فاستاذنت في الرجوع، فلم يرد عليها شيء، ثم تستاذن في الرجوع، فلا يرد عليها شيء، ثم تستاذن فلا يرد عليها شيء، حتى إذا ذهب من الليل ما شاء الله ان يذهب، وعرفت انه إن اذن لها في الرجوع لم تدرك المشرق، قالت: رب، ما ابعد المشرق، من لي بالناس؟ حتى إذا صار الافق كانه طوق، استاذنت في الرجوع، فيقال لها: من مكانك فاطلعي، فطلعت على الناس من مغربها، ثم تلا عبد الله هذه الآية يوم ياتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل او كسبت في إيمانها خيرا سورة الانعام آية 158.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ ، قَالَ: جَلَسَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى مَرْوَانَ بِالْمَدِينَةِ، فَسَمِعُوهُ وَهُوَ يُحَدِّثُ فِي الْآيَاتِ، أَنَّ أَوَّلَهَا خُرُوجُ الدَّجَّالِ، قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّفَرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَحَدَّثُوهُ بِالَّذِي سَمِعُوهُ مِنْ مَرْوَانَ فِي الْآيَاتِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَمْ يَقُلْ مَرْوَانُ شَيْئًا، قَدْ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ ضُحًى، فَأَيَّتُهُمَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى عَلَى إِثَرِهَا"، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَ يَقْرَأُ الْكُتُبَ: وَأَظُنُّ أُولَاهَا خُرُوجًا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَذَلِكَ أَنَّهَا كُلَّمَا غَرَبَتْ أَتَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ فَسَجَدَتْ، وَاسْتَأْذَنَتْ فِي الرُّجُوعِ، فَأُذِنَ لَهَا فِي الرُّجُوعِ، حَتَّى إِذَا بَدَا لِلَّهِ أَنْ تَطْلُعَ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَعَلَتْ كَمَا كَانَتْ تَفْعَلُ أَتَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ فَسَجَدَتْ، فَاسْتَأْذَنَتْ فِي الرُّجُوعِ، فَلَمْ يُرَدَّ عَلَيْهَا شَيْءٌ، ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ فِي الرُّجُوعِ، فَلَا يُرَدُّ عَلَيْهَا شَيْءٌ، ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ فَلَا يُرَدُّ عَلَيْهَا شَيْءٌ، حَتَّى إِذَا ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَذْهَبَ، وَعَرَفَتْ أَنَّهُ إِنْ أُذِنَ لَهَا فِي الرُّجُوعِ لَمْ تُدْرِكْ الْمَشْرِقَ، قَالَتْ: رَبِّ، مَا أَبْعَدَ الْمَشْرِقَ، مَنْ لِي بِالنَّاسِ؟ حَتَّى إِذَا صَارَ الْأُفُقُ كَأَنَّهُ طَوْقٌ، اسْتَأْذَنَتْ فِي الرُّجُوعِ، فَيُقَالُ لَهَا: مِنْ مَكَانِكِ فَاطْلُعِي، فَطَلَعَتْ عَلَى النَّاسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، ثُمَّ تَلَا عَبْدُ اللَّهِ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا سورة الأنعام آية 158.
ابوزرعہ بن عمرورحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں تین مسلمان مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسے علامات قیامت کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلی علامت دجال کا خروج ہے وہ لوگ واپسی پر سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مروان سے سنی ہوئی حدیث بیان کر دی انہوں نے فرمایا: ”اس نے کوئی مضبوط بات نہیں کہی میں نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی حدیث سنی ہے جو میں اب تک نہیں بھولا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کی سب سے پہلی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے پھر چاشت کے وقت دابۃ الارض کا خروج ہونا ہے ان دونوں میں سے جو بھی علامت پہلے ظاہر ہو جائے گی دوسری اس کے فورا بعد رونما ہو جائے گی سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جو کہ گزشتہ آسمانی کتابیں بھی پڑھے ہوئے تھے کہتے تھے کہ میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ روزانہ سورج جب غروب ہوجاتا ہے تو عرش الہٰی کے نیچے آ کر سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت مل جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا کہ وہ مغرب سے طلوع ہو تو وہ حسب معمول عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو کر جب واپسی کی اجازت مانگے گا تو اسے کوئی جواب نہ دیا جائے گا تین مرتبہ اسی طرح ہو گا جب رات کا اتناحصہ بیت جائے گا جو اللہ کو منظور ہو گا اور سورج کو اندازہ ہو جائے گا کہ اب اگر اسے اجازت مل بھی گئی تو وہ مشرق تک نہیں پہنچ سکے گا کہ پروردگار! مشرق کتنا دور ہے؟ مجھے لوگوں تک کون پہنچائے گا؟ جب افق ایک طوق کی طرح ہو جائے گا تو اسے واپس جانے کی اجازت مل جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ اسی جگہ سے طلوع کرو چنانچہ وہ لوگوں پر مغرب کی جانب سے طلوع ہو گا پھر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس دن آپ کے رب کی کچھ نشانیاں ظاہر ہو گئیں تو اس شخص کو " جو اب تک ایمان نہیں لایا اس وقت ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے سکے گا "
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2941، من طريق عبدالله بن نمير بالمرفوع منه فحسب
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی احسان جتانے والا اور کوئی والدین کا نافرمان اور کوئی عادی شرابی جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة جابان
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن هلال بن يساف ، عن ابي يحيى الاعرج ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا؟ فقال:" على النصف من صلاته قائما". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وابصر رسول الله صلى الله عليه وسلم قوما يتوضئون لم يتموا الوضوء، فقال:" اسبغوا" يعني الوضوء" ويل للعراقيب من النار"، او" الاعقاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَاعِدًا؟ فَقَالَ:" عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاتِهِ قَائِمًا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَأَبْصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يَتَوَضَّئُونَ لَمْ يُتِمُّوا الْوُضُوءَ، فَقَالَ:" أَسْبِغُوا" يَعْنِي الْوُضُوءَ" وَيْلٌ لِلْعَرَاقِيبِ مِنَ النَّارِ"، أَوْ" الْأَعْقَابِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نوافل پڑھنے کا حکم پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے؟“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔“ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اچھی طرح وضو نہیں کر رہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے اعضاء وضو کو اچھی طرح مکمل دھویا کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث قسمان: أما قسم صلاة القاعد: فأخرجه مسلم: 735، وأما قسم إسباغ الوضوء... أخرجه مسلم : 241 أيضاً
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" الكبائر: الإشراك بالله عز وجل، وعقوق الوالدين، او قتل النفس شعبة الشاك، واليمين الغموس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، أَوْ قَتْلُ النَّفْسِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کبیرہ گناہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا (کسی کو قتل کرنا) اور جھوٹی قسم کھانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا ابو معشر البراء ، حدثني صدقة بن طيسلة ، حدثني معن بن ثعلبة المازني ، والحي بعد، قال: حدثني الاعشى المازني ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فانشدته: يا مالك الناس وديان العرب إني لقيت ذربة من الذرب غدوت ابغيها الطعام في رجب فخلفتني بنزاع وهرب اخلفت العهد ولطت بالذنب وهن شر غالب لمن غلب قال": فجعل يقول النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" وهن شر غالب لمن غلب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بن أحمد، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَرَّاءُ ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ طَيْسَلَةَ ، حَدَّثَنِي مَعْنُ بْنُ ثَعْلَبَةَ الْمَازِنِيُّ ، وَالْحَيُّ بَعْدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَعْشَى الْمَازِنِيُّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْشَدْتُهُ: يَا مَالِكَ النَّاسِ وَدَيَّانَ الْعَرَبْ إِنِّي لَقِيتُ ذِرْبَةً مِنَ الذِّرَبْ غَدَوْتُ أَبْغِيهَا الطَّعَامَ فِي رَجَبْ فَخَلَّفَتْنِي بِنِزَاعٍ وَهَرَبْ أَخْلَفَتْ الْعَهْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبْ وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ قَالَ": فَجَعَلَ يَقُولُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ".
سیدنا اعشی مازنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ اشعار پیش کئے جن کا ترجمہ یہ ہے اے لوگوں کے بادشاہ اور عرب کو دینے والے میں ایک بدزبان عورت سے ملا، میں رجب کے مہینے میں اس کے لئے کھانے کی تلاش میں نکلا پیچھے سے اس نے جھگڑے اور راہ فرار کا منظر دکھایا، اس نے وعدہ خلافی کی اور دم سے مارا یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا آخری جملہ دہرانے لگے کہ یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے۔ فائدہ۔ اس کی مکمل وضاحت اگلی روایت میں آرہی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال صدقة بن طيسلة ومعن بن ثعلبة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، حدثني العباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا ابو سلمة عبيد بن عبد الرحمن الحنفي ، حدثني الجنيد بن امين بن ذروة بن نضلة بن طريف بن بهصل الحرمازي ، حدثني ابي امين بن ذروة ، عن ابيه ذروة بن نضلة ، عن ابيه نضلة بن طريف ، ان رجلا منهم، يقال له: الاعشى، واسمه عبد الله بن الاعور، كانت عنده امراة يقال لها: معاذة، خرج في رجب يمير اهله من هجر، فهربت امراته بعده، ناشزا عليه، فعاذت برجل منهم، يقال له: مطرف بن بهصل بن كعب بن قميشع بن دلف بن اهضم بن عبد الله بن بهصل، فجعلها خلف ظهره، فلما قدم ولم يجدها في بيته، واخبر انها نشزت عليه، وانها عاذت بمطرف بن بهصل، فاتاه، فقال: يا ابن عم، اعندك امراتي معاذة؟ فادفعها إلي، قال: ليست عندي، ولو كانت عندي لم ادفعها إليك، قال: وكان مطرف اعز منه، فخرج حتى اتى النبي صلى الله عليه وسلم فعاذ به، وانشا يقول: يا سيد الناس وديان العرب إليك اشكو ذربة من الذرب كالذئبة الغبشاء في ظل السرب خرجت ابغيها الطعام في رجب فخلفتني بنزاع وهرب اخلفت العهد ولطت بالذنب وقذفتني بين عيص مؤتشب وهن شر غالب لمن غلب فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" وهن شر غالب لمن غلب"، فشكا إليه امراته وما صنعت به، وانها عند رجل منهم يقال له: مطرف بن بهصل، فكتب له النبي صلى الله عليه وسلم:" إلى مطرف، انظر امراة هذا معاذة، فادفعها إليه"، فاتاه كتاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقرئ عليه، فقال لها: يا معاذة، هذا كتاب النبي صلى الله عليه وسلم فيك، فانا دافعك إليه، قالت: خذ لي عليه العهد والميثاق وذمة نبيه لا يعاقبني فيما صنعت، فاخذ لها ذاك عليه، ودفعها مطرف إليه، فانشا يقول: لعمرك ما حبي معاذة بالذي يغيره الواشي ولا قدم العهد ولا سوء ما جاءت به إذ ازالها غواة الرجال إذ يناجونها بعدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بن أحمد، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عُبَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي الْجُنَيْدُ بْنُ أَمِينِ بْنِ ذِرْوَةَ بْنِ نَضْلَةَ بْنِ طَرِيفِ بْنِ بُهْصُلٍ الْحِرْمَازِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي أَمِيْنُ بْنُ ذِرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ذِرْوَةَ بْنِ نَضْلَةَ ، عَنْ أَبِيهِ نَضْلَةَ بْنِ طَرِيفٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: الْأَعْشَى، وَاسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَعْوَرِ، كَانَتْ عِنْدَهُ امْرَأَةٌ يُقَالُ لَهَا: مُعَاذَةُ، خَرَجَ فِي رَجَبٍ يَمِيرُ أَهْلَهُ مِنْ هَجَرَ، فَهَرَبَتْ امْرَأَتُهُ بَعْدَهُ، نَاشِزًا عَلَيْهِ، فَعَاذَتْ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُهْصُلِ بْنِ كَعْبِ بْنِ قَمَيْشَعِ بْنِ دُلَفَ بْنِ أَهْضَمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بَنْ بُهْصُل، فَجَعَلَهَا خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَلَمَّا قَدِمَ وَلَمْ يَجِدْهَا فِي بَيْتِهِ، وَأُخْبِرَ أَنَّهَا نَشَزَتْ عَلَيْهِ، وَأَنَّهَا عَاذَتْ بِمُطَرِّفِ بْنِ بُهْصُلٍ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَمِّ، أَعِنْدَكَ امْرَأَتِي مُعَاذَةُ؟ فَادْفَعْهَا إِلَيَّ، قَالَ: لَيْسَتْ عِنْدِي، وَلَوْ كَانَتْ عِنْدِي لَمْ أَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، قَالَ: وَكَانَ مُطَرِّفٌ أَعَزَّ مِنْهُ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَاذَ بِهِ، وَأَنْشَأَ يَقُولُ: يَا سَيِّدَ النَّاسِ وَدَيَّانَ الْعَرَبْ إِلَيْكَ أَشْكُو ذِرْبَةً مِنَ الذِّرَبْ كَالذِّئْبَةِ الْغَبْشَاءِ فِي ظِلِّ السَّرَبْ خَرَجْتُ أَبْغِيهَا الطَّعَامَ فِي رَجَبْ فَخَلَّفَتْنِي بِنِزَاعٍ وَهَرَبْ أَخْلَفَتْ الْعَهْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبْ وَقَذَفَتْنِي بَيْنَ عِيصٍ مُؤْتَشَبْ وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ"، فَشَكَا إِلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَمَا صَنَعَتْ بِهِ، وَأَنَّهَا عِنْدَ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُهْصُلٍ، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى مُطَرِّفٍ، انْظُرْ امْرَأَةَ هَذَا مُعَاذَةَ، فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ"، فَأَتَاهُ كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُرِئَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا: يَا مُعَاذَةُ، هَذَا كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكِ، فَأَنَا دَافِعُكِ إِلَيْهِ، قَالَتْ: خُذْ لِي عَلَيْهِ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ لَا يُعَاقِبُنِي فِيمَا صَنَعْتُ، فَأَخَذَ لَهَا ذَاكَ عَلَيْهِ، وَدَفَعَهَا مُطَرِّفٌ إِلَيْهِ، فَأَنْشَأَ يَقُولُ: لَعَمْرُكَ مَا حُبِّي مُعَاذَةَ بِالَّذِي يُغَيِّرُهُ الْوَاشِي وَلَا قِدَمُ الْعَهْدِ وَلَا سُوءُ مَا جَاءَتْ بِهِ إِذْ أَزَالَهَا غُوَاةُ الرِّجَالِ إِذْ يُنَاجُونَهَا بَعْدِي.
نظلہ بن طریف کہتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی تھا جسے اعشی کہا جاتا تھا اس کا اصل نام عبداللہ بن اعور تھا اس کے نکاح میں جو عورت تھی اس کا نام معاذہ تھا ایک مرتبہ اعشی رجب کے مہینے میں ہجر نامی علاقے سے اپنے اہل خانہ کے لئے غلہ لانے کے لئے روانہ ہوا پیچھے سے اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ گئی اور اپنے قبیلے کے ایک آدمی کے یہاں پناہ لی جس کا نام مطرف بن بہصل۔۔۔۔۔۔ تھا اس نے اسے اپنی پناہ فراہم کر دی۔ جب اعشی واپس آیا تو گھر میں بیوی نہ ملی پتہ چلا کہ وہ ناراض ہو کر گھربھاگ گئی ہے اور اب مطرف بن بہصل کی پناہ میں ہے اعشی یہ سن کر مطرف کے پاس آیا اور کہنے لگا اے میرے چچازادبھائی! کیا میری بیوی معاذہ آپ کے پاس ہے؟ اسے میرے حوالے کر دیں اس نے نے کہا کہ وہ میرے پاس نہیں ہے اگر ہوتی بھی تو میں اسے تیرے حوالے نہ کرتا مطرف دراصل اس کی نسبت زیادہ طاقتور تھا چنانچہ اعشی وہاں سے نکل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ اشعار کہتے ہوئے ان کی پناہ چاہی اے لوگوں کے سردار اور عرب کو دینے والے! میں آپ کے پاس ایک بدزبان عورت کی شکایت لے کر آیا ہوں وہ اس مادہ بھیڑیے کی طرح ہے جو سراب کے سائے میں دھوکہ دے دیتی ہے ماہ رجب میں اس کے لئے غلہ کی تلاش میں نکلا تھا اس نے پیچھے سے مجھے جھگڑے اور راہ فرار کا منظر دکھایا اس نے وعدہ خلافی کی اور اپنی دم ماری اور اس نے مجھے سخت مشکل میں مبتلا کر دیا اور یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ غالب رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہ آخری جملہ دہرانے لگے کہ یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے اس کے بعد اعشی نے اپنی بیوی کی شکایت کی اور اس کا سارا کارنامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور یہ بھی کہ اب وہ انہی کے قبیلے کے ایک آدمی کے پاس ہے جس کا نام مطرف بن بہصل ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطرف کو یہ خط لکھا کہ دیکھو اس شخص کی بیوی معاذہ کو اس کے حوالے کر دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جب اس کے پاس پہنچا اور اسے پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے اس عورت سے کہا کہ معاذہ یہ تمہارے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہے اس لئے میں تمہیں اس کے حوالے کر رہا ہوں اس نے کہا کہ اس سے میرے لئے عہد و پیمان لے لئے اور اسے اس کے حوالے کر دیا اس پر اعشی نے یہ اشعار کہے تیری عمر کی قسم معاذہ تجھ سے میری محبت ایسی نہیں ہے جسے کوئی رنگ بدل سکے یا زمانہ کا بعد اسے متغیر کر سکے اور نہ ہی اس حرکت کی برائی جو اس سے صادر ہوئی جبکہ اسے بہکے ہوئے لوگوں نے پھسلا لیا اور میرے پیچھے اس سے سرگوشیاں کرتے رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا معمر ، اخبرنا ابن شهاب . وعبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر، عن ابن شهاب، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا على راحلته بمنى، قال: فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الحلق قبل الذبح، فحلقت قبل ان اذبح، فقال:" اذبح ولا حرج"، قال: ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الذبح قبل الرمي، فذبحت قبل ان ارمي، قال:" فارم ولا حرج"، قال: فما سئل عن شيء قدمه رجل قبل شيء، إلا قال:" افعل ولا حرج"، قال عبد الرزاق: وجاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني كنت اظن ان الحلق قبل الرمي، فحلقت قبل ان ارمي، قال:" رم ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عَلَى رَاحِلَتِهِ بِمِنًى، قَالَ: فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَى أَنَّ الْحَلْقَ قَبْلَ الذَّبْحِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، فَقَالَ:" اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَى أَنَّ الذَّبْحَ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ:" فَارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قَدَّمَهُ رَجُلٌ قَبْلَ شَيْءٍ، إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَجَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ الْحَلْقَ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ:" رْمِ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروا لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے آگے پہنچادیا کرو خواہ ایک آیت ہی ہو بنی اسرائیل کی باتیں بھی ذکر کر سکتے ہو کوئی حرج نہیں اور جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لینا چاہئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن ابي سعد ، قال: جاء رجل إلى عبد الله بن عمرو ، فقال: إنما اسالك عما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا اسالك عن التوراة! فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَسْأَلُكَ عَمَّا سَمِعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَسْأَلُكَ عَنِ التَّوْرَاةِ! فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
ابو سعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے وہ حدیث پوچھتا ہوں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے وہ نہیں پوچھتاجو تورات میں ہے انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا زياد بن عبد الله بن علاثة القاضي ابو سهل ، حدثنا العلاء بن رافع ، عن الفرزدق بن حنان القاص ، قال: الا احدثكم حديثا سمعته اذناي ووعاه قلبي، لم انسه بعد؟ خرجت انا وعبيد الله بن حيدة في طريق الشام، فمررنا بعبد الله بن عمرو بن العاص ، فذكر الحديث، فقال: جاء رجل من قومكما، اعرابي جاف جريء، فقال: يا رسول الله، اين الهجرة، إليك حيثما كنت، ام إلى ارض معلومة، او لقوم خاصة، ام إذا مت انقطعت؟ قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة، ثم قال:" اين السائل عن الهجرة؟"، قال: ها انا ذا يا رسول الله، قال:" إذا اقمت الصلاة وآتيت الزكاة فانت مهاجر، وإن مت بالحضرمة"، قال: يعني ارضا باليمامة، قال: ثم قام رجل، فقال: يا رسول الله، ارايت ثياب اهل الجنة، اتنسج نسجا، ام تشقق من ثمر الجنة؟ قال: فكان القوم تعجبوا من مسالة الاعرابي! فقال:" ما تعجبون من جاهل يسال عالما؟"، قال: فسكت هنية، ثم قال:" اين السائل عن ثياب الجنة؟"، قال: انا، قال:" لا، بل تشقق من ثمر الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ الْقَاضِي أَبُو سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ رَافِعٍ ، عَنِ الْفَرَزْدَقِ بْنِ حَنَانٍ الْقَاصِّ ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ؟ خَرَجْتُ أَنَا وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ حَيْدَةَ فِي طَرِيقِ الشَّامِ، فَمَرَرْنَا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِكُمَا، أَعْرَابِيٌّ جَافٍ جَرِيءٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ الْهِجْرَةُ، إِلَيْكَ حَيْثُمَا كُنْتَ، أَمْ إِلَى أَرْضٍ مَعْلُومَةٍ، أَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّةً، أَمْ إِذَا مُتَّ انْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْهِجْرَةِ؟"، قَالَ: هَا أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ وَآتَيْتَ الزَّكَاةَ فَأَنْتَ مُهَاجِرٌ، وَإِنْ مُتَّ بِالْحَضْرَمَةِ"، قَالَ: يَعْنِي أَرْضًا بِالْيَمَامَةِ، قَالَ: ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ ثِيَابَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، أَتُنْسَجُ نَسْجًا، أَمْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَكَأَنَّ الْقَوْمَ تَعَجَّبُوا مِنْ مَسْأَلَةِ الْأَعْرَابِيِّ! فَقَالَ:" مَا تَعْجَبُونَ مِنْ جَاهِلٍ يَسْأَلُ عَالِمًا؟"، قَالَ: فَسَكَتَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ ثِيَابِ الْجَنَّةِ؟"، قَالَ: أَنَا، قَالَ:" لَا، بَلْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ".
فرزدق بن حنان نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی حدیث نہ سناؤں جسے میرے کانوں نے سنا میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میں اسے اب تک نہیں بھولا؟ میں ایک مرتبہ عبیداللہ بن حیدہ کے ساتھ شام کے راستے میں نکلا ہمارا گزر سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا اس کے بعد انہوں نے حدیث ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تم دونوں کی قوم سے ایک سخت طبیعت کا جری دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کی ہجرت کہاں کی جائے؟ آیا جہاں کہیں بھی آپ ہوں یا کسی معین علاقے کی طرف؟ یا یہ حکم ایک خاص قوم کے لئے ہے یا یہ کہ آپ کے وصال کے بعد ہجرت منقطع ہو جائے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیرتک سکوت فرمایا: ”پھر پوچھا کہ ہجرت کے متعلق سوال کر نے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ!! میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو تو تم مہاجرہو خواہ تمہاری موت حضرمہ جو یمامہ کا ایک علاقہ ہے ہی میں ہو۔ پھر وہ آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ جنتیوں کے کپڑے بنے جائیں گے یا ان سے جنت کا پھل چیر کر نکالا جائے گا؟ لوگوں کو اس دیہاتی کے سوال پر تعجب ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے ایک ناواقف آدمی ایک عالم سے سوال کر رہا ہے۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اہل جت کے کپڑوں کے متعلق پوچھنے والاکہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اہل جنت کے کپڑے جنت کے پھل سے چیر کر نکالے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة شيخ العلاء ابن رافع، وهو حنان بن خارجة
(حديث مرفوع) حدثنا ابن إدريس ، سمعت ابن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلا من مزينة يساله عن ضالة الإبل؟ فقال:" معها حذاؤها وسقاؤها، تاكل الشجر، وترد الماء، فذرها حتى ياتي باغيها"، قال: وساله عن ضالة الغنم؟ فقال:" لك او لاخيك او للذئب، اجمعها إليك حتى ياتي باغيها"، وساله عن الحريسة التي توجد في مراتعها؟ قال: فقال:" فيها ثمنها مرتين وضرب نكال"، قال:" فما اخذ من اعطانه ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، فساله، فقال: يا رسول الله، اللقطة نجدها في السبيل العامر؟ قال:" عرفها سنة، فإن جاء صاحبها، وإلا فهي لك"، قال: يا رسول الله، ما يوجد في الخراب العادي؟ قال:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ يَسْأَلُهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ؟ فَقَالَ:" مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا، تَأْكُلُ الشَّجَرَ، وَتَرِدُ الْمَاءَ، فَذَرْهَا حَتَّى يَأْتِيَ بَاغِيهَا"، قَالَ: وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، اجْمَعْهَا إِلَيْكَ حَتَّى يَأْتِيَ بَاغِيهَا"، وَسَأَلَهُ عَنِ الْحَرِيسَةِ الَّتِي تُوجَدُ فِي مَرَاتِعِهَا؟ قَالَ: فَقَالَ:" فِيهَا ثَمَنُهَا مَرَّتَيْنِ وَضَرْبُ نَكَالٍ"، قَالَ:" فَمَا أُخِذَ مِنْ أَعْطَانِهِ فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اللُّقَطَةُ نَجِدُهَا فِي السَّبِيلِ الْعَامِرِ؟ قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُوجَدُ فِي الْخَرَابِ الْعَادِيِّ؟ قَالَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ اس کا "" سم "" اور اس کا "" مشکیزہ "" ہوتا ہے وہ خود ہی درختوں کے پتے کھاتا اور وادیوں کا پانی پیتا اپنے مالک کے پاس پہنچ جائے گا اس لئے تم اسے چھوڑ دو تاکہ وہ اپنی منزل پر خود ہی پہنچ جائے اس نے پوچھا کہ گمشدہ بکر ی کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تم اسے لے جاؤ گے یا تمہارا کوئی بھائی لے جائے گا یا کوئی بھیڑیا لے جائے گا تم اسے اپنی بکر یوں میں شامل کرو تاکہ وہ اپنے مقصود پر پہنچ جائے اس نے پوچھا وہ محفوظ بکر ی جو اپنی، چراگاہ میں ہو اسے چوری کر نے والے کے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت اور سزا اور جسے باڑے سے چرایا گیا ہو تو اس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا جبکہ وہ ایک ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی آبادعلاقے کے راستے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے ایک سال تک اس کی تشہیر کر اؤ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر دو ورنہ وہ تمہاری ہے اس نے کہا کہ اگر یہی چیز کسی ویرانے میں ملے تو؟ فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”والدین کا کوئی نافرمان، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی عادی شرابی اور کوئی ولد زنا جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «ولا ولد زنية» ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة جابان
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ عورت اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ کسی اور سے شادی نہیں کر لیتی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن منصور ، عن هلال بن يساف ، عن ابي يحيى ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي قاعدا، فقلت: يا رسول الله، إني حدثت انك قلت:" ان صلاة القاعد على النصف من صلاة القائم"، وانت تصلي جالسا؟ قال:" اجل ولكني لست كاحد منكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرو ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ:" أَنَّ صَلَاةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ"، وَأَنْتَ تُصَلِّي جَالِسًا؟ قَالَ:" أَجَلْ وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا میں نے عرض کیا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لا ينزع العلم من الناس بعد ان يعطيهم إياه، ولكن يذهب بالعلماء، كلما ذهب عالم ذهب بما معه من العلم، حتى يبقى من لا يعلم، فيتخذ الناس رؤساء جهالا، فيستفتوا، فيفتوا بغير علم، فيضلوا، ويضلوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَنْ يُعْطِيَهُمْ إِيَّاهُ، وَلَكِنْ يَذْهَبُ بِالْعُلَمَاءِ، كُلَّمَا ذَهَبَ عَالِمٌ ذَهَبَ بِمَا مَعَهُ مِنَ الْعِلْمِ، حَتَّى يَبْقَى مَنْ لَا يَعْلَمُ، فَيَتَّخِذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا، فَيُسْتَفْتَوْا، فَيُفْتُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيَضِلُّوا، وَيُضِلُّوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے درمیان سے کھینچ لے گا بلکہ علماء کو اٹھا کر علم اٹھالے گا حتٰی کہ جب ایک عالم بھی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے اور انہیں سے مسائل معلوم کیا کر یں گے وہ علم کے بغیر انہیں فتویٰ دیں گے نتیجہ یہ ہو گا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر یں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن ابن المسيب ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المقسطون في الدنيا على منابر من لؤلؤ يوم القيامة، بين يدي الرحمن عز وجل، بما اقسطوا في الدنيا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُقْسِطُونَ فِي الدُّنْيَا عَلَى مَنَابِرَ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْنَ يَدَيْ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، بِمَا أَقْسَطُوا فِي الدُّنْيَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں عدل و انصاف کر نے والے قیامت کے دن اپنے اس عدل و انصاف کی برکت سے رحمان کے سامنے موتیوں کے منبر پر جلوہ افروز ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عمرو بن شعيب ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال:" بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض اعلى الوادي، نريد ان نصلي، قد قام وقمنا، إذ خرج علينا حمار من شعب ابي دب، شعب ابي موسى، فامسك النبي صلى الله عليه وسلم فلم يكبر، واجرى إليه يعقوب بن زمعة، حتى رده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ:" بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَعَلَى الْوَادِي، نُرِيدُ أَنْ نُصَلِّيَ، قَدْ قَامَ وَقُمْنَا، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا حِمَارٌ مِنْ شِعْبِ أَبِي دُبٍّ، شِعْبِ أَبِي مُوسَى، فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُكَبِّرْ، وَأَجْرَى إِلَيْهِ يَعْقُوبَ بْنَ زَمْعَةَ، حَتَّى رَدَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی وادی کے بالائی حصے میں تھے نماز پڑھنے کا ارادہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے اچانک شعب ابی دب کی جانب سے ایک گدھا ہمارے سامنے نکل آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جب تک یعقوب بن زمعہ نے دوڑ کر اسے بھگا نہ دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لا نقطاعه ، عمرو بن شعيب لم يدرك عبدالله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی اور کسی ناتجربہ کار آدمی کی اپنے بھائی کے متعلق گواہی مقبول نہیں نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوکر کی گواہی اس کے مالکان کے حق میں قبول نہیں فرمائی البتہ دوسرے لوگوں کے حق میں قبول فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا نصر بن باب ، عن الحجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، انه قال: إن امراتين من اهل اليمن اتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعليهما سواران من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتحبان ان سوركما الله سوارين من نار؟" قالتا: لا، والله يا رسول الله، قال:" فاديا حق الله عليكما في هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَتَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِمَا سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُحِبَّانِ أَنْ سَوَّرَكُمَا اللَّهُ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لَا، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَأَدِّيَا حَقَّ اللَّهِ عَلَيْكُمَا فِي هَذَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ دو یمنی عورتیں آئیں جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس بات کو پسند کر تی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ وہ کہنے لگیں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تمہارے ہاتھوں میں جو کنگن ہیں ان کا حق ادا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا نصر بن باب ، عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم يخاصم اباه، فقال: يا رسول الله، إن هذا قد احتاج إلى مالي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت ومالك لابيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَاصِمُ أَبَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ احْتَاجَ إِلَى مَالِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میرا باپ میرے مال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر وہ نماز جس میں ذرا سی بھی قرأت نہ کی جائے وہ ناقص، ناقص، ناقص ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا نصر بن باب ، عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،" كتب كتابا بين المهاجرين، والانصار على ان يعقلوا معاقلهم، ويفدوا عانيهم بالمعروف، والإصلاح بين المسلمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" كَتَبَ كِتَابًا بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ عَلَى أَنْ يَعْقِلُوا مَعَاقِلَهُمْ، وَيَفْدُوا عَانِيَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ، وَالْإِصْلَاحِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان یہ تحریر لکھ دی کہ وہ دیت ادا کر یں اپنے قیدیوں کا بھلے طریقے سے فدیہ ادا کر یں اور مسلمانوں کے درمیان اصلاح کر یں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، نصر بن باب، ضعيف الحديث، وحجاج بن أرطاة كثير الخطأ والتدليس.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی بات پر قسم کھائے اور اس کے علاوہ کسی اور دوسری چیز میں خیر دیکھے تو خیر والا کام کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، مسلم بن خالد الزنجي، سيئ الحفظ.
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني الاوزاعي ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي ، حدثني عروة بن الزبير ، قال: قلت لعبد الله بن عمرو بن العاص : اخبرني باشد شيء صنعه المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بفناء الكعبة، إذ اقبل عقبة بن ابي معيط، فاخذ بمنكب النبي صلى الله عليه وسلم، ولوى ثوبه في عنقه، فخنقه به خنقا شديدا، فاقبل ابو بكر رضي الله عنه، فاخذ بمنكبه، ودفعه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم سورة غافر آية 28.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ شَيْءٍ صَنَعَهُ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوَى ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ، فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ، وَدَفَعَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ سورة غافر آية 28.
عروہ بن زبیررحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے کسی ایسے سخت واقعے کے متعلق بتایئے جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے اسی دوران عقبہ بن ابی معیط آگیا اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کندھا پکڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک گردن میں کپڑا لپیٹ کر اسے زور زور سے گھونٹنا شروع کر دیا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو وہ فورا آئے اور اسے کندھے سے پکڑ کر دور کیا اور فرمایا: ”کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے جب کہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے واضح دلائل بھی لے کر آیا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہجرت پر آپ سے بیعت کر نے کے لئے آیا ہوں اور (میں نے بڑی قربانی دی ہے کہ) اپنے والدین کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ اور جیسے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" خصلتان او خلتان لا يحافظ عليهما رجل مسلم إلا دخل الجنة، هما يسير، ومن يعمل بهما قليل: تسبح الله عشرا، وتحمد الله عشرا، وتكبر الله عشرا، في دبر كل صلاة، فذلك مائة وخمسون باللسان، والف وخمس مائة في الميزان، وتسبح ثلاثا وثلاثين، وتحمد ثلاثا وثلاثين، وتكبر اربعا وثلاثين عطاء لا يدري ايتهن اربع وثلاثون إذا اخذ مضجعه، فذلك مائة باللسان، والف في الميزان، فايكم يعمل في اليوم الفين وخمس مائة سيئة؟" قالوا: يا رسول الله، كيف هما يسير ومن يعمل بهما قليل؟ قال:" ياتي احدكم الشيطان إذا فرغ من صلاته، فيذكره حاجة كذا وكذا، فيقوم ولا يقولها، فإذا اضطجع ياتيه الشيطان فينومه قبل ان يقولها"، فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقدهن في يده، قال عبد الله بن احمد سمعت عبيد الله القواريري، سمعت حماد بن زيد، يقول:: قدم علينا عطاء بن السائب البصرة، فقال لنا ايوب: ائتوه فاسالوه عن حديث التسبيح؟ يعني هذا الحديث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" خَصْلَتَانِ أَوْ خَلَّتَانِ لَا يُحَافِظُ عَلَيْهِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، هُمَا يَسِيرٌ، وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ: تُسَبِّحُ اللَّهَ عَشْرًا، وَتَحْمَدُ اللَّهَ عَشْرًا، وَتُكَبِّرُ اللَّهَ عَشْرًا، فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، فَذَلِكَ مِائَةٌ وَخَمْسُونَ بِاللِّسَانِ، وَأَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ، وَتُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ عَطَاءٌ لَا يَدْرِي أَيَّتُهُنَّ أَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ، فَذَلِكَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ، وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ، فَأَيُّكُمْ يَعْمَلُ فِي الْيَوْمِ أَلْفَيْنِ وَخَمْسَ مِائَةِ سَيِّئَةٍ؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ؟ قَالَ:" يَأْتِي أَحَدَكُمْ الشَّيْطَانُ إِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، فَيُذَكِّرُهُ حَاجَةَ كَذَا وَكَذَا، فَيَقُومُ وَلَا يَقُولُهَا، فَإِذَا اضْطَجَعَ يَأْتِيهِ الشَّيْطَانُ فَيُنَوِّمُهُ قَبْلَ أَنْ يَقُولَهَا"، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهُنَّ فِي يَدِهِ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بَنْ أحمد سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيَّ، سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ:: قَدِمَ عَلَيْنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ الْبَصْرَةَ، فَقَالَ لَنَا أَيُّوبُ: ائْتُوهُ فَاسْأَلُوهُ عَنْ حَدِيثِ التَّسْبِيحِ؟ يَعْنِي هَذَا الْحَدِيثَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو خصلتیں جنت میں پہنچا دیتی ہیں بہت آسان ہیں اور عمل میں بہت تھوڑی ہیں صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تو یہ کہ ہر فرض نماز کے بعد دس دس مرتبہ الحمدللہ اللہ اکبر سبحان اللہ کہہ لیا کرو اور دوسرا یہ کہ جب اپنے بستر پر پہنچو تو سو مرتبہ سبحان للہ اللہ اکبر اور الحمدللہ کہہ لیا کرو، پانچوں نمازوں اور رات کے اس عدد کو ملا کر زبان سے تو یہ کلمات ڈھائی سو مرتبہ اداہوں گے لیکن میزان عمل میں یہ ڈھائی ہزار کے برابر ہوں گے اب تم میں سے کون شخص ایسا ہے جو دن رات میں دھائی ہزار گناہ کرتا ہو گا؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کلمات عمل کر نے والے کے لئے تھوڑے کیسے ہوئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان دوران نماز آ کر اسے مختلف کام کرواتا ہے اور وہ ان میں الجھ کر یہ کلمات نہیں کہہ پاتا اسی طرح سوتے وقت اس کے پاس آتا ہے اور اسے یوں سلا دیتا ہے اور وہ اس وقت بھی یہ کلمات نہیں کہہ پاتا، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ان کلمات کو اپنی انگلیوں پر گن کر پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اچھی طرح وضو نہیں کر رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے کہ جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، انه سمع رجلا من بني مخزوم يحدث، عن عمه ، ان معاوية اراد ان ياخذ ارضا لعبد الله بن عمرو ، يقال لها: الوهط، فامر مواليه، فلبسوا آلتهم، وارادوا القتال، قال: فاتيته، فقلت: ماذا؟ فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من مسلم يظلم بمظلمة فيقاتل فيقتل، إلا قتل شهيدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمِّهِ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ أَرْضًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، يُقَالُ لَهَا: الْوَهْطُ، فَأَمَرَ مَوَالِيَهُ، فَلَبِسُوا آلَتَهُمْ، وَأَرَادُوا الْقِتَالَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: مَاذَا؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُظْلَمُ بِمَظْلَمَةٍ فَيُقَاتِلَ فَيُقْتَلَ، إِلَّا قُتِلَ شَهِيدًا".
ایک غیر معروف راوی سے منقول ہے کہ سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی " وہط " نامی زمین پر قبضہ کر نے کا ارادہ کیا سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے غلاموں کو اس کے لئے تیار کیا چنانچہ انہوں نے قتال کی نیت سے اسلحہ پہن لیا میں ان کے پاس آیا اور ان سے کہ یہ کیا؟ انہوں نے کہ کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس مسلمان پر کوئی ظلم توڑا جائے اور وہ اس کی مدافعت میں قتال کرے اور اس دوران لڑتا ہوا مارآ جائے تو وہ شہید ہو کر مقتول ہوا۔
فائدہ۔ سند کے اعتبار سے یہ روایت مضبوط نہیں ہے اور اسے صرف طیالسی نے نقل کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل من بني مخزوم وعمه، وللحديث أصل صحيح سلف لفظه برقم: 6522
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، عن هلال بن طلحة او طلحة بن هلال ، قال: سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الله بن عمرو، صم الدهر، ثلاثة ايام من كل شهر"، قال: وقرا هذه الآية من جاء بالحسنة فله عشر امثالها سورة الانعام آية 160 قال: قلت: إني اطيق اكثر من ذلك؟ قال:" صم صيام داود كان يصوم يوما ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ طَلْحَةَ أَوْ طَلْحَةَ بْنِ هِلَالٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، صُمْ الدَّهْرَ، ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، قَالَ: وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا سورة الأنعام آية 160 قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ:" صُمْ صِيَامَ دَاوُدَ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمرو! ہمیشہ روزے سے رہو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مہینہ تین روزے رکھ لیا کرو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ جو ایک نیکی لے کر آئے کا اسے اس جیسی دس نیکیاں ملیں گی میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سیدنا داؤدعلیہ السلام کی طرح روزہ رکھ لیا کرو وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، طلحة بن هلال مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن زياد بن فياض ، عن ابي عياض ، سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صم يوما ولك اجر ما بقي" حتى عد اربعة ايام او خمسة، شعبة يشك، قال:" صم افضل الصوم، صوم داود عليه السلام، كان يصوم يوما ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ فَيَّاضٍ ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صُمْ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ" حَتَّى عَدَّ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ أَوْ خَمْسَةً، شُعْبَةُ يَشُكُّ، قَالَ:" صُمْ أَفْضَلَ الصَّوْمِ، صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ایک دن کا روزہ رکھو تمہیں بقیہ ایام کا اجر ملے گا حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار اور پانچ ایام کا تذکر ہ کیا اور سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی طرح روزہ رکھ لیا کرو وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش ، قال: دخلنا على ابي حصين نعوده، ومعنا عاصم، قال: قال ابو حصين لعاصم : تذكر حديثا حدثناه القاسم بن مخيمرة ؟ قال: قال: نعم، إنه حدثنا يوما عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اشتكى العبد المسلم، قيل للكاتب الذي يكتب عمله: اكتب له مثل عمله إذ كان طليقا، حتى اقبضه او اطلقه"، قال ابو بكر: حدثنا به عاصم، وابو حصين جميعا.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي حَصِينٍ نَعُودُهُ، وَمَعَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: قَالَ أَبُو حَصِينٍ لِعَاصِمٍ : تَذْكُرُ حَدِيثًا حَدَّثَنَاهُ الْقَاسِمُ بْنُ مُخَيْمِرَةَ ؟ قَالَ: قَالَ: نَعَمْ، إِنَّهُ حَدَّثَنَا يَوْمًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اشْتَكَى الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ، قِيلَ لِلْكَاتِبِ الَّذِي يَكْتُبُ عَمَلَهُ: اكْتُبْ لَهُ مِثْلَ عَمَلِهِ إِذْ كَانَ طَلِيقًا، حَتَّى أَقْبِضَهُ أَوْ أُطْلِقَهُ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا بِهِ عَاصِمٌ، وَأَبُو حَصِينٍ جَمِيعًا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو آدمی نیک اعمال سر انجام دیتا ہو اور وہ بیمار ہو جائے تو اللہ اس کے محافظ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرا بندہ خیر کے جتنے بھی کام کرتا تھا وہ ہر دن رات لکھتے رہو تا وقتیکہ میں اسے چھوڑوں یا اپنے پاس بلا لوں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جتنے بھی معاہدے ہوئے اسلام ان کی شدت میں مزید اضافہ کرتا ہے لیکن اب اسلام میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کر نے سے بیع اور ادھار سے اس چیز کی بیع سے جو ضمانت میں ابھی داخل نہ ہوئی ہو اور اس چیز کی بیع سے جو آپ کے پاس موجود نہ ہو منع فرمایا: ”۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا: ”ہے اور وہ وتر ہے لہٰذا اس کی پابندی کرو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف المثنى بن الصباح.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: إبراهيم بن ميمون اخبرني، قال: سمعت رجلا من بني الحارث، قال: سمعت رجلا منا يقال له: ايوب ، قال: سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول:" من تاب قبل موته عاما تيب عليه، ومن تاب قبل موته بشهر تيب عليه"، حتى قال:" يوما" حتى قال:" ساعة"، حتى قال:" فواقا"، قال: قال الرجل: ارايت إن كان مشركا اسلم؟ قال: إنما احدثكم كما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي الْحَارِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَّا يُقَالُ لَهُ: أَيُّوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ:" مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِهِ عَامًا تِيبَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِشَهْرٍ تِيبَ عَلَيْهِ"، حَتَّى قَالَ:" يَوْمًا" حَتَّى قَالَ:" سَاعَةً"، حَتَّى قَالَ:" فُوَاقًا"، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ مُشْرِكًا أَسْلَمَ؟ قَالَ: إِنَّمَا أُحَدِّثُكُمْ كَمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ قبول ہو جائے گی جو ایک مہینہ پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ بھی قبول ہو جائے گی حتیٰ کے ایک دن پہلے یا ایک گھنٹہ پہلے یا موت کی ہچکی سے پہلے بھی توبہ کر لے تو وہ بھی قبول ہو جائے گی کسی آدمی نے پوچھا یہ بتائیے اگر کوئی مشرک اس وقت اسلام قبول کر لے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے تو تم سے اسی طرح حدیث بیان کر دی ہے جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لإبهام الرجل من بني الحارث وجهالة شيخه أيوب .
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے نزدیک روزہ رکھنے کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ سیدنا داؤدعلیہ السلام کا ہے وہ نصف زمانے تک روزے سے رہتے تھے اسی طرح ان کی نماز ہی اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے وہ آدھی رات تک سوتے تھے تہائی رات تک قیام کرتے تھے اور چھٹا حصہ پر آرام کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بكر ، وعبد الرزاق ، قالا: اخبرنا ابن جريج ، اخبرني سليمان الاحول ، ان ثابتا مولى عمر بن عبد الرحمن اخبره، انه لما كان بين عبد الله بن عمرو، وعنبسة بن ابي سفيان ما كان وتيسروا للقتال، فركب خالد بن العاص إلى عبد الله بن عمرو، فوعظه، فقال عبد الله بن عمرو : اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من قتل دون ماله فهو شهيد"، وقال عبد الرزاق:" من قتل على ماله، فهو شهيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ الْأَحْوَلُ ، أَنَّ ثَابِتًا مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ لَمَّا كَانَ بَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وعَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ مَا كَانَ وَتَيَسَّرُوا لِلْقِتَالِ، فَرَكِبَ خَالِدُ بْنُ العاص إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَوَعَظَهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ"، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ:" مَنْ قُتِلَ عَلَى مَالِهِ، فَهُوَ شَهِيدٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور عنبسہ بن ابی سفیان کے درمیان کچھ رنجش تھی نوبت لڑائی تک جا پہنچی سیدنا خالد بن عاص رضی اللہ عنہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی وہ کہنے لگے کہ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارآ جائے وہ شہید ہے؟
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام سے سو اوقیہ بدل کتابت اداء کر نے پر آزادی کا وعدہ کر لیا جائے اور وہ نوے اوقیہ ادا کر دے پھر عاجز آجاتے تب بھی وہ غلام ہی رہے گا (تا آنکہ مکمل ادائیگی کر دے)
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن الحباب ، اخبرني موسى بن علي ، سمعت ابي ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" تدرون من المسلم؟" قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" من سلم المسلمون من لسانه ويده"، قال: تدرون من المؤمن؟" قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" من امنه المؤمنون على انفسهم واموالهم، والمهاجر من هجر السوء فاجتنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ ، سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تَدْرُونَ مَنْ الْمُسْلِمُ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"، قَالَ: تَدْرُونَ مَنْ الْمُؤْمِنُ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ السُّوءَ فَاجْتَنَبَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو کہ مسلم کون ہوتا ہے؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں؟ فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں پھر پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ مومن کون ہوتا ہے؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا: ”جس کی طرف سے دوسرے مؤمنین کی جان ومال محفوظ ہو اور اصل مہاجر وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے اور ان سے اجتناب کرے۔
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ جب سیدہ امیر معاویہ و رضی اللہ عنہ جنگ صفین سے فارغ ہو کر آ رہے تھے تو میں ان کے اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے درمیان چل رہا تھا سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے والد سے کہنے لگے اباجان کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا کہ افسوس! اے سمیہ کے بیٹے تجھے ایک باغی گروہ قتل کر دے گا؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ اس کی بات سن رہے ہیں؟ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے تم ہمیشہ ایسی ہی پریشان کن خبریں لے آنا کیا ہم نے انہیں شہید کیا ہے؟ انہوں کو ان لوگوں نے ہی شہید کیا ہے جو انہیں لے کر آئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الواحد الحداد ، حدثنا حسين المعلم . ويزيد ، قال: اخبرنا حسين، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم في السفر ويفطر، ورايته يشرب قائما وقاعدا، ورايته يصلي حافيا ومنتعلا، ورايته ينصرف عن يمينه وعن يساره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ الْحَدَّادُ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ . وَيَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ فِي السَّفَرِ وَيُفْطِرُ، وَرَأَيْتُهُ يَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا، وَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا، وَرَأَيْتُهُ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران سفر روزہ رکھتے ہوئے اور ناغہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا العوام ، حدثني اسود بن مسعود ، عن حنظلة بن خويلد العنبري ، قال: بينما انا عند معاوية، إذ جاءه رجلان يختصمان في راس عمار، يقول كل واحد منهما: انا قتلته، فقال عبد الله بن عمرو : ليطب به احدكما نفسا لصاحبه، فإني سمعت يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله بن احمد: كذا قال ابي: يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" تقتله الفئة الباغية"، فقال معاوية: الا تغني عنا مجنونك يا عمرو؟! فما بالك معنا؟ قال: إن ابي شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اطع اباك ما دام حيا ولا تعصه" فانا معكم ولست اقاتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، حَدَّثَنِي أَسْوَدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ خُوَيْلِدٍ الْعَنْبَرِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فِي رَأْسِ عَمَّارٍ، يَقُولُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بَنْ عَمرو : لِيَطِبْ بِهِ أَحَدُكُمَا نَفْسًا لِصَاحِبِهِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: كَذَا قَالَ أَبِي: يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ"، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: أَلَا تُغْنِي عَنَّا مَجْنُونَكَ يَا عَمْرُو؟! فَمَا بَالُكَ مَعَنَا؟ قَالَ: إِنَّ أَبِي شَكَانِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَطِعْ أَبَاكَ مَا دَامَ حَيًّا وَلَا تَعْصِهِ" فَأَنَا مَعَكُمْ وَلَسْتُ أُقَاتِلُ.
خنظلہ بن خویلد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا دو آدمی ان کے پاس جھگڑا لے کر آئے ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ تھا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو اس نے شہید کیا ہے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تمہیں چاہئے ایک دوسرے کو مبارکباد دو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا سیدہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے پھر آپ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہو اے عمرو! اپنے اس دیوانے سے ہمیں مستغنی کیوں نہیں کر دیتے؟ انہوں نے فرمایا: ”کہ ایک مرتبہ میرے والد صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری شکایت کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تھا زندگی بھر اپنے باپ کی اطاعت کرنا اس کی نافرمانی نہ کرنا اس لئے میں آپ کے ساتھ تو ہوں لیکن لڑائی میں شریک نہیں ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، ومحمد بن يزيد ، قالا: اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قلت: يا رسول الله، اكتب ما اسمع منك؟ قال:" نعم"، قلت: في الرضا والسخط؟ قال:" نعم، فإنه لا ينبغي لي ان اقول في ذلك إلا حقا"، قال محمد بن يزيد في حديثه: يا رسول الله، إني اسمع منك اشياء فاكتبها؟ قال:" نعم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيِدَ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكْتُبُ مَا أَسْمَعُ مِنْكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قُلْتُ: فِي الرِّضَا وَالسُّخْطِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَقُولَ فِي ذَلِكَ إِلَّا حَقًّا"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ فِي حَدِيثِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ أَشْيَاءَ فَأَكْتُبُهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگارہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ سے جو باتیں سنتا ہوں انہیں لکھ لیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں میں نے پوچھا رضامندی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں کیونکہ میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصفر رنگے ہوئے دو کپڑے ان کے جسم پر دیکھے تو فرمایا: ”یہ کافروں کا لباس ہے اسے مت پہنا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا طلاق فيما لا تملكون، ولا عتاق فيما لا تملكون، ولا نذر فيما لا تملكون، ولا نذر في معصية الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا طَلَاقَ فِيمَا لَا تَمْلِكُونَ، وَلَا عَتَاقَ فِيمَا لَا تَمْلِكُونَ، وَلَا نَذْرَ فِيمَا لَا تَمْلِكُونَ، وَلَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس خاتون کا (نکاح یاخرید کرے ذریعہ) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے کا بھی حق نہیں رکھتا اپنے غیر مملوک کو آزاد کر نے کا بھی انسان کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی غیر مملوک چیز کی منت ماننے کا اختیار ہے اور اللہ کی معصیت میں منت نہیں ہوتی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لما فتح على رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قال:" كفوا السلاح، إلا خزاعة عن بني بكر"، فاذن لهم، حتى صلوا العصر، ثم قال:" كفوا السلاح"، فلقي من الغد رجل من خزاعة رجلا من بني بكر بالمزدلفة، فقتله، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام خطيبا، فقال:" إن اعدى الناس على الله من عدا في الحرم، ومن قتل غير قاتله، ومن قتل بذحول الجاهلية"، فقال رجل: يا رسول الله إن ابني فلانا عاهرت بامه في الجاهلية؟ فقال:" لا دعوة في الإسلام، ذهب امر الجاهلية، الولد للفراش، وللعاهر الاثلب"، قيل: يا رسول الله، وما الاثلب؟ قال:" الحجر، وفي الاصابع عشر عشر، وفي المواضح خمس خمس، ولا صلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا تنكح المراة على عمتها، ولا على خالتها، ولا يجوز لامراة عطية إلا بإذن زوجها، اوفوا بحلف الجاهلية، فإن الإسلام لم يزده إلا شدة، ولا تحدثوا حلفا في الإسلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةُ، قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ، إِلَّا خُزَاعَةَ عَنْ بَنِي بَكْرٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ، حَتَّى صَلَّوْا الْعَصْرَ، ثُمَّ قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ"، فَلَقِيَ مِنَ الْغَدِ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ رَجُلًا مِنْ بَنِي بَكْرٍ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَقَتَلَهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ:" إِنَّ أَعْدَى النَّاسِ عَلَى اللَّهِ مَنْ عَدَا فِي الْحَرَمِ، وَمَنْ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ بِذُحُولِ الْجَاهِلِيَّةِ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي فُلَانًا عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ فَقَالَ:" لَا دَعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْأَثْلَبُ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْأَثْلَبُ؟ قَالَ:" الْحَجَرُ، وَفِي الْأَصَابِعِ عَشْرٌ عَشْرٌ، وَفِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلَا عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، َأَوْفُوا بِحِلْفِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ يَزِدْهُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا تُحْدِثُوا حِلْفًا فِي الْإِسْلَامِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بنوخزاعہ کے علاوہ سب لوگ اپنے اسلحے کو روک لو اور بنوخزاعہ کو بنو بکر پر نماز عصرتک کے لئے اجازت دے دی، پھر ان سے بھی فرمایا: ”کہ اسلحہ روک لو اس کے بعد بنوخزاعہ کا ایک آدمی مزدلفہ سے اگلے دن بنو بکر کے ایک آدمی سے ملا اور اسے قتل کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمرخانہ کعبہ کے ساتھ لگا رکھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں لوگوں میں سے اللہ کے معاملے میں سب سے آگے بڑھنے والا وہ شخص ہے جو کسی حرم شریف میں قتل کرے یا کسی ایسے شخص کو قتل کرے جو قاتل نہ ہو یا دور جاہلیت کی دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کرے۔ اسی اثناء میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگے کہ فلاں بچہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں اس دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں جاہلیت کا معاملہ ختم ہوچکا، بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں پھر دیت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں سر کے زخم میں پانچ پانچ اونٹ ہیں پھر نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک بھی کوئی نفل نماز نہیں ہے اور فرمایا: ”کہ کوئی شخص کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا خالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کرے اور کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی عطیہ قبول کر نے کی اجازت نہیں اور زمانہ جاہلیت کے معاہدے پورے کیا کرو کیونکہ اسلام نے اس کی شدت میں اضافہ ہی کیا ہے البتہ اسلام میں ایسا کوئی نیا معاہدہ نہ کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے اگر اللہ اپنے حکم سے اس سے نہ بچاتا تو یہ زمین پر موجود ساری چیزیں تباہ کر دیتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مولى عبد الله بن عمرو.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا حق نہ پہچانے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وعنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رجلا من مزينة وهو يسال النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر نحو حديث ابن إدريس، قال: و ساله عن الثمار وما كان في اكمامه، فقال:" من اكل بفمه، ولم يتخذ خبنة فليس عليه شيء، ومن وجد قد احتمل ففيه ثمنه مرتين وضرب نكال، فما اخذ من جرانه، ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، قال: يا رسول الله، ما نجد في السبيل العامر من اللقطة، قال:" عرفها حولا، فإن جاء صاحبها، وإلا فهي لك"، قال: يا رسول الله، ما نجد في الخرب العادي؟ قال:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ وَهُوَ يَسْأَلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: وَ سَأَلَهُ عَنِ الثِّمَارِ وَمَا كَانَ فِي أَكْمَامِهِ، فَقَالَ:" مَنْ أَكَلَ بِفَمِهِ، وَلَمْ يَتَّخِذْ خُبْنَةً فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَمَنْ وُجِدَ قَدْ احْتَمَلَ فَفِيهِ ثَمَنُهُ مَرَّتَيْنِ وَضَرْبُ نَكَالٍ، فَمَا أَخَذَ مِنْ جِرَانِهِ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَجِدُ فِي السَّبِيلِ الْعَامِرِ مِنَ اللُّقَطَةِ، قَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَجِدُ فِي الْخَرِبِ الْعَادِيِّ؟ قَالَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور فرمایا: ”کہ اس نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھا لئے اور انہیں چھپا کر نہیں ان پر تو کوئی چیز واجب نہیں ہو گی لیکن جو پھل وہ اٹھا کر لے جائے تو اس کی دوگنی قیمت اور پٹائی اور سزا واجب ہو گی اور اگر وہ پھلوں کو خشک کر نے کی جگہ سے چوری کئے گئے اور ان کی مقدار کم از کم ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی آباد علاقے کے راستے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے ایک سال تک اس کی تشہیر کر اؤ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر دو ورنہ وہ تمہاری ہے اس نے کہا کہ اگر یہی چیز کسی ویرانے میں ملے تو؟ فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نتف الشيب، وقال:" هو نور المؤمن"، وقال:" ما شاب رجل في الإسلام شيبة، إلا رفعه الله بها درجة، ومحيت عنه بها سيئة، وكتبت له بها حسنة". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس منا من لم يوقر كبيرنا، ويرحم صغيرنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ، وَقَالَ:" هُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ"، وَقَالَ:" مَا شَابَ رَجُلٌ فِي الْإِسْلَامِ شَيْبَةً، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَمُحِيَتْ عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةٌ، وَكُتِبَتْ لَهُ بِهَا حَسَنَةٌ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید بالوں کو نوچنے سے منع فرمایا ہے کہ یہ مسلمانوں کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت میں اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے یا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام نہ کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته إلى ابي العاص بمهر جديد ونكاح جديد، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: في حديث حجاج رد زينب ابنته، قال: هذا حديث ضعيف، او قال: واه، ولم يسمعه الحجاج من عمرو بن شعيب، إنما سمعه من محمد بن عبيد الله العرزمي، والعرزمي لا يساوي حديثه شيئا، والحديث الصحيح الذي روي ان النبي صلى الله عليه وسلم اقرهما على النكاح الاول.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ إِلَى أَبِي الْعَاصِ بِمَهْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ، قًَالَ عَبِدُ اللهَ بْنُ أَحَمْد: قَالَ أَبِي: فِي حَدِيثِ حَجَّاجٍ رَدَّ زَيْنَبَ ابْنَتَهُ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفٌ، أَوْ قَالَ: وَاهٍ، وَلَمْ يَسْمَعْهُ الْحَجَّاجُ مِنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، إِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيِّ، وَالْعَرْزَمِيُّ لَا يُسَاوِي حَدِيثُهُ شَيْئًا، وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ الَّذِي رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّهُمَا عَلَى النِّكَاحِ الْأَوَّلِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدنا زینب رضی اللہ عنہ کو اپنے داماد ابوالعاص کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے بعد واپس بھیجا تھا۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ حجاج کا سماع عمرو بن شعیب سے ثابت نہیں صحیح حدیث یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کا پہلا نکاح ہی برقرار شمار کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحجاج بن أرطاة كثير الخطأ والتدليس.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاءت امراتان من اهل اليمن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليهما اسورة من ذهب، فقال:" اتحبان ان يسوركما الله باسورة من نار؟" قالتا: لا، قال:" فاديا حق هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَتَانِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِمَا أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللَّهُ بِأَسْوِرَةٍ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لَا، قَالَ:" فَأَدِّيَا حَقَّ هَذَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ دو یمنی عورتیں آئیں جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس بات کو پسند کر تی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ وہ کہنے لگیں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تمہارے ہاتھوں میں جو کنگن ہیں ان کا حق ادا کرو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی مقبول نہیں نیز جس شخص کو اسلام میں حد لگائی گئی ہو یا وہ آدمی جو ناتجربہ کار ہو اس کی گواہی بھی اس کے بھائی کے حق میں مقبول نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن لي ذوي ارحام، اصل ويقطعون، واعفو ويظلمون، واحسن ويسيئون، افاكافئهم؟ قال:" لا، إذا تتركون جميعا، ولكن خذ بالفضل وصلهم، فإنه لن يزال معك من الله ظهير ما كنت على ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي ذَوِي أَرْحَامٍ، أَصِلُ وَيَقْطَعُونَ، وَأَعْفُو وَيَظْلِمُونَ، وَأُحْسِنُ وَيُسِيئُونَ، أَفَأُكَافِئُهُمْ؟ قَالَ:" لَا، إِذًا تُتْرَكُونَ جَمِيعًا، وَلَكِنْ خُذْ بِالْفَضْلِ وَصِلْهُمْ، فَإِنَّهُ لَنْ يَزَالَ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ مَا كُنْتَ عَلَى ذَلِكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتے دار ہیں میں ان سے رشتہ داری جو ڑتاہوں وہ توڑتے ہیں میں ان سے درگزر کرتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں میں ان کے ساتھ اچھاسلوک کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برا کرتے ہیں کیا میں بھی ان کا بدلہ دے سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ورنہ تم سب کو چھوڑ دیا جائے گا تم فضیلت والا پہلواختیار کرو اور ان سے صلہ رحمی کرو اور جب تک تم ایسا کرتے رہو گے اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ مستقل ایک معاون لگا رہے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ہدیئے کو واپس مانگنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی کتا قے کر کے اس کو چاٹ لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن إبراهيم بن عامر ، عن سعيد بن المسيب ، وعن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ جاء رجل ينتف شعره، ويدعو ويله! فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مالك"، قال: وقع على امراته في رمضان، قال:" اعتق رقبة"، قال: لا اجدها، قال:" صم شهرين متتابعين"، قال: لا استطيع، قال:" اطعم ستين مسكينا"، قال: لا اجد، قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق فيه خمسة عشر صاعا من تمر، قال:" خذ هذا فاطعمه عنك ستين مسكينا"، قال: يا رسول الله، ما بين لابتيها اهل بيت افقر منا، قال:" كله انت وعيالك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَعَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ يَنْتِفُ شَعَرَهُ، وَيَدْعُو وَيْلَهُ! فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَالَكَ"، قَالَ: وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ فِي رَمَضَانَ، قَالَ:" أَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: لَا أَجِدُهَا، قَالَ:" صُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، قَالَ:" أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَ: لَا أَجِدُ، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، قَالَ:" خُذْ هَذَا فَأَطْعِمْهُ عَنْكَ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنَّا، قَالَ:" كُلْهُ أَنْتَ وَعِيَالُكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص اپنے بال نوچتا اور واویلا کرتا ہوا آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میں نے رمضان کے مہینے میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کر لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کر دو اس نے کہا کہ میرے پاس غلام نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھ لو اس نے کہا مجھ میں اتنی طاقت نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو اس نے کہا کہ میرے پاس اتنا کہاں؟ نبی کریم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ اتنی دیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے ایک بڑا ٹوکر ا آیا جس میں پندرہ صاع کھجوریں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لے جاؤ اور اپنی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلادو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ!! مدینہ منورہ کے اس کونے سے لے کر اس کونے تک ہم سے زیادہ ضرورت مند گھرانہ کوئی نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکر ا کر فرمایا: ”جاؤ تم اور تمہارے اہل خانہ ہی اسے کھالیں۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير ، ان نوفا، وعبد الله بن عمرو اجتمعا، فقال نوف: فذكر الحديث، فقال عبد الله بن عمرو بن العاص : وانا احدثك، عن النبي صلى الله عليه وسلم صلينا مع النبي صلى الله عليه وسلم، ذات ليلة فعقب من عقب، ورجع من رجع، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يثور الناس بصلاة العشاء، فجاء وقد حفزه النفس، رافعا إصبعه هكذا، وعقد تسعا وعشرين، واشار بإصبعه السبابة إلى السماء، وهو يقول:" ابشروا معشر المسلمين، هذا ربكم عز وجل قد فتح بابا من ابواب السماء، يباهي بكم الملائكة، يقول: يا ملائكتي، انظروا إلى عبادي هؤلاء ادوا فريضة وهم ينتظرون اخرى".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، أَنَّ نَوْفًا، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو اجْتَمَعَا، فَقَالَ نَوْفٌ: فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ العاص : وَأَنَا أُحَدِّثُكَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ لَيْلَةٍ فَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ، وَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَثُورَ النَّاسُ بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَجَاءَ وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، رَافِعًا إِصْبَعَهُ هَكَذَا، وَعَقَدَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَى السَّمَاءِ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَبْشِرُوا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، هَذَا رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ، يُبَاهِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ، يَقُولُ: يَا مَلَائِكَتِي، انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي هَؤُلَاءِ أَدَّوْا فَرِيضَةً وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ أُخْرَى".
ایک مرتبہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور نوف کسی مقام پر جمع ہوئے نوف کہنے لگے۔۔۔۔ پھر راوی نے حدیث ذکر کی اور کہا کہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ایک دن مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جانے والے چلے گئے اور بعد میں آنے والے بعد میں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس پھولا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اٹھا کر انتیس کا عدد بنایا اور آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”اے گروہ مسلمین تمہیں خوشخبری ہو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور وہ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ان بندوں نے ایک فرض ادا کر دیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد.
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق ، وهوذة بن خليفة ، قالا: حدثنا عوف ، عن ميمون بن استاذ ، قال هوذة: الهزاني، قال: قال عبد الله بن عمرو : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من لبس الذهب من امتي، فمات وهو يلبسه، لم يلبس من ذهب الجنة"، وقال هوذة: حرم الله عليه ذهب الجنة، ومن لبس الحرير من امتي، فمات وهو يلبسه، حرم الله عليه حرير الجنة، قال عبد الله بن احمد ضرب ابي على هذا الحديث، فظننت انه ضرب عليه لانه خطا، وإنما هو ميمون بن استاذ، عن عبد الله بن عمرو، وليس فيه عن الصدفي، ويقال: إن ميمون هذا هو الصدفي لان سماع يزيد بن هارون من الجريري آخر عمره، والله اعلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ ، وَهَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَسْتَاذَ ، قَالَ هَوْذَةُ: الهِزَّانِيُّ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لَبِسَ الذَّهَبَ مِنْ أُمَّتِي، فَمَاتَ وَهُوَ يَلْبَسُهُ، لَمْ يَلْبَسْ مِنْ ذَهَبِ الْجَنَّةِ"، وَقَالَ هَوْذَةُ: حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ ذَهَبَ الْجَنَّةِ، وَمَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ مِنْ أُمَّتِي، فَمَاتَ وَهُوَ يَلْبَسُهُ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ حَرِيرَ الْجَنَّةِ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بن أحمد ضَرَبَ أَبِي عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ضَرَبَ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ خَطَأٌ، وَإِنَّمَا هُوَ مَيْمُونُ بْنُ أَسْتَاذَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَيْسَ فِيهِ عَنِ الصَّدَفِيِّ، وَيُقَالُ: إِنَّ مَيْمُونَ هَذَا هُوَ الصَّدَفِيُّ لِأَنَّ سَمَاعَ يَزِيدَ بْنِ هَارُونَ مِنَ الْجُرَيْرِيِّ آخِرَ عُمُرِهِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری امت میں سے جو شخص سونا پہنتا ہے اور اسی حال میں مرجاتا ہے وہ جنت کا سونا نہیں پہن سکے گا یا یہ کہ اللہ اس پر جن کا سونا حرام قرار دے دیتا ہے اور میری امت میں جو شخص ریشم پہنتا ہے اور اسی حال میں میں مرجاتا ہے اللہ اس پر جنت کا ریشم حرام قرار دے دیتا ہے عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والدامام احمدرحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کاٹ دیا تھا کیونکہ اس میں سند کی غلطی پائی جاتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الجريري ، عن ميمون بن استاذ ، عن الصدفي ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من مات من امتي وهو يشرب الخمر، حرم الله عليه شربها في الجنة، ومن مات من امتي وهو يتحلى الذهب، حرم الله عليه لباسه في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَسْتَاذَ ، عَنِ الصَّدَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي وَهُوَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ شُرْبَهَا فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي وَهُوَ يَتَحَلَّى الذَّهَبَ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ لِبَاسَهُ فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری امت میں سے جو شخص شراب پیتا ہے اور اسی حال میں مرجاتا ہے اللہ اس پر جنت کی شراب حرام قرار دے دیتا ہے اور میری امت میں سے جو شخص سونا پہنتا ہے اور اسی حال میں میں مرجاتا ہے اللہ اس پر جنت کا سونا حرام قرار دے دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن هارون سمع من الجريري بعد ما اختلط.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام سے سو اوقیہ بدل کتابت اداء کر نے پر آزادی کا وعدہ کر لیا جائے اور وہ نوے اوقیہ ادا کر دے تب بھی وہ غلام ہی رہے گا (تا آنکہ مکمل ادائیگی کر دے)
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن رحم کو چرخے کی طرح ٹیڑھی شکل میں پیش کیا جائے گا اور وہ انتہائی فصیح وبلیغ زبان میں گفتگو کر رہا ہو گا جس نے اسے جوڑا ہو گا وہ اسے جوڑ دے گا اور جس نے اسے توڑا ہو گا وہ اسے توڑ دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى ثمامة الثقفي.
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا حماد ، عن ثابت ، عن شعيب بن عبد الله بن عمرو ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له:" صم يوما ولك عشرة ايام"، قال: زدني يا رسول الله إن بي قوة، قال:" صم يومين ولك تسعة ايام"، قال: زدني فإني اجد قوة، قال:" صم ثلاثة ايام ولك ثمانية ايام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" صُمْ يَوْمًا وَلَكَ عَشَرَةُ أَيَّامٍ"، قَالَ: زِدْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ بِي قُوَّةً، قَالَ:" صُمْ يَوْمَيْنِ وَلَكَ تِسْعَةُ أَيَّامٍ"، قَالَ: زِدْنِي فَإِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ:" صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ ثَمَانِيَةُ أَيَّامٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھو تو دس کا ثواب ملے گا میں نے اس میں اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو تمہیں نو کا ثواب ملے گا میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”تین روزے رکھو تمہیں آٹھ روزوں کا ثواب ملے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو داود ، وعبد الصمد ، المعنى قالا: حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن شهر ، قال: اتى عبد الله بن عمرو على نوف يعني البكالي وهو يحدث، فقال: حدث، فإنا قد نهينا، عن الحديث، قال: ما كنت لاحدث وعندي رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم من قريش، فقال عبد الله بن عمرو سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ستكون هجرة بعد هجرة فخيار الارض قال عبد الصمد لخيار الارض إلى مهاجر إبراهيم، فيبقى في الارض شرار اهلها، تلفظهم الارض، وتقذرهم نفس الله عز وجل، وتحشرهم النار مع القردة والخنازير". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثم قال: حدث فإنا قد نهينا عن الحديث، فقال: ما كنت لاحدث وعندي رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم من قريش، ثم قال: حدث فإنا قد نهينا عن الحديث، فقال: ما كنت لاحدث وعندي رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم من قريش، فقال عبد الله بن عمرو، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول:" يخرج قوم من قبل المشرق، يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، كلما قطع قرن نشا قرن، حتى يخرج في بقيتهم الدجال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ شَهْرٍ ، قَالَ: أَتَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَلَى نَوْفٍ يعني الْبِكَالِيِّ وَهُوَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ: حَدِّثْ، فَإِنَّا قَدْ نُهِينَا، عَنِ الْحَدِيثِ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأُحَدِّثُ وَعِنْدِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ فَخِيَارُ الْأَرْضِ قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ لَخِيَارُ الْأَرْضِ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، فَيَبْقَى فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ الْأَرْضُ، وَتَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَحْشُرُهُمْ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ: حَدِّثْ فَإِنَّا قَدْ نُهِينَا عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأُحَدِّثُ وَعِنْدِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مِنْ قُرَيْشٍ، ثُمَّ قَالَ: حَدِّثْ فَإِنَّا قَدْ نُهِينَا عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأُحَدِّثُ وَعِنْدِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهو يَقُولُ:" يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا قُطِعَ قَرْنٌ نَشَأَ قَرْنٌ، حَتَّى يَخْرُجَ فِي بَقِيَّتِهِمْ الدَّجَّالُ".
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ جب ہمیں یزید بن معاویہ کی بیعت کی اطلاع ملی تو میں شام آیا مجھے ایک ایسی جگہ کا پتہ معلوم ہوا جہاں نوف کھڑے ہو کر بیان کرتے تھے میں ان کے پاس پہنچا اسی اثناء میں ایک آدمی کے آنے پر لوگوں میں ہلچل مچ گئی جس نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی دیکھا تو وہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ تھے نوف نے انہیں دیکھ کر ان کے احترام میں حدیث بیان کرنا چھوڑ دی اور سیدنا عبداللہ کہنے لگے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب اس ہجرت کے بعد ایک اور ہجرت ہو گی جس میں لوگ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت گاہ میں جمع ہو جائیں گے زمین میں صرف بدترین لوگ رہ جائیں گے ان کی زمین انہیں پھینک دے گی اور اللہ کی ذات انہیں پسند نہیں کرے گی آگ انہیں بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کر لے گی۔ پھر فرمایا: ”تم حدیث بیان کرو کیونکہ ہمیں تو اس سے روک دیا گیا ہے نوف نے کہا کہ صحابی رسول اللہ اور وہ بھی قریشی کی موجودگی میں حدیث بیان نہیں کر سکتا چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مشرق کی جانب سے ایک قوم نکلے گی یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی ایک نسل ختم ہو گی دوسری پیدا ہو جائے گی یہاں تک کہ ان کے آخر میں دجال نکل آئے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، ولبعضه شواهد يصح بها.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الجواب ، حدثنا عمار بن رزيق ، عن الاعمش ، عن ابي سعد ، قال: اتيت عبد الله بن عمرو ، فقلت حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ولا تحدثني عن التوراة والإنجيل، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَابِ ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، فَقُلْتُ حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: وَلَا تُحَدِّثْنِي عَنِ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
ابوسعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے وہ حدیث پوچھتا ہوں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے وہ نہیں پوچھتاجو تورات میں ہے انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقی مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی باتوں سے رک جائے۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص خوب اچھی طرح غسل کرے اور صبح سویرے ہی جمعہ کے لئے روانہ ہو جائے امام کے قریب بیٹھے توجہ سے اس کی بات سنے اور خاموشی اختیار کرے اسے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھائے ایک سال کے قیام وصیام کا ثواب ملے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عثمان الشامي.
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، اخبرنا ابو إسرائيل ، عن الحكم ، عن هلال الهجري ، قال: قلت لعبد الله بن عمرو حدثني حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه"، قال ابو عبد الرحمن هو عبدا الله بن احمد هذا خطا، إنما هو الحكم، عن سيف، عن رشيد الهجري.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ هِلَالٍ الْهَجَرِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هو عَبْدُا اللهَ بن أحمد هَذَا خَطَأٌ، إِنَّمَا هُوَ الْحَكَمُ، عَنْ سَيْفٍ، عَنْ رُشَيْدٍ الْهَجَرِيِّ.
ہلال کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے وہ حدیث پوچھتا ہوں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے وہ نہیں پوچھتاجو تورات میں ہے انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقی مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی باتوں سے رک جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده غاية فى الضعف كما تقدم حال رجاله برقم:6835، ومتن الحديث صحيح سلف تخريجه برقم: 6487.
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا محمد بن ابي حفصة ، حدثنا ابن شهاب ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، واتاه رجل يوم النحر، وهو واقف عند الجمرة، فقال: يا رسول الله، إني حلقت قبل ان ارمي؟ فقال:" ارم ولا حرج"، واتاه آخر، فقال: إني ذبحت قبل ان ارمي؟ قال:" ارم ولا حرج"، واتاه آخر، فقال إني افضت قبل ان ارمي؟ قال:" ارم ولا حرج"، قال: فما رايته سئل يومئذ عن شيء إلا قال:" افعل ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَتَاهُ رَجُلٌ يَوْمَ النَّحْرِ، وَهُوَ وَاقِفٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ فَقَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، وَأَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ: إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، وَأَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُهُ سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروا لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، اخبرني حصين ، سمعت مجاهدا يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لكل عمل شرة، ولكل شرة فترة، فمن كانت فترته إلى سنتي، فقد افلح، ومن كانت إلى غير ذلك فقد هلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي حُصَيْنٌ ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِكُلِّ عَمَلٍ شِرَّةٌ، وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ، فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّتِي، فَقَدْ أَفْلَحَ، وَمَنْ كَانَتْ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَقَدْ هَلَكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر عمل میں ایک تیزی ہوتی ہے اور ہر تیزی کا ایک انقطاع ہوتا ہے یا سنت کی طرف یا بدعت کی طرف جس کا انقطاع سنت کی طرف ہو تو وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جس کا انقطاع کسی اور چیز کی طرف ہو تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا حاتم بن ابي صغيرة ، حدثنا ابو بلج ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من قال: لا إله إلا الله، والله اكبر، والحمد لله، وسبحان الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله، كفرت ذنوبه، وإن كانت مثل زبد البحر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَلْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، كُفِّرَتْ ذُنُوبُهُ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روئے زمین پر جو آدمی بھی یہ کہہ لے لاالہ الا اللہ واللہ اکبر، والحمدللہ و سبحان اللہ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ، یہ جملے اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، لكن اختلف فى رفعه ووقفه، والموقوف أصح.
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، سمعت صهيبا مولى عبد الله بن عامر، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه، قال:" من قتل عصفورا في غير شيء إلا بحقه، ساله الله عز وجل عنه يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ صُهَيْبًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا فِي غَيْرِ شَيْءٍ إِلَّا بِحَقِّهِ، سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ناحق کسی چڑیا کو بھی مارے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس کی باز پرس کرے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة صهيب مولى ابن عامر.
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا محمد بن ابي حميد ، اخبرني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: كان اكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة:" لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، بيده الخير، وهو على كل شيء قدير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعاء پڑھتے تھے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں حکومت اور تعریف اسی کی ہے ہر طرح کی خیر اسی کے دست قدرت میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن أبى حميد.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر الحنفي ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تنتفوا الشيب، فإنه نور المسلم، من شاب شيبة في الإسلام، كتب الله له بها حسنة، وكفر عنه بها خطيئة، ورفعه بها درجة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ، فَإِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ، مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً، وَكَفَّرَ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً، وَرَفَعَهُ بِهَا دَرَجَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سفیدبالوں کو مت نوچا کرو کیونکہ یہ مسلمان کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے یا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک شخص ادا کرتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرم خوئی کا مظاہرہ کر نے کی وجہ سے جنت میں چلا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن الحسن ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوم الساعة حتى ياخذ الله شريطته من اهل الارض، فيبقى فيها عجاجة، لا يعرفون معروفا، ولا ينكرون منكرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَأْخُذَ اللَّهُ شَرِيطَتَهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَبْقَى فِيهَا عَجَاجَةٌ، لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک اللہ اہل زمین میں اپناحصہ وصول نہ کر لے اس کے بعد زمین میں گھٹیا لوگ رہ جائیں گے جو نیکی کو نیکی اور گناہ کو گناہ نہیں سمجھیں گے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات رجال الشيخين إلا أن فيه الحسن البصري وقد روى مرفوعا وموقوفا، والأشبه وقفه.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي ايوب ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" وقت الظهر إذا زالت الشمس وكان ظل الرجل كطوله، ما لم يحضر العصر، ووقت العصر ما لم تصفر الشمس، ووقت صلاة المغرب ما لم يغرب الشفق، ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل الاوسط، ووقت صلاة الصبح من طلوع الفجر، ما لم تطلع الشمس، فإذا طلعت الشمس فامسك عن الصلاة، فإنها تطلع بين قرني شيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ، مَا لَمْ يَحْضُرْ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغْرُبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ، مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر کا وقت زوال شمس کے وقت ہوتا ہے جب کہ ہر آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہو اور یہ اس وقت تک رہتا ہے جس تک عصر کا وقت نہ ہو جائے عصر کا وقت سورج کے پیلا ہونے سے پہلے تک ہے مغرب کا وقت غروب شفق سے پہلے تک ہے عشاء کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے۔
قال قتادة: وحدثني عقبة بن وساج، عن ابي الدرداء، قال: وهل يفعل ذلك إلا كافر؟!.قَالَ قَتَادَةُ: وَحَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ وَسَّاجٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: وَهَلْ يَفْعَلُ ذَلِكَ إِلَّا كَافِرٌ؟!.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنی بیوی کے پچھلے سوراخ میں آتا ہے وہ لواطت صغری کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: قوله: قال قتاده. موصول بالإسناد الذى قبله، وهو إسناد صحيح.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی بات پر قسم کھائے اور اس کے علاوہ کسی دوسری چیز میں خیر دیکھے تو اسے ترک کر دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا خليفة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبهم وهو مسند ظهره إلى الكعبة، فقال:" لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد صلاة الغداة حتى تطلع الشمس، والمؤمنون تكافا دماؤهم، يسعى بذمتهم ادناهم، وهم يد على من سواهم، الا لا يقتل مؤمن بكافر، ولا ذو عهد في عهده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا خَلِيفَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَهُمْ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَقَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَالْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر خانہ کعبہ کے ساتھ لگا کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”نماز فجر کے بعدطلوع آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک بھی کوئی نفل نماز نہیں ہے اور تمام مسلمانوں کا خون برابر ہے اور ان میں سے ادنیٰ کی ذمہ داری بھی پوری کی جائے گی اور وہ اپنے علاوہ سب پر ایک ہاتھ ہیں خبردار کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے یا کسی ذمی کو اس کی مدت میں قتل نہ کیا جائے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ فلاں بچہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں اس دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصفر سے رنگے ہوئے دو کپڑے ان کے جسم پر دیکھے تو فرمایا: ”یہ کافروں کا لباس ہے اسے مت پہنا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن بكر يعني السهمي ، حدثنا حاتم ، عن ابي بلج ، عن عمرو بن ميمون ، انه اخبره انه سمع عبد الله بن عمرو ، يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ما على الارض رجل يقول لا إله إلا الله، والله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، ولا حول ولا قوة إلا بالله، إلا كفرت عنه من ذنوبه، وإن كانت مثل زبد البحر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ يَعْنِي السَّهْمِيَّ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا عَلَى الْأَرْضِ رَجُلٌ يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، إِلَّا كَفَّرَتْ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روئے زمین پر جو آدمی بھی یہ کہہ لے لاالہ الا اللہ واللہ اکبر، والحمد للہ و سبحان اللہ ولاحول ولا قوۃ الاباللہ، یہ جملے اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا قرة ، عن الحسن ، قال: والله لقد زعموا، ان عبد الله بن عمرو شهد بها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" إن شرب الخمر فاجلدوه، ثم إن شرب فاجلدوه، ثم إن شرب فاجلدوه، فإذا كان عند الرابعة فاضربوا عنقه"، قال: فكان عبد الله بن عمرو، يقول: ائتوني برجل قد جلد في الخمر اربع مرات، فإن لكم علي ان اضرب عنقه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ زَعَمُوا، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو شَهِدَ بِهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِنْ شَرِبَ فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِنْ شَرِبَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّابِعَةِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ"، قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، يَقُولُ: ائْتُونِي بِرَجُلٍ قَدْ جُلِدَ فِي الْخَمْرِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّ لَكُمْ عَلَيَّ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص شراب پیئے اسے کوڑے مارو دوبارہ پیئے تو دوبارہ کوڑے مارو اور چوتھی مرتبہ پینے پر اسے قتل کر دو اس بناء پر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میرے پاس ایسے شخص کو لے کر آؤ جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی ہو میرے ذمے اسے قتل کرنا واجب ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الحسن البصري صرح أنه لم يسمعه من عبد الله بن عمرو.
(حديث مرفوع) حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا ابن ابي الزناد ، عن عبد الرحمن بن الحارث ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى اعرابي قائما في الشمس، وهو يخطب، فقال:" ما شانك"، قال: نذرت يا رسول الله، ان لا ازال في الشمس حتى تفرغ! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس هذا نذرا، إنما النذر ما ابتغي به وجه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ إِلَى أَعْرَابِيٍّ قَائِمًا فِي الشَّمْسِ، وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ"، قَالَ: نَذَرْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ لَا أَزَالَ فِي الشَّمْسِ حَتَّى تَفْرُغَ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ هَذَا نَذْرًا، إِنَّمَا النَّذْرُ مَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کو دھوپ میں کھڑے ہوئے دیکھا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تمہارا کیا معاملہ ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے یہ منت مانی ہے کہ آپ کے خطبہ کے اختتام تک اسی طرح دھوپ میں کھڑا رہوں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ منت نہیں ہے منت تو وہ ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا ابو بشر ، عن يوسف بن ماهك ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرناها، فادركنا وقد ارهقتنا صلاة العصر، ونحن نتوضا، فجعلنا نمسح على ارجلنا، فنادى باعلى صوته:" ويل للاعقاب من النار" مرتين او ثلاثا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا صَلَاةُ الْعَصْرِ، وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ" مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں پیچھے رہ گئے اور ہمارے قریب اس وقت پہنچے جبکہ نماز عصر کا وقت بالکل قریب آگیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے ہم اپنے اپنے پاؤں پر مسح کر نے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند دو تین مرتبہ فرمایا: ”ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اس نے وہ پھینک کر لوہے کی انگوٹھی بنوا لی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اس سے بھی بری ہے یہ تو اہل جہنم کا زیور ہے اس نے وہ پھینک کر چاندی کی انگوٹھی بنوا لی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرمایا: ”۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن حجر اسود جب آئے گا تو وہ جبل ابو قبیس سے بڑا ہو گا اور اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله بن المؤمل.
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن زياد بن فياض ، عن ابي عياض ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجتنبوا من الاوعية الدباء، والمزفت، والحنتم"، قال شريك: وذكر اشياء، قال: فقال له اعرابي: لا ظروف لنا؟ فقال:" اشربوا ما حل، ولا تسكروا"، اعدته على شريك، فقال:" اشربوا، ولا تشربوا مسكرا، اولا تسكروا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ فَيَّاضٍ ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْتَنِبُوا مِنَ الْأَوْعِيَةِ الدُّبَّاءَ، وَالْمُزَفَّتَ، وَالْحَنْتَمَ"، قَالَ شَرِيكٌ: وَذَكَرَ أَشْيَاءَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَعْرَابِيٌّ: لَا ظُرُوفَ لَنَا؟ فَقَالَ:" اشْرَبُوا مَا حَلَّ، وَلَا تَسْكَرُوا"، أَعَدْتُهُ عَلَى شَرِيكٍ، فَقَالَ:" اشْرَبُوا، وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا، أوَلَا تَسْكَرُوا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دباء، مزفت اور حنتم نامی برتنوں کو استعمال کر نے سے بچو ایک دیہاتی کہنے لگا کہ ہمارے پاس تو ان کے علاوہ کوئی برتن نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس میں صرف حلال مشروبات پیو، نشہ آور چیزیں مت پیو کہ تم پر نشہ طاری ہو جائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، شريك سيئ الحفظ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب ایک ایسا فتنہ رونما ہو گا جس کی طرف اہل عرب مائل ہو جائیں گے اس فتنے میں مرنے والے جہنم میں ہوں گے اور اس میں زبان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے زیادہ سخت ہو گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ليث، وجهالة حال زياد بن سيماكوش.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ابن لهيعة ، عن عبد الله بن هبيرة ، عن عبد الرحمن بن جبير ، قال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما كالمودع، فقال:" انا محمد النبي الامي، انا محمد النبي الامي، انا محمد النبي الامي، ثلاثا، ولا نبي بعدي، اوتيت فواتح الكلم، وجوامعه، وخواتمه وعلمت كم خزنة النار، وحملة العرش، وتجوز بي، وعوفيت، وعوفيت امتي، فاسمعوا واطيعوا ما دمت فيكم، فإذا ذهب بي، فعليكم بكتاب الله، احلوا حلاله، وحرموا حرامه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا كَالْمُوَدِّعِ، فَقَالَ:" أَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ، أَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ، أَنا مُحَّمدٌ النَّبيُّ الأُمَّيُّ، ثَلَاثًا، وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي، أُوتِيتُ فَوَاتِحَ الْكَلِمِ، وَجَوَامِعَهُ، وَخَوَاتِمَهُ وَعَلِمْتُ كَمْ خَزَنَةُ النَّارِ، وَحَمَلَةُ الْعَرْشِ، وَتُجُوِّزَ بِي، وَعُوفِيتُ، وَعُوفِيَتْ أُمَّتِي، فَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا مَا دُمْتُ فِيكُمْ، فَإِذَا ذُهِبَ بِي، فَعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، أَحِلُّوا حَلَالَهُ، وَحَرِّمُوا حَرَامَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہمارے پاس تشریف لائے جیسے کوئی رخصت کر نے والا ہوتا ہے اور تین مرتبہ فرمایا: ”میں محمد ہوں نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مجھے ابتدائی کلمات، اختتامی کلمات اور جامع کلمات بھی دئیے گئے ہیں میں جانتا ہوں کہ جہنم کے نگران فرشتے اور عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد کتنی ہے؟ مجھ سے تجاوز کیا جا چکا مجھے اور میری امت کو عافیت عطاء فرما دی گئی اس لئے جب تک میں تمہارے درمیان رہوں میری بات سنتے اور مانتے رہو اور جب مجھے لے جایا جائے تو کتاب اللہ کو اپنے اوپر لازم پکڑ لو اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کے حرام کو حرام سمجھو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا زكريا ، عن الشعبي ، قال: سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقدیر پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، قال: كنا جلوسا عند ابي عبيدة، فذكروا الرياء، فقال رجل يكنى: بابي يزيد ، سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سمع الناس بعمله سمع الله به سامع خلقه يوم القيامة، فحقره وصغره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَذَكَرُوا الرِّيَاءَ، فَقَالَ رَجُلٌ يُكْنَى: بِأَبِي يَزِيدَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَمَّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ سَامِعَ خَلْقِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَحَقَّرَهُ وَصَغَّرَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے عمل کے ذریعے لوگوں میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا يونس يعني ابن ابي إسحاق ، عن هلال بن خباب ابي العلاء ، قال: حدثني عكرمة ، حدثني عبد الله بن عمرو ، قال: بينما نحن حول رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ ذكروا الفتنة، او ذكرت عنده، قال:" إذا رايت الناس قد مرجت عهودهم، وخفت اماناتهم، وكانوا هكذا"، وشبك بين اصابعه، قال: فقمت إليه، فقلت له: كيف افعل عند ذلك، جعلني الله فداك؟ قال:" الزم بيتك، واملك عليك لسانك، وخذ ما تعرف، ودع ما تنكر، وعليك بامر خاصة نفسك، ودع عنك امر العامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ أَبِي الْعَلَاءِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ ذَكَرُوا الْفِتْنَةَ، أَوْ ذُكِرَتْ عِنْدَهُ، قَالَ:" إِذَا رَأَيْتَ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ، وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ، وَكَانُوا هَكَذَا"، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: كَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ؟ قَالَ:" الْزَمْ بَيْتَكَ، وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَخُذْ مَا تَعْرِفُ، وَدَعْ مَا تُنْكِرُ، وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ، وَدَعْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگردبیٹھے ہوئے تھے کہ فتنوں کا تذکر ہ ہونے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس وقت ہو گا جب وعدوں اور امانتوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور لوگ اس طرح ہو جائیں (راوی نے تشبیک کر کے دکھائی) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس وقت میرے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ”اپنے گھر کو لازم پکڑنا اپنی زبان کو قابو میں رکھنا نیکی کے کام اختیار کرنا برائی کے کاموں سے بچنا اور خواص کے ساتھ میل جول رکھنا عوام سے اپنے آپ کو بچانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن بكر ، حدثنا عبيد الله بن الاخنس ابو مالك الازدي ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا نذر ولا يمين فيما لا يملك ابن آدم، ولا في معصية الله عز وجل، ولا قطيعة رحم، فمن حلف على يمين فراى غيرها خيرا منها، فليدعها، وليات الذي هو خير، فإن تركها كفارتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ الْأَزْدِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نَذْرَ وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ، وَلَا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا قَطِيعَةِ رَحِمٍ، فَمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَدَعْهَا، وَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان چیزوں میں منت یا قسم نہیں ہوتی جن کا انسان مالک نہ ہو یا وہ اللہ کی نافرمانی کے کام ہوں یا قطع رحمی ہو جو شخص کسی بات پر قسم کھالے پھر کسی اور چیز میں خیر نظر آئے تو پہلے والے کام کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کر لے کیونکہ اس کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، قال: وحدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: لما فتحت مكة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كفوا السلاح"، فذكر نحو حديث يحيى، ويزيد، وقال فيه:" واوفوا بحلف الجاهلية، فإن الإسلام لم يزده إلا شدة، ولا تحدثوا حلفا في الإسلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُفُّوا السِّلَاحَ"، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ يَحْيَى، وَيَزِيدَ، وَقَالَ فِيهِ:" وَأَوْفُوا بِحِلْفِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ لَمْ يَزِدْهُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا تُحْدِثُوا حِلْفًا فِي الْإِسْلَامِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بنو خزاعہ کے علاوہ سب لوگوں سے اپنے اسلحے کو روک لو پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ زمانہ جاہلیت کے معاہدوں کو پورا کرو کیونکہ اسلام نے ان کی شدت ہی میں اضافہ کیا ہے البتہ اسلام میں کوئی ایسا نیا معاہدہ نہ کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن ابي بكير ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، سمعت ابا ايوب الازدي يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، قال: لم يرفعه مرتين، قال: وسالته الثالثة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وقت صلاة الظهر ما لم يحضر العصر، ووقت صلاة العصر، ما لم تصفر الشمس، ووقت صلاة المغرب ما لم يسقط نور الشفق، ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل، ووقت صلاة الفجر ما لم تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، سَمِعْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَزْدِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: لَمْ يَرْفَعْهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: وَسَأَلْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَقْتُ صَلَاةِ الظُّهْرِ مَا لَمْ يَحْضُرْ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ نُورُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک عصر کا وقت نہ ہو جائے عصر کا وقت سورج کے پیلا ہونے سے پہلے تک ہے مغرب کا وقت غروب شفق سے پہلے تک ہے عشاء کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا إبراهيم بن إسحاق الطالقاني ، حدثنا ابن مبارك ، عن ليث بن سعد ، حدثني عامر بن يحيى ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، قال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل يستخلص رجلا من امتي على رءوس الخلائق يوم القيامة، فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا، كل سجل مد البصر، ثم يقول له: اتنكر من هذا شيئا؟ اظلمتك كتبتي الحافظون؟ قال: لا، يا رب، فيقول: الك عذر، او حسنة؟ فيبهت الرجل، فيقول: لا، يا رب، فيقول: بلى، إن لك عندنا حسنة واحدة، لا ظلم اليوم عليك، فتخرج له بطاقة، فيها اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله، فيقول: احضروه، فيقول: يا رب، ما هذه البطاقة مع هذه السجلات؟! فيقال: إنك لا تظلم، قال: فتوضع السجلات في كفة، قال: فطاشت السجلات، وثقلت البطاقة، ولا يثقل شيء بسم الله الرحمن الرحيم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَسْتَخْلِصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا، كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ أَظَلَمَتْكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ؟ قَالَ: لَا، يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: أَلَكَ عُذْرٌ، أَوْ حَسَنَةٌ؟ فَيُبْهَتُ الرَّجُلُ، فَيَقُولُ: لَا، يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً وَاحِدَةً، لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ، فَتُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ، فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: أَحْضِرُوهُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ؟! فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ، قَالَ: فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ، وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ، وَلَا يَثْقُلُ شَيْءٌ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ ساری مخلوق کے سامنے میرے ایک امتی کو باہر نکالے گا اور اس کے سامنے ننانوے رجسڑ کھولے گا جن میں سے ہر رجسڑ تاحد نگاہ ہو گا اور اس سے فرمائے گا کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے محافظ کاتبین نے تجھ پر ظلم کیا ہے۔؟ وہ کہے گا نہیں اے پروردگار اللہ فرمائے گا کیا تیرے پاس کوئی عذر یا کوئی نیکی ہے؟ وہ آدمی مبہوت ہو کر کہے گا نہیں اے پروردگار اللہ فرمائے گا کیوں نہیں ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا چنانچہ کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہو گا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ فرمائے گا اسے میزان عمل کے پاس حاضر کرو وہ عرض کرے گا کہ پروردگار کاغذ کے اس پرزے کا اتنے بڑے رجسڑوں کے ساتھ کیا مقابلہ؟ اس سے کہا جائے گا کہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا چنانچہ ان رجسڑوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا ان کا پلڑا اوپر ہو جائے گا اور کاغذ کے اس پرزے والا پلڑا جھک جائے گا کیونکہ اللہ کے نام سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں جو رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے بعد کوئی شخص کسی ایک عورت کے پاس تنہا نہ جائے جس کا شوہر موجود نہ ہو الاّ یہ کہ اس کے ساتھ ایک اور یا دو آدمی ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں کبھی کسی عورت کے پاس تنہا نہیں گیا الاّ یہ کہ میرے ساتھ ایک دو آدمی ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب بن زياد ، حدثنا عبد الله يعني ابن مبارك ، اخبرنا عبد الله بن شوذب ، قال: حدثني عامر بن عبد الواحد ، عن عبد الله بن بريدة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يقسم غنيمة امر بلالا رضي الله تعالى عنه، فنادى ثلاثا، فاتى رجل بزمام من شعر إلى النبي صلى الله عليه وسلم، بعد ان قسم الغنيمة، فقال: يا رسول الله، هذه من غنيمة كنت اصبتها، قال:" اما سمعت بلالا ينادي ثلاثا؟" قال: نعم، قال:" فما منعك ان تاتيني به؟" فاعتل له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إني لن اقبله، حتى تكون انت الذي توافيني به يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَوْذَبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العاص ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْسِمَ غَنِيمَةً أَمَرَ بِلَالًا رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَنَادَى ثَلَاثًا، فَأَتَى رَجُلٌ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ أَنْ قَسَمَ الْغَنِيمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ مِنْ غَنِيمَةٍ كُنْتُ أَصَبْتُهَا، قَالَ:" أَمَا سَمِعْتَ بِلَالًا يُنَادِي ثَلَاثًا؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟" فَاعْتَلَّ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَنْ أَقْبَلَهُ، حَتَّى تَكُونَ أَنْتَ الَّذِي تُوَافِينِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مال غنیمت تقسیم کر نے کا ارادہ فرماتے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے وہ تین مرتبہ منادی کر دیتے ایک مرتبہ مال غنیمت کی تقسیم کے بعد ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بالوں کی ایک لگام لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! یہ مال غنیمت ہے جو مجھے ملا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے بلال کی تین مرتبہ منادی کو نہیں سنا تھا؟ اس نے کہا جی ہاں سنا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہیں ہمارے پاس آنے سے کس چیز نے روکا تھا؟ اس نے کوئی عذر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کر سکتا اب قیامت کے دن یہ تم میرے پاس لے کر آؤ گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب ، حدثنا عبد الله ، اخبرنا اسامة بن زيد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم عام الفتح، وهو بمكة، يقول:" إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير"، فقيل: يا رسول الله، ارايت شحوم الميتة، فإنه يدهن بها السفن، ويدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس؟ فقال:" لا، هي حرام"، ثم قال:" قاتل الله اليهود، إن الله لما حرم عليهم الشحوم، جملوها، ثم باعوها، واكلوا اثمانها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، وَهُوَ بِمَكَّةَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةَ وَالْخِنْزِيرَ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ، فَإِنَّهُ يُدْهَنُ بِهَا السُّفُنُ، وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟ فَقَالَ:" لَا، هِيَ حَرَامٌ"، ثُمَّ قَالَ:" قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمْ الشُّحُومَ، جَمَلُوهَا، ثُمَّ بَاعُوهَا، وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب مردار اور خنزیر کی بیع کو حرام قرار دیا ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ بتایئے کہ مردار کی چربی کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ اسے کشتیوں اور جسم کی کھالوں پر ملا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں یہ حرام ہے پھر فرمایا: ”یہودیوں پر اللہ کی مار ہو جب اللہ نے ان پر چربی کو حرام قرار دیا تو انہوں نے اسے خوب مزین کر کے بیچ دیا اور اس کی قیمت کھانے لگے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گھس کر بیٹھ جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا رجاء ابو يحيى ، حدثنا مسافع بن شيبة ، سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: فانشد بالله ثلاثا، ووضع إصبعه في اذنيه، لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو، يقول:" إن الركن، والمقام ياقوتتان من ياقوت الجنة، طمس الله عز وجل نورهما، ولولا ان الله طمس نورهما، لاضاءتا ما بين المشرق والمغرب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا رَجَاءٌ أَبُو يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُسَافِعُ بْنُ شَيْبَةَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: فَأَنْشُدُ بِاللَّهِ ثَلَاثًا، وَوَضَعَ إِصْبَعَهُ فِي أُذُنَيْهِ، لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ، يَقُولُ:" إِنَّ الرُّكْنَ، وَالْمَقَامَ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَاقُوتِ الْجَنَّةِ، طَمَسَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نُورَهُمَا، وَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ طَمَسَ نُورَهُمَا، لَأَضَاءَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ اللہ کی قسم کھائی اور اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں پر رکھ کر فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے دو یاقوت ہیں اللہ نے ان کی روشنی بجھادی ہے اگر اللہ ان کی روشنی نہ بجھاتا تو یہ دونوں مشرق و مغرب کے درمیان ساری جگہ کو روشن کر دیتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثني يزيد بن زريع ، حدثنا حبيب المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان اعرابيا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن لي مالا ووالدا، وإن والدي يريد ان يجتاح مالي؟ قال:" انت ومالك لوالدك، إن اولادكم من اطيب كسبكم، فكلوا من كسب اولادكم"، قال ابو عبد الرحمن هو عبد الله بن احمد: بلغني ان حبيبا المعلم يقال له: حبيب بن ابي بقية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ لِي مَالًا وَوَالِدًا، وَإِنَّ وَالِدِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي؟ قَالَ:" أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هو عَبْدُ اللهَ بن احمد: بَلَغَنِي أَنَّ حَبِيبًا الْمُعَلِّمَ يُقَالُ لَهُ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي بَقِيَّةَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی میرا باپ میرے مال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے تمہاری اولاد تمہاری سب سے پاکیزہ کمائی ہے لہٰذا اپنی اولاد کی کمائی کھا سکتے ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا يزيد ، حدثنا حبيب ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يحضر الجمعة ثلاثة: فرجل حضرها يلغو، فذاك حظه منها، ورجل حضرها بدعاء، فهو رجل دعا الله عز وجل، فإن شاء اعطاه، وإن شاء منعه، ورجل حضرها بإنصات وسكوت، ولم يتخط رقبة مسلم، ولم يؤذ احدا، فهي كفارة إلى الجمعة التي تليها، وزيادة ثلاثة ايام، فإن الله يقول: من جاء بالحسنة فله عشر امثالها سورة الانعام آية 160.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَحْضُرُ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَةٌ: فَرَجُلٌ حَضَرَهَا يَلْغُو، فَذَاكَ حَظُّهُ مِنْهَا، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا بِدُعَاءٍ، فَهُوَ رَجُلٌ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا بِإِنْصَاتٍ وَسُكُوتٍ، وَلَمْ يَتَخَطَّ رَقَبَةَ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُؤْذِ أَحَدًا، فَهِيَ كَفَّارَةٌ إِلَى الْجُمُعَةِ الَّتِي تَلِيهَا، وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا سورة الأنعام آية 160.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں ایک آدمی تو وہ ہے جو نماز اور دعاء میں شریک ہوتا ہے اس آدمی نے اپنے رب کو پکار لیا اب اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے عطاء کرے یا نہ کرے، دوسرا آدمی وہ ہے جو خاموشی کے ساتھ آ کر اس میں شریک ہو جائے کسی مسلمان کی گردن نہ پھلانگے اور کسی کو تکلیف نہ پہنچائے تو اگلے جمعہ تک اور مزید تین دن تک وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا ثواب ملے گا " اور تیسرا آدمی وہ ہے جو بیکار کاموں میں لگا رہتا ہے یہ اس کا حصہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن شهر ، عن عبد الله بن عمرو ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من شرب الخمر فاجلدوه، ومن شرب الثانية فاجلدوه، ثم إن شرب الثالثة فاجلدوه، ثم إن شرب الرابعة فاقتلوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ شَهْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، وَمَنْ شَرِبَ الثَّانِيَةَ فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِنْ شَرِبَ الثَّالِثَةَ فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِنْ شَرِبَ الرَّابِعَةَ فَاقْتُلُوهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص شراب نوشی کرے اسے کوڑے مارو دوبارہ پیئے تو پھر مارو سہ بارہ پیئے تو پھر مارو اور چوتھی مرتبہ فرمایا: ”کہ اسے قتل کر دو۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دے اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کی ماں کو گالی دے دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن ثابت ، وداود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من قال في يوم مئتي مرة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، لم يسبقه احد كان قبله، ولم يدركه احد كان بعده، إلا بافضل من عمله"، يعني: إلا من عمل بافضل من عمله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، وَدَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَالَ فِي يَوْمٍ مئتي مَرَّةٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ كَانَ قَبْلَهُ، وَلَمْ يُدْرِكْهُ أَحَدٌ كَانَ بَعْدَهُ، إِلَّا بِأَفْضَلَ مِنْ عَمَلِهِ"، يَعْنِي: إِلَّا مَنْ عَمِلَ بِأَفْضَلَ مِنْ عَمَلِهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص روزانہ دو سو مرتبہ یہ کلمات کہہ لے " اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا شریک نہیں حکومت بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے " اس پر کوئی پہلا سبقت نہیں لے جاسکے گا اور بعد والا اسے کوئی پا نہیں سکے گا الاّ یہ کہ اس سے افضل عمل سر انجام دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني حسان بن عطية ، قال: اقبل ابو كبشة السلولي ونحن في المسجد، فقام إليه مكحول، وابن ابي زكريا، وابو بحرية، فقال: سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، قَالَ: أَقْبَلَ أَبُو كَبْشَةَ السَّلُولِيُّ وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ إِلَيْهِ مَكْحُولٌ، وَابْنُ أَبِي زَكَرِيَّا، وَأَبُو بَحْرِيَّةَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے میری طرف سے آگے پہنچادیا کرو خواہ ایک آیت ہی ہو بنی اسرائیل کی باتیں بھی ذکر کر سکتے ہو کوئی حرج نہیں اور جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لینا چاہئے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سوار ایک شیطان ہوتا ہے اور دو سوار دو شیطان ہوتے ہیں اور تین سوار ہوتے ہیں۔
رقم الحديث: 6832 (حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا رجاء بن يحيى ، قال: حدثنا مسافع بن شيبة ، حدثنا عبد الله بن عمرو ، وادخل إصبعيه في اذنيه، لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الحجر، والمقام ياقوتتان من ياقوت الجنة، طمس الله نورهما، لولا ذلك لاضاءتا ما بين السماء والارض، او ما بين المشرق والمغرب"، كذا قال يونس: رجاء بن يحيى، وقال عفان: رجاء ابو يحيى.رقم الحديث: 6832 (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسَافِعُ بْنُ شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، وَأَدْخَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْحَجَرَ، وَالْمَقَامَ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَاقُوتِ الْجَنَّةِ، طَمَسَ اللَّهُ نُورَهُمَا، لَوْلَا ذَلِكَ لَأَضَاءَتَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ"، كَذَا قَالَ يُونُسُ: رَجَاءُ بْنُ يَحْيَى، وقَالَ عَفَّانُ: رَجَاءُ أَبُو يَحْيَى.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ اللہ کی قسم کھائی اور اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں پر رکھ کر فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے دو یاقوت ہیں اللہ نے ان کی روشنی بجھا دی ہے اگر اللہ ان کی روشنی نہ بجھاتا تو یہ دونوں مشرق ومغرب کے درمیان ساری جگہ کو روشن کر دیتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على خطأ فى اسم أحد رواته، وهو مكرر 7000، والأصح فى هذا الحديث وقفه.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جہنم کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرمایا: ”کہ ہر بداخلاق تندخو، متکبر جمع کر کے رکھنے والا اور نیکی سے رکنے والاجہنم میں ہو گا اور اہل جنت کمزور اور مغلوب لوگ ہوں گے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو اس لئے جمع کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ کہیں بیت اللہ جانے سے روک نہ دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ”تھا کہ اگر حج نہ ہوا تو عمرہ ہی کر لیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يونس بن الحارث الثقفي.
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، وحسين بن محمد ، قالا: حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عبد الله بن عياش بن ابي ربيعة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس عام الفتح على درجة الكعبة، فكان فيما قال بعد ان اثنى على الله، ان قال:" يا ايها الناس، كل حلف كان في الجاهلية لم يزده الإسلام إلا شدة، ولا حلف في الإسلام، ولا هجرة بعد الفتح، يد المسلمين واحدة على من سواهم، تتكافا دماؤهم، ولا يقتل مؤمن بكافر، ودية الكافر كنصف دية المسلم، الا ولا شغار في الإسلام، ولا جنب ولا جلب، وتؤخذ صدقاتهم في ديارهم يجير على المسلمين ادناهم ويرد على المسلمين اقصاهم"، ثم نزل، وقال حسين إنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ عَامَ الْفَتْحِ عَلَى دَرَجَةِ الْكَعْبَةِ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ بَعْدَ أَنْ أَثْنَى عَلَى اللَّهِ، أَنْ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، كُلُّ حِلْفٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَمْ يَزِدْهُ الْإِسْلَامُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ، وَلَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، يَدُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، وَلَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَدِيَةُ الْكَافِرِ كَنِصْفِ دِيَةِ الْمُسْلِمِ، أَلَا وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ، وَلَا جَنَبَ وَلَا جَلَبَ، وَتُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ فِي دِيَارِهِمْ يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ وَيَرُدُّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَقْصَاهُمْ"، ثُمَّ نَزَلَ، وَقَالَ حُسَيْنٌ إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کی سیڑھی پر لوگوں میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور حمدوثناء کے بعد دیگرباتوں میں یہ بھی فرمایا: ”لوگو! زمانہ جاہلیت میں جتنے بھی معاہدے ہوئے اسلام ان کی شدت میں مزید اضافہ کرتا ہے لیکن اب اسلام میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم باقی نہیں رہا مسلمان اپنے علاوہ سب پر ایک ہاتھ ہیں سب کا خون برابر ہے ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے جو سب سے آخری مسلمان تک لوٹائی جائے گی، کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہے زکوٰۃ کے جانوروں کو اپنے پاس منگوانے کی اور زکوٰۃ سے بچنے کی کوئی حیثیت نہیں مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے علاقے ہی میں جا کروصول کی جائے گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اتر آئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، عن سعيد ، عن مطر ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" في المواضح خمس خمس من الإبل، والاصابع سواء، كلهن عشر عشر من الإبل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" فِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْأَصَابِعُ سَوَاءٌ، كُلُّهُنَّ عَشْرٌ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں سر کے زخم میں پانچ پانچ اونٹ ہیں اور سب انگلیاں برابر ہیں۔
ابوسلمہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروہ پر سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ملاقات ہوئی تھوڑی دیر گفتگو کے بعدجب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو وہ رو رہے تھے کسی نے ان سے پوچھا اے ابوعبدالرحمن آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: ”اس حدیث کی وجہ سے جو انہوں نے مجھ سے بیان کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا اللہ اسے چہرے کے بل جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر وہ نماز جس میں ذراسی بھی قرأت نہ کی جائے وہ ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن الحباب ، اخبرني موسى بن علي ، قال: سمعت ابي ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" تدرون من المسلم؟" قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" من سلم المسلمون من لسانه ويده"، قال:" تدرون من المؤمن؟" قالوا: الله، يعني ورسوله اعلم، قال:" من امنه المؤمنون على انفسهم واموالهم، والمهاجر من هجر السوء فاجتنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تَدْرُونَ مَنْ الْمُسْلِمُ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"، قَالَ:" تَدْرُونَ مَنْ الْمُؤْمِنُ؟" قَالُوا: اللَّهُ، يَعْنِي وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ السُّوءَ فَاجْتَنَبَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو کہ مسلم کون ہوتا ہے؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں؟ فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں پھر پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ مومن کون ہوتا ہے؟ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا: ”جس کی طرف سے دوسرے مؤمنین کی جان ومال محفوظ ہو اور اصل مہاجر وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے اور ان سے اجتناب کرے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ سے بہت سی حدیثیں سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم انہیں لکھ نہ لیا کر یں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں لکھ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، على بن عاصم صدوق لكنه كان كثير الغلط، محمد بن يزيد الكلاعي ودويد الخراساني مجهول، لكنه متابع بابن إسحاق.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے نسب سے بیزاری ظاہر کرنا خواہ بہت معمولی درجے میں ہو یا ایسے نسب کا دعوی کرنا جس کی طرف اس کی نسبت غیر معروف ہو کفر ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، على بن عاصم الواسطي كثير الغلط، والمثنى بن الصباح ضعبف.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ سے جو باتیں سنتا ہوں انہیں لکھ لیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں نے پوچھا رضامندی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں کیونکہ میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران سفر روزہ رکھتے ہوئے اور ناغہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا حسين ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ليس لي مال، ولي يتيم؟ فقال:" كل من مال يتيمك، غير مسرف ولا مبذر، ولا متاثل مالا، ومن غير ان تقي مالك"، او قال:" تفدي مالك بماله". شك حسين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَيْسَ لِي مَالٌ، وَلِي يَتِيمٌ؟ فَقَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ، غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَذِّرٍ، وَلَا مُتَأَثِّلٍ مَالًا، وَمِنْ غَيْرِ أَنْ تَقِيَ مَالَكَ"، أَوْ قَالَ:" تَفْدِيَ مَالَكَ بِمَالِهِ". شَكَّ حُسَيْنٌ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے پاس تو مال نہیں ہے البتہ ایک یتیم بھتیجا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے یتیم بھتیجے کے مال میں سے تم کھا سکتے ہو کہ جو اسراف کے زمرے میں آئے یا یہ فرمایا: ”کہ اپنے مال کو اس کے مال کے بدلے فدیہ نہ بناؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد ابو عبد الرحمن ، حدثني عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الله بن عمرو، في كم تقرا القرآن؟"، قال: قلت: في يومي وليلتي، قال: فقال لي:" ارقد وصل، وارقد، واقراه في كل شهر"، قال: فما زلت اناقصه ويناقصني، إلى ان قال:" اقراه في كل سبع ليال"، قال ابي: ولم افهم، وسقطت علي كلمة، قال: ثم قال: قلت: إني اصوم ولا افطر؟ قال: فقال لي:" صم وافطر، وصم ثلاثة ايام من كل شهر"، فما زلت اناقصه ويناقصني، حتى قال:" صم احب الصيام إلى الله عز وجل، صيام داود، صم يوما، وافطر يوما"، فقال عبد الله بن عمرو: لان اكون قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي من ان يكون لي حمر النعم، حسبته شك عبيدة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فِي كَمْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: فِي يَوْمِي وَلَيْلَتِي، قَالَ: فَقَالَ لِي:" ارْقُدْ وَصَلِّ، وَارْقُدْ، وَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ وَيُنَاقِصُنِي، إِلَى أَنْ قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ"، قَالَ أَبِي: وَلَمْ أَفْهَمْ، وَسَقَطَتْ عَلَيَّ كَلِمَةٌ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَصُومُ وَلَا أُفْطِرُ؟ قَالَ: فَقَالَ لِي:" صُمْ وَأَفْطِرْ، وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ وَيُنَاقِصُنِي، حَتَّى قَالَ:" صُمْ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، صِيَامَ دَاوُدَ، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي حُمْرُ النَّعَمِ، حَسِبْتُهُ شَكَّ عَبِيدَةُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمرو تم کتنے عرصے میں قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا ایک دن رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”سویا بھی کرو نماز بھی پڑھا کرو اور ہر مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید کمی کرواتا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمی کرتے رہے حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر سات راتوں میں ایک قرآن پڑھا کرو (میرے والد کہتے ہیں کہ یہاں ایک کلمہ مجھ سے چھوٹ گیا ہے جسے میں سمجھ نہیں سکا) پھر میں نے عرض کیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں کبھی ناغہ نہیں کرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”روزہ بھی رکھا کرو اور ناغہ بھی کیا کرو اور ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلسل کمی کرواتا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمی کرتے رہے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طریقے سے روزہ رکھ لیا کرو جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے اور سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ ہے یعنی ایک دن روزہ رکھ لیا کرو۔ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو بعد میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیناسرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف، عبيدة بن حميد سمع من عطاء بن السائب بعد الاختلاط، قد تابعه حماد بن زيد عند أبى داود، وهو ممن سمع منه قديما.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ زکوٰۃ کے جانوروں کو اپنے پاس منگوانے کی اور زکوٰۃ سے بچنے کی کوئی حیثیت نہیں مسلمان سے زکوٰۃ ان کے علاقے ہی میں جا کروصول کی جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو سفيان الحرشي ، وكان ثقة فيما ذكر اهل بلاده، عن مسلم بن جبير مولى ثقيف، وكان مسلم رجلا يؤخذ عنه، وقد ادرك، وسمع عن عمرو بن حريش الزبيدي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قلت يا ابا محمد، إنا بارض لسنا نجد بها الدينار والدرهم، وإنما اموالنا المواشي، فنحن نتبايعها بيننا، فنبتاع البقرة بالشاة نظرة إلى اجل، والبعير بالبقرات، والفرس بالاباعر، كل ذلك إلى اجل، فهل علينا في ذلك من باس؟ فقال على الخبير: سقطت، امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ابعث جيشا على إبل كانت عندي، قال: فحملت الناس عليها، حتى نفدت الإبل، وبقيت بقية من الناس، قال: فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، الإبل قد نفدت، وقد بقيت بقية من الناس لا ظهر لهم، قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابتع علينا إبلا بقلائص من إبل الصدقة إلى محلها، حتى ننفذ هذا البعث"، قال: فكنت ابتاع البعير بالقلوصين والثلاث من إبل الصدقة إلى محلها، حتى نفذت ذلك البعث، قال: فلما حلت الصدقة اداها رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ الْحَرَشِيُّ ، وَكَانَ ثِقَةً فِيمَا ذَكَرَ أَهْلُ بِلَادِهِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَيْرٍ مَوْلَى ثَقِيفٍ، وَكَانَ مُسْلِمٌ رَجُلًا يُؤْخَذُ عَنْهُ، وَقَدْ أَدْرَكَ، وَسَمِعَ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْشٍ الزُّبَيْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّا بِأَرْضٍ لَسْنَا نَجِدُ بِهَا الدِّينَارَ وَالدِّرْهَمَ، وَإِنَّمَا أَمْوَالُنَا الْمَوَاشِي، فَنَحْنُ نَتَبَايَعُهَا بَيْنَنَا، فَنَبْتَاعُ الْبَقَرَةَ بِالشَّاةِ نَظِرَةً إِلَى أَجَلٍ، وَالْبَعِيرَ بِالْبَقَرَاتِ، وَالْفَرَسَ بِالْأَبَاعِرِ، كُلُّ ذَلِكَ إِلَى أَجَلٍ، فَهَلْ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ مِنْ بَأْسٍ؟ فَقَالَ عَلَى الْخَبِيرِ: سَقَطْتَ، أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبْعَثَ جَيْشًا عَلَى إِبِلٍ كَانَتْ عِنْدِي، قَالَ: فَحَمَلْتُ النَّاسَ عَلَيْهَا، حَتَّى نَفِدَتْ الْإِبِل، وَبَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْإِبِلُ قَدْ نَفِدَتْ، وَقَدْ بَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنَ النَّاسِ لَا ظَهْرَ لَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَعْ عَلَيْنَا إِبِلًا بِقَلَائِصَ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِلَى مَحِلِّهَا، حَتَّى نُنَفِّذَ هَذَا الْبَعْثَ"، قَالَ: فَكُنْتُ أَبْتَاعُ الْبَعِيرَ بِالْقَلُوصَيْنِ وَالثَّلَاثِ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِلَى مَحِلِّهَا، حَتَّى نَفَّذْتُ ذَلِكَ الْبَعْثَ، قَالَ: فَلَمَّا حَلَّتْ الصَّدَقَةُ أَدَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عمرو بن حریش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم لوگ ایسے علاقے میں ہوتے ہیں جہاں دینار یا درہم نہیں چلتے ہم ایک وقت مقررہ تک کے لئے اونٹ اور بکر ی کے بدلے خریدو فروخت کر لیتے ہیں آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟ کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”تم نے ایک باخبر آدمی سے دریافت کیا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کیا اس امید پر کہ صدقہ کے اونٹ آجائیں گے اونٹ ختم ہو گئے اور کچھ لوگ باقی بچ گئے (جنہیں سواری نہ مل سکی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ہمارے لئے اس شرط پر اونٹ خرید کر لاؤ کہ صدقہ کے اونٹ پہنچنے پر وہ دے دیئے جائیں گے چنانچہ میں نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ خریدا بعض اوقات تین کے بدلے بھی خریدا یہاں تک کہ میں فارغ ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے اس کی ادائیگی فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: ذكر عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في عقل الجنين إذا كان في بطن امه، بغرة عبد او امة، فقضى بذلك في امراة حمل بن مالك بن النابغة الهذلي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: ذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَقْلِ الْجَنِينِ إِذَا كَانَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، فَقَضَى بِذَلِكَ فِي امْرَأَةِ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيِّ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنین یعنی وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو (اور کوئی شخص اسے ماردے) کی دیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غرہ یعنی غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا: ”ہے یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی رضی اللہ عنہ کی بیوی کے متعلق فرمایا: ”تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن إسحاق مدلس، ولم يصرح هنا بالتحديث.
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا شغار في الإسلام".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں نکاح شغار (وٹے سٹے) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: وذكر عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في ولد المتلاعنين، انه يرث امه، وترثه امه، ومن قفاها به جلد ثمانين، ومن دعاه ولد زنا جلد ثمانين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَلَدِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، أَنَّهُ يَرِثُ أُمَّهُ، وَتَرِثُهُ أُمُّهُ، وَمَنْ قَفَاهَا بِهِ جُلِدَ ثَمَانِينَ، وَمَنْ دَعَاهُ وَلَدَ زِنًا جُلِدَ ثَمَانِينَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کر نے والوں کے بچے کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ وہ اپنی ماں کا وارث ہو گا اور اس کی ماں اسی کی وارث ہو گی اور جو شخص اس کی ماں پر تہمت لگائے گا اسے اسی کوڑوں کی سزا ہو گی اور جو شخص اس کی ماں پر تہمت لگائے کأ اسے اسی کوڑوں کی سزاہو گی اور جو شخص اسے والد الزنا کہہ کر پکارے گا اسے بھی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن حميد بن عبد الرحمن ، سمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من اكبر الكبائر ان يلعن الرجل والديه"، قالوا: يا رسول الله، وكيف يلعن الرجل ابويه؟ قال:" يسب الرجل الرجل، فيسب اباه، ويسب الرجل امه، فيسب امه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ أَبَوَيْهِ؟ قَالَ:" يَسُبُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ الرَّجُلُ أُمَّهُ، فَيَسُبُّ أُمَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دے اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کی ماں کو گالی دے دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثني ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : حدثني عيسى بن طلحة بن عبيد الله ، انه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر على راحلته، فطفق يسالونه، فيقول القائل منهم: يا رسول الله، إني لم اكن اشعر ان الرمي قبل النحر، فنحرت قبل ان ارمي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارم ولا حرج"، وطفق آخر، فقال: يا رسول الله، إني لم اشعر ان النحر قبل الحلق، فحلقت قبل ان انحر؟ فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انحر ولا حرج"، قال: فما سمعته يومئذ يسال عن امر مما ينسى الإنسان او يجهل، من تقديم الامور بعضها قبل بعض، واشباهها، إلا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افعله ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَطَفِقَ يَسْأَلُونَهُ، فَيَقُولُ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَشْعُرُ أَنَّ الرَّمْيَ قَبْلَ النَّحْرِ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، وَطَفِقَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَشْعُرْ أَنَّ النَّحْرَ قَبْلَ الْحَلْقِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْحَرْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سَمِعْتُهُ يَوْمَئِذٍ يُسْأَلُ عَنْ أَمْرٍ مِمَّا يَنْسَى الْإِنْسَانُ أَوْ يَجْهَلُ، مِنْ تَقْدِيمِ الْأُمُورِ بَعْضِهَا قَبْلَ بَعْضٍ، وَأَشْبَاهِهَا، إِلَّا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" افْعَلْهُ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروا لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، فذكر حديثا، قال ابن إسحاق: وذكر عمرو بن شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل مؤمنا متعمدا فإنه يدفع إلى اولياء القتيل، فإن شاءوا قتلوا، وإن شاءوا اخذوا الدية، وهي ثلاثون حقة، وثلاثون جذعة، واربعون خلفة، فذلك عقل العمد، وما صالحوا عليه من شيء فهو لهم وذلك شديد العقل". وعقل شبه العمد مغلظة مثل عقل العمد، ولا يقتل صاحبه، وذلك ان ينزغ الشيطان بين الناس، فتكون دماء في غير ضغينة ولا حمل سلاح". فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يعني:" من حمل علينا السلاح فليس منا، ولا رصد بطريق، فمن قتل على غير ذلك فهو شبه العمد، وعقله مغلظة، ولا يقتل صاحبه، وهو بالشهر الحرام، وللحرمة وللجار". ومن قتل خطا فديته مائة من الإبل، ثلاثون ابنة مخاض، وثلاثون ابنة لبون، وثلاثون حقة، وعشر بكارة بني لبون ذكور". قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقيمها على اهل القرى اربع مائة دينار، او عدلها من الورق، وكان يقيمها على اثمان الإبل، فإذا غلت رفع في قيمتها، وإذا هانت، نقص من قيمتها، على عهد الزمان ما كان، فبلغت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين اربع مائة دينار إلى ثمان مائة دينار وعدلها من الورق ثمانية آلاف درهم". وقضى ان من كان عقله على اهل البقر، في البقر مائتي بقرة، وقضى ان من كان عقله على اهل الشاء، فالفي شاة، وقضى في الانف إذا جدع كله، بالعقل كاملا، وإذا جدعت ارنبته، فنصف العقل". وقضى في العين نصف العقل، خمسين من الإبل، او عدلها ذهبا او ورقا، او مائة بقرة، او الف شاة". والرجل نصف العقل، واليد نصف العقل". والمامومة ثلث العقل، ثلاث وثلاثون من الإبل او قيمتها من الذهب، او الورق، او البقر، او الشاء، والجائفة ثلث العقل، والمنقلة خمس عشرة من الإبل، والموضحة خمس من الإبل، والاسنان خمس من الإبل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، فَذَكَرَ حَدِيثًا، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَإِنَّهُ يُدْفَعُ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا، وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ، وَهِيَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، فَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمْدِ، وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ لَهُمْ وَذَلِكَ شَدِيدُ الْعَقْلِ". وَعَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَةٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَذَلِكَ أَنْ يَنْزِغَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ، فَتَكُونَ دِمَاءٌ فِي غَيْرِ ضَغِينَةٍ وَلَا حَمْلِ سِلَاحٍ". فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَعْنِي:" مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلَا رَصَدَ بِطَرِيقٍ، فَمَنْ قُتِلَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ شِبْهُ الْعَمْدِ، وَعَقْلُهُ مُغَلَّظَةٌ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَهُوَ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ، وَلِلْحُرْمَةِ وَلِلْجَارِ". وَمَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، ثَلَاثُونَ ابْنَةُ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ حِقَّةٌ، وَعَشْرُ بَكَارَةٍ بَنِي لَبُونٍ ذُكُورٍ". قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِيمُهَا عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ، أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ، وَكَانَ يُقِيمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَانَتْ، نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، عَلَى عَهْدِ الزَّمَانِ مَا كَانَ، فَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ وَعِدْلُهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ". وَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ عَقْلُهُ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ، فِي الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ عَقْلُهُ عَلَى أَهْلِ الشَّاءِ، فَأَلْفَيْ شَاةٍ، وَقَضَى فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ كُلُّهُ، بِالْعَقْلِ كَامِلًا، وَإِذَا جُدِعَتْ أَرْنَبَتُهُ، فَنِصْفُ الْعَقْلِ". وَقَضَى فِي الْعَيْنِ نِصْفَ الْعَقْلِ، خَمْسِينَ مِنَ الْإِبِلِ، أَوْ عِدْلَهَا ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا، أَوْ مِائَةَ بَقَرَةٍ، أَوْ أَلْفَ شَاةٍ". وَالرِّجْلُ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَالْيَدُ نِصْفُ الْعَقْلِ". وَالْمَأْمُومَةُ ثُلُثُ الْعَقْلِ، ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ، أَوْ الْوَرِقِ، أَوْ الْبَقَرِ، أَوْ الشَّاءِ، وَالْجَائِفَةُ ثُلُثُ الْعَقْلِ، وَالْمُنَقِّلَةُ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْمُوضِحَةُ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْأَسْنَانُ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کو عمداً قتل کر دے اسے مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے گا وہ چاہیں تو اسے قصاصاً قتل کر دیں اور چاہیں تو دیت لے لیں جو کہ ٣٠ حقے، ٣٠ جذعے اور ٤٠ حاملہ اونٹنیوں پر مشتمل ہو گی یہ قتل عمد کی دیت ہے اور جس چیز پر ان سے صلح ہو جائے وہ اس کے حقدار ہوں گے اور یہ سخت دیت ہے۔ قتل شبہ عمد کی دیت بھی قتل عمد کی دیت کی طرح ملغظ ہی ہے لیکن اس صورت میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی پیدا کر دیتا ہے اور بغیر کسی کہنے کے یا اسلحہ کے خونریزی ہوجاتی ہے۔ اس کی علاوہ جس صورت میں بھی قتل ہو گا وہ شبہ عمد ہو گا اس کی دیت مغلظ ہو گی اور قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا یہ اشہر حرم میں حرمت کی وجہ سے اور پڑوس کی وجہ سے ہو گا۔ خطاء قتل ہونے والے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں ٣٠ بنت مخاض ٣٠ بنت لبون ٣٠ حقے اور دس ابن لبون مذکر اونٹ شامل ہوں گے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر والوں پر اس کی قیمت چار سو دینار یا اس کے برابر چاندی مقرر فرماتے تھے اور قیمت کا تعین اونٹوں کی قیمت کے اعتبار سے کرتے تھے جب اونٹوں کی قیمت بڑھ جاتی تو دیت کی مقدار مذکور میں اضافہ فرما دیتے اور جب کم ہوجاتی تو اس میں بھی کمی فرمادیتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں یہ قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینارتک بھی پہنچی ہے اور اس کے برابر چاندی کی قیمت آٹھ ہزار درہم تک پہنچی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ بھی فرمایا: ”کہ جس کی دیت گائے والوں پر واجب ہوتی ہو تو وہ دو سو گائے دے دیں اور جس کی بکر ی والوں پر واجب ہوتی ہو وہ دوہزار بکر یاں دے دیں ناک کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر اسے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے تو پوری دیت واجب ہو گی اور اگر صرف نرم حصہ کاٹا ہو تو نصف دیت واجب ہو گی ایک آنکھ کی دیت نصف قرار دی ہے یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا چاندی یا سو گائے یا ہزار بکر یاں، نیز ایک پاؤں کی دیت بھی نصف اور ایک ہاتھ کی دیت بھی نصف قرار دی ہے۔ دماغی زخم کی دیت تہائی مقرر فرمائی ہے یعنی ٣٣ اونٹ یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، یا گائے بکر ی گہرے زخم کی دیت بھی تہائی مقرر فرمائی ہے ہڈی اپنی جگہ سے ہلا دینے کی دیت ١٥ اونٹ مقرر فرمائی ہے اور کھال چیر کر گوشت نظر آنے والے زخم کی دیت پانچ اونٹ مقرر فرمائی ہے اور ہر دانٹ کی دیت پانچ اونٹ مقرر فرمائی ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کی ٹانگ پر سینگ دے مارا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے قصاص دلوایئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”کہ جلدی بازی سے کام نہ لو پہلے اپنازخم ٹھیک ہونے دو وہ فوری طور پر قصاص لینے کے لئے اصرار کر نے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قصاص دلوا دیا بعد میں قصاص لینے والا لنگڑا اور جس سے قصاص لیا گیا وہ ٹھیک ہو گیا۔
چنانچہ وہ قصاص لینے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں لنگڑا ہو گیا اور وہ صحیح ہو گیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اس بات کا حکم نہ دیا تھا کہ جب تک تمہارا زخم ٹھیک نہ ہو جائے تم قصاص نہ لو لیکن تم نے میری بات نہیں مانی اس لئے اللہ نے تمہیں دور کر دیا اور تمہارا زخم خراب کر دیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ جسے کوئی زخم لگے وہ اپنازخم ٹھیک ہونے سے پہلے قصاص کا مطالبہ نہ کرے ہاں جب تک زخم ٹھیک ہو جائے پھر قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وذكر قال: وذكر عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل طعن رجلا بقرن في رجله، فقال: يا رسول الله، اقدني، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تعجل، حتى يبرا جرحك"، قال: فابى الرجل إلا ان يستقيد، فاقاده رسول الله صلى الله عليه وسلم منه، قال: فعرج المستقيد، وبرا المستقاد منه، فاتى المستقيد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: يا رسول الله، عرجت، وبرا صاحبي؟! فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الم آمرك الا تستقيد حتى يبرا جرحك؟ فعصيتني! فابعدك الله، وبطل جرحك"، ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الرجل الذي عرج" من كان به جرح، ان لا يستقيد حتى تبرا جراحته، فإذا برئت جراحته استقاد".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَذَكَرَ قَالَ: وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ طَعَنَ رَجُلًا بِقَرْنٍ فِي رِجْلِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقِدْنِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَعْجَلْ، حَتَّى يَبْرَأَ جُرْحُكَ"، قَالَ: فَأَبَى الرَّجُلُ إِلَّا أَنْ يَسْتَقِيدَ، فَأَقَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ، قَالَ: فَعَرِجَ الْمُسْتَقِيدُ، وَبَرَأَ الْمُسْتَقَادُ مِنْهُ، فَأَتَى الْمُسْتَقِيدُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَرِجْتُ، وَبَرَأَ صَاحِبِي؟! فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ آمُرْكَ أَلَّا تَسْتَقِيدَ حَتَّى يَبْرَأَ جُرْحُكَ؟ فَعَصَيْتَنِي! فَأَبْعَدَكَ اللَّهُ، وَبَطَلَ جُرْحُكَ"، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرَّجُلِ الَّذِي عَرِجَ" مَنْ كَانَ بِهِ جُرْحٌ، أَنْ لَا يَسْتَقِيدَ حَتَّى تَبْرَأَ جِرَاحَتُهُ، فَإِذَا بَرِئَتْ جِرَاحَتُهُ اسْتَقَادَ".
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو إسحاق مدلس، ولم يصرح هنا بالتحديث.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں تین مرتبہ فرمایا: ”کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ میری نگاہوں میں محبوب اور میرے قریب تر مجلس والا ہو گا؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ!! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہوں
(حديث مرفوع) قال يعقوب : حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني يحيى بن عروة بن الزبير ، عن ابيه عروة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قلت له: ما اكثر ما رايت قريشا اصابت من رسول الله، فيما كانت تظهر من عداوته؟ قال: حضرتهم وقد اجتمع اشرافهم يوما في الحجر، فذكروا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ما راينا مثل ما صبرنا عليه من هذا الرجل قط، سفه احلامنا، وشتم آباءنا، وعاب ديننا، وفرق جماعتنا، وسب آلهتنا، لقد صبرنا منه على امر عظيم، او كما قالوا، قال: فبينما هم كذلك، إذ طلع عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل يمشي، حتى استلم الركن، ثم مر بهم طائفا بالبيت، فلما ان مر بهم غمزوه ببعض ما يقول، قال: فعرفت ذلك في وجهه، ثم مضى، فلما مر بهم الثانية، غمزوه بمثلها، فعرفت ذلك في وجهه، ثم مضى، ثم مر بهم الثالثة، فغمزوه بمثلها، فقال:" تسمعون يا معشر قريش، اما والذي نفس محمد بيده، لقد جئتكم بالذبح"، فاخذت القوم كلمته، حتى ما منهم رجل إلا كانما على راسه طائر واقع، حتى إن اشدهم فيه وصاة قبل ذلك ليرفؤه باحسن ما يجد من القول، حتى إنه ليقول: انصرف يا ابا القاسم، انصرف راشدا، فوالله ما كنت جهولا، قال: فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان الغد، اجتمعوا في الحجر وانا معهم، فقال بعضهم لبعض: ذكرتم ما بلغ منكم وما بلغكم عنه، حتى إذا باداكم بما تكرهون تركتموه! فبينما هم في ذلك، إذ طلع رسول الله صلى الله عليه وسلم فوثبوا إليه وثبة رجل واحد، فاحاطوا به، يقولون له: انت الذي تقول كذا وكذا؟ لما كان يبلغهم عنه من عيب آلهتهم ودينهم، قال: فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، انا الذي اقول ذلك"، قال: فلقد رايت رجلا منهم اخذ بمجمع ردائه، قال: وقام ابو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه، دونه يقول وهو يبكي: اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله سورة غافر آية 28؟ ثم انصرفوا عنه، فإن ذلك لاشد ما رايت قريشا بلغت منه قط.(حديث مرفوع) قَالَ يَعْقُوبُ : حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ؟ قَالَ: حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ، فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ، سَفَّهَ أَحْلَامَنَا، وَشَتَمَ آبَاءَنَا، وَعَابَ دِينَنَا، وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، وَسَبَّ آلِهَتَنَا، لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، أَوْ كَمَا قَالُوا، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي، حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ، قَالَ: فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ مَضَى، فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ، غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ مَضَى، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ، فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَقَالَ:" تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ"، فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ، حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ، حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنَ الْقَوْلِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ: انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، انْصَرِفْ رَاشِدًا، فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا، قَالَ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ، حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ! فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ، إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَأَحَاطُوا بِهِ، يَقُولُونَ لَهُ: أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟ لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ، قَالَ: فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ، قَالَ: وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي: أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ سورة غافر آية 28؟ ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ.
عروہ بن زبیررحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے کسی ایسے سخت واقعے کے متعلق بتایئے جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکر ہ کر نے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے جیساصبر اس آدمی پر کیا ہے کسی اور پر کبھی نہیں کیا اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم ان کے معاملے میں بہت صبر کر لیا اسی اثناء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کر نے لگے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے تین چکروں میں اسی طرح ہوا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میں تمہارے پاس قربانی لے کر آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے پر بڑی شرم آئی اور ان میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہ تھا جس کے سر پر پرندے نہ بیٹھے ہوئے محسوس نہ ہوئے ہوں حتیٰ کہ اس سے پہلے جو آدمی انتہائی سخت تھا وہ اب اچھی بات کہنے لگا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جایئے واللہ آپ نا و قف نہیں ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے۔
اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ پہلے تو تم نے ان سے پہنچنے والی صبر آزما باتوں کا تذکر ہ کیا اور جب وہ تمہارے سامنے ظاہر ہوئے جو تمہیں پسند نہ تھا تو تم نے انہیں چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے وہ سب اکٹھے کودے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی اس اس طرح کہتے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں ہی اس طرح کہتا ہوں راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو گردن سے پکڑ لیا (اور گھونٹنا شروع کر دیا) یہ دیکھ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت دن تھا جس میں قریش کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی سخت اذیت پہنچی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: وحدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده عبد الله بن عمرو ، ان وفد هوازن اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالجعرانة، وقد اسلموا، فقالوا: يا رسول الله، إنا اصل وعشيرة، وقد اصابنا من البلاء ما لا يخفى عليك، فامنن علينا، من الله عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابناؤكم ونساؤكم احب إليكم، ام اموالكم؟" قالوا: يا رسول الله، خيرتنا بين احسابنا وبين اموالنا، بل ترد علينا نساؤنا وابناؤنا، فهو احب إلينا، فقال لهم:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لكم، فإذا صليت للناس الظهر، فقوموا، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسلمين، وبالمسلمين إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، في ابنائنا ونسائنا، فساعطيكم عند ذلك واسال لكم"، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس الظهر قاموا، فتكلموا بالذي امرهم به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لكم"، قال المهاجرون: وما كان لنا، فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالت الانصار: وما كان لنا فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الاقرع بن حابس: اما انا وبنو تميم فلا! وقال عيينة بن حصن بن حذيفة بن بدر اما انا وبنو فزارة، فلا! قال عباس بن مرداس: اما انا وبنو سليم فلا! قالت بنو سليم: لا، ما كان لنا فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يقول عباس: يا بني سليم، وهنتموني! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما من تمسك منكم بحقه من هذا السبي فله بكل إنسان ست فرائض من اول شيء نصيبه، فردوا على الناس ابناءهم ونساءهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ وَفْدَ هَوَازِنَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعِرَّانَةِ، وَقَدْ أَسْلَمُوا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِيرَةٌ، وَقَدْ أَصَابَنَا مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ، فَامْنُنْ عَلَيْنَا، مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:" أَبْنَاؤُكُمْ وَنِسَاؤُكُمْ أَحَبُّ إِلَيْكُمْ، أَمْ أَمْوَالُكُمْ؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَبَيْنَ أَمْوَالِنَا، بَلْ تُرَدُّ عَلَيْنَا نِسَاؤُنَا وَأَبْنَاؤُنَا، فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا، فَقَالَ لَهُمْ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ، فَإِذَا صَلَّيْتُ لِلنَّاسِ الظُّهْرَ، فَقُومُوا، فَقُولُوا: إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ، وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي أَبْنَائِنَا وَنِسَائِنَا، فَسَأُعْطِيكُمْ عِنْدَ ذَلِكَ وَأَسْأَلُ لَكُمْ"، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ الظُّهْرَ قَامُوا، فَتَكَلَّمُوا بِالَّذِي أَمَرَهُمْ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَا كَانَ لِي ولِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ"، قَالَ الْمُهَاجِرُونَ: وَمَا كَانَ لَنَا، فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: وَمَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا! وَقَالَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو فَزَارَةَ، فَلَا! قَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا! قَالَتْ بَنُو سُلَيْمٍ: لَا، مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ عَبَّاسٌ: يَا بَنِي سُلَيْمٍ، وَهَّنْتُمُونِي! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَنْ تَمَسَّكَ مِنْكُمْ بِحَقِّهِ مِنْ هَذَا السَّبْيِ فَلَهُ بِكُلِّ إِنْسَانٍ سِتُّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ نُصِيبُهُ، فَرَدُّوا عَلَى النَّاسِ أَبْنَاءَهُمْ وَنِسَاءَهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر جب بنوہوازن کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں بھی وہاں موجود تھا وفد کے لوگ کہنے لگے اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ہم اصل میں نسل اور خاندانی لوگ ہیں آپ ہم پر مہربانی کیجئے اللہ آپ پر مہربانی کرے گا اور ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ پر مخفی نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی عورتوں اور بچوں اور مال میں سے کسی ایک کو اختیار کر لو وہ کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں ہمارے حسب اور مال کے بارے میں اختیار دیا ہے ہم اپنی اولاد کو مال پر ترجیح دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہو گا وہی تمہارے لئے ہو گا جب میں ظہر کی نماز پڑھ چکوں تو اس وقت اٹھ کر تم لوگ یوں کہنا کہ ہم اپنی عورتوں اور بچوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے سامنے اور مسلمانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کی درخواست کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایساہی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے لئے اور بنوعبدالمطلب کے لئے ہے وہی تمہارے لئے ہے، مہاجرین کہنے لگے کہ جو ہمارے لئے ہے وہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے انصارنے بھی یہی کہا عیینہ بن بدر کہنے لگا کہ جو میرے لئے اور بنوفزارہ کے لئے ہے وہ نہیں، اقرع بن حابس نے کہا کہ میں اور بنوتمیم بھی اس میں شامل نہیں عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنوسلیم بھی اس میں شامل نہیں ان دونوں قبیلوں کے لوگ بولے تم غلط کہتے ہو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! انہیں ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دو جو شخص مال غنیمت کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس سے پہلا جو مال غنیمت آئے گا اس میں سے اس کے چھ حصے ہمارے ذمے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو عبيدة بن محمد بن عمار بن ياسر ، عن مقسم ابي القاسم مولى عبد الله بن الحارث بن نوفل، قال: خرجت انا وتليد بن كلاب الليثي، حتى اتينا عبد الله بن عمرو بن العاص ، وهو يطوف بالبيت، معلقا نعليه بيده، فقلنا له: هل حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين يكلمه التميمي يوم حنين؟ قال: نعم، اقبل رجل من بني تميم، يقال له: ذو الخويصرة، فوقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يعطي الناس، قال: يا محمد، قد رايت ما صنعت في هذا اليوم! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجل، فكيف رايت؟"، قال: لم ارك عدلت! قال: فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" ويحك، إن لم يكن العدل عندي فعند من يكون؟" فقال عمر بن الخطاب: يا رسول الله، الا نقتله؟ قال:" لا، دعوه، فإنه سيكون له شيعة يتعمقون في الدين، حتى يخرجوا منه، كما يخرج السهم من الرمية، ينظر في النصل، فلا يوجد شيء، ثم في القدح فلا يوجد شيء، ثم في الفوق، فلا يوجد شيء، سبق الفرث والدم"، قال ابو عبد الرحمن هو عبد الله بن احمد: ابو عبيدة هذا اسمه محمد، ثقة واخوه سلمة بن محمد بن عمار، لم يرو عنه إلا علي بن زيد، ولا نعلم خبره، ومقسم ليس به باس، ولهذا الحديث طرق في هذا المعنى، وطرق اخر في هذا المعنى صحاح، والله سبحانه وتعالى اعلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، عَنْ مِقْسَمٍ أَبِي الْقَاسِمِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَتَلِيدُ بْنُ كِلَابٍ اللَّيْثِيُّ، حَتَّى أَتَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، مُعَلِّقًا نَعْلَيْهِ بِيَدِهِ، فَقُلْنَا لَهُ: هَلْ حَضَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُكَلِّمُهُ التَّمِيمِيُّ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، يُقَالُ لَهُ: ذُو الْخُوَيْصِرَةِ، فَوَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُعْطِي النَّاسَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قَدْ رَأَيْتَ مَا صَنَعْتَ فِي هَذَا الْيَوْمِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجَلْ، فَكَيْفَ رَأَيْتَ؟"، قَالَ: لَمْ أَرَكَ عَدَلْتَ! قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" وَيْحَكَ، إِنْ لَمْ يَكُنْ الْعَدْلُ عِنْدِي فَعِنْدَ مَنْ يَكُونُ؟" فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَقْتُلُهُ؟ قَالَ:" لَا، دَعُوهُ، فَإِنَّهُ سَيَكُونُ لَهُ شِيعَةٌ يَتَعَمَّقُونَ فِي الدِّينِ، حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهُ، كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ فِي النَّصْلِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، ثُمَّ فِي الْقِدْحِ فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، ثُمَّ فِي الْفُوقِ، فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ، سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هو عَبْدُ اللهَ بن احمد: أَبُو عُبَيْدَةَ هَذَا اسْمُهُ مُحَمَّدٌ، ثِقَةٌ وَأَخُوهُ سَلَمَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، لَمْ يَرْوِ عَنْهُ إِلَّا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، وَلَا نَعْلَمُ خَبَرَهُ، وَمِقْسَمٌ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَلِهَذَا الْحَدِيثِ طُرُقٌ فِي هَذَا الْمَعْنَى، وَطُرُقٌ أُخَرُ فِي هَذَا الْمَعْنَى صِحَاحٌ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
مقسم کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تلید بن کلاب لیثی کے ساتھ نکلاہم لوگ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہ اس وقت ہاتھوں میں جوتے لٹکائے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ غزوہ حنین کے موقع پر جس وقت بنوتمیم کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی کیا آپ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے فرمایا: ”ہاں بنوتمیم کا ایک آدمی جسے ذوالخولصیرہ کہا جاتا ہے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج میں نے آپ کو مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تمہیں کیسا لگا؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو عدل سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا: ”تجھ پر افسوس! اگر میرے پاس ہی عدل نہ ہو گا تو اور کس کے پاس ہو گا؟
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!! کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اسے چھوڑ دو عنقریب اس کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں گے جو تعمق فی الدین کی راہ اختیار کر یں گے، وہ لوگ دین سے سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نظر نہ آئے دستے پر دیکھآ جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے اور سوار پر دیکھا جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے بلکہ وہ تیر لید اور خون پر سبقت لے جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا وهيب ، حدثنا ابن طاوس ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لحوم الحمر الاهلية، وعن الجلالة، وعن ركوبها، واكل لحومها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْجَلَّالَةِ، وَعَنْ رُكُوبِهَا، وَأَكْلِ لُحُومِهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت اور گند کھانے والے جانور سے منع فرمایا: ”ہے اس پر سوار ہونے سے بھی اور اس کا گوشت کھانے سے بھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، مؤمل بن إسماعيل سيئ الحفظ، وقد توبع.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علامات قیامت لڑی کے دانوں کی طرح جڑی ہوئی ہیں جوں ہی لڑی ٹوٹے گی تو ایک کے بعد دوسری علامت قیامت آ جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مؤمل بن إسماعيل سيئ الحفظ، وعلي بن زيد ضعيف، وقد توبعا، وتبقى علته خالد بن الحويرث المخزومي، وهو مجهول.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بر سر منبریہ بات ارشاد فرمائی تم رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرو اللہ تمہیں معاف کر دے گا ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو صرف باتوں کا ہتھیار رکھتے ہیں ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے گناہوں پر جانتے بوجھتے اصرار کرتے اور ڈٹے رہتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا محمد يعني ابن راشد ، عن سليمان يعني ابن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى، ان كل مستلحق يستلحق بعد ابيه الذي يدعى له، ادعاه ورثته من بعده،" فقضى إن كان من امة يملكها يوم اصابها فقد لحق بمن استلحقه، وليس له فيما قسم قبله من الميراث شيء، وما ادرك من ميراث لم يقسم، فله نصيبه، ولا يلحق إذا كان ابوه الذي يدعى له انكره، وإن كان من امة لا يملكها، او من حرة عاهر، بها فإنه لا يلحق ولا يرث، وإن كان ابوه الذي يدعى له هو الذي ادعاه، وهو ولد زنا لاهل امه، من كانوا، حرة او امة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى، أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ يُسْتَلْحَقُ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ، ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ مِنْ بَعْدِهِ،" فَقَضَى إِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنْ اسْتَلْحَقَهُ، وَلَيْسَ لَهُ فِيمَا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ، فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلَا يُلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَا يَمْلِكُهَا، أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ، بِهَا فَإِنَّهُ لَا يُلْحَقُ وَلَا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ الَّذِي ادَّعَاهُ، وَهُوَ وَلَدُ زِنًا لِأَهْلِ أُمِّهِ، مَنْ كَانُوا، حُرَّةً أَوْ أَمَةً".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو بچہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کے نسب میں شامل کیا جائے جس کا دعویٰ مرحوم کے ورثاء نے کیا ہو اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر وہ آزاد عورت سے ہو جس سے مرنے والے نے نکاح کیا ہو یا اس کی مملوکہ باندی سے ہو تو اس کا نسب مرنے والے سے ثابت ہو جائے گا اور اگر وہ کسی آزاد عورت یا باندی سے گناہ کا نتیجہ ہم تو اس کا نسب مرنے والے سے ثابت نہ ہو گا اگرچہ خود اس کا باپ ہی اس کا دعویٰ کرے وہ زنا کی پیداوار اور اپنی ماں کا بیٹا ہے اور اس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ کوئی بھی لوگ ہوں آزاد ہوں یا غلام۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا إسحاق يعني ابن سعيد ، حدثنا سعيد بن عمرو ، قال: اتى عبد الله بن عمرو ابن الزبير، وهو جالس في الحجر، فقال: يا ابن الزبير، إياك والإلحاد في حرم الله، فإني اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" يحلها ويحل به رجل من قريش، لو وزنت ذنوبه بذنوب الثقلين لوزنتها"، قال: فانظر ان لا تكون هو يا ابن عمرو، فإنك قد قرات الكتب، وصحبت الرسول صلى الله عليه وسلم، قال: فإني اشهدك ان هذا وجهي إلى الشام مجاهدا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ابْنَ الزُّبَيْرِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْحِجْرِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، إِيَّاكَ وَالْإِلْحَادَ فِي حَرَمِ اللَّهِ، فَإِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يُحِلُّهَا وَيَحُلُّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، لَوْ وُزِنَتْ ذُنُوبُهُ بِذُنُوبِ الثَّقَلَيْنِ لَوَزَنَتْهَا"، قَالَ: فَانْظُرْ أَنْ لَا تَكُونَ هُوَ يَا ابْنَ عَمْرٍو، فَإِنَّكَ قَدْ قَرَأْتَ الْكُتُبَ، وَصَحِبْتَ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ هَذَا وَجْهِي إِلَى الشَّأْمِ مُجَاهِدًا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت وہ حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ اے ابن زبیر حرم میں الحاد کا سبب بننے سے اپنے آپ کو بچانا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قریش کا ایک آدمی حرم مکہ کو حل بنا لے گا اگر اس کے گناہوں کا جن وانس کے گناہوں سے وزن کیا جائے تو اس کے گناہوں کا پلڑا جھک جائے گا سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمرو! دیکھو تم وہ آدمی نہ بننا کیونکہ تم نے سابقہ آسمانی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمنشینی کا شرف بھی حاصل ہے انہوں نے فرمایا: ”میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں جہاد کے لئے شام جا رہا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن يعني الاشيب ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا دراج ، عن عبد الرحمن بن جبير ، عن عبد الله بن عمرو ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 64 قال:" الرؤيا الصالحة، يبشرها المؤمن، هي جزء من تسعة واربعين جزءا من النبوة، فمن راى ذلك فليخبر بها، ومن راى سوى ذلك فإنما هو من الشيطان ليحزنه، فلينفث عن يساره ثلاثا، وليسكت، ولا يخبر بها احدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ يَعْنِي الْأَشْيَبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 64 قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يُبَشَّرُهَا الْمُؤْمِنُ، هِيَ جُزْءٌ مِنْ تِسْعَةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ، فَمَنْ رَأَى ذَلِكَ فَلْيُخْبِرْ بِهَا، وَمَنْ رَأَى سِوَى ذَلِكَ فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيُحْزِنَهُ، فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، وَلْيَسْكُتْ، وَلَا يُخْبِرْ بِهَا أَحَدًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لہم البشری فی الحیاۃ الدنیا کا مطلب یہ ہے کہ مومن جو نیک خواب دیکھتا ہے وہ اس کے لئے خوشخبری ہوتا ہے اور اچھے خواب اجزاء نبوت میں سے انچاسواں جزو ہوتے ہیں جو شخص اچھا خواب دیکھے اسے بیان کر دے اور اگر کوئی برا خواب دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ اسے غمگین کر دے۔ اس لئے اسے اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دینا چاہئے اور اس پر سکوت اختیار کرنا چاہئے کہ کسی سے وہ خواب بیان نہ کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، اخبرنا ابن هبيرة ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ردته الطيرة من حاجة، فقد اشرك"، قالوا: يا رسول الله، ما كفارة ذلك؟ قال:" ان يقول احدهم اللهم لا خير إلا خيرك، ولا طير إلا طيرك، ولا إله غيرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ مِنْ حَاجَةٍ، فَقَدْ أَشْرَكَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ؟ قَالَ:" أَنْ يَقُولَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو بدشگونی نے کسی کام سے روک دیا وہ سمجھ لے کہ اس نے شرک کیا صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کا کفارہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوں کہہ لیا کرے اے اللہ ہر خیر آپ ہی کی ہے ہر شگون آپ ہی کا ہے اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا تو نماز تیار ہے کا اعلان کر دیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کئے پھر سورج روشن ہو گیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس دن سے طویل رکوع سجدہ کبھی نہیں دیکھا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور با سعادت میں سورج گرہن ہوا تو نماز تیار ہے کا اعلان کر دیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کئے پھر سورج روشن ہو گیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس دن سے طویل رکوع سجدہ کبھی نہیں دیکھا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومنین کی روحیں ایک دن کی مسافت پر ملاقات کر لیتی ہیں ابھی ان میں سے کسی نے دوسرے کو دیکھا نہیں ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن ابي حازم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" ياتي على الناس زمان يغربلون فيه غربلة، يبقى منهم حثالة، قد مرجت عهودهم واماناتهم، واختلفوا فكانوا هكذا،" وشبك بين اصابعه، قالوا: يا رسول الله، فما المخرج من ذلك؟ قال:" تاخذون ما تعرفون، وتدعون ما تنكرون، وتقبلون على امر خاصتكم، وتدعون امر عامتكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُغَرْبَلُونَ فِيهِ غَرْبَلَةً، يَبْقَى مِنْهُمْ حُثَالَةٌ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ، وَاخْتَلَفُوا فَكَانُوا هَكَذَا،" وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الْمَخْرَجُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ:" تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ، وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى أَمْرِ خَاصَّتِكُمْ، وَتَدَعُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں ان کی چھانٹی ہو جائے گی اور صرف جھاگ رہ جائے گی ایسا اس وقت ہو گا جب وعدوں اور امانتوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور لوگ اس طرح ہو جائیں (راوی نے تشبیک کر کے دکھائی) لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہو گیا؟ فرمایا: ”نیکی کے کام اختیار کرنا برائی کے کاموں سے بچنا اور خواص کے ساتھ میل جول رکھنا عوام سے اپنے آپ کو بچانا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں فوت ہو جائے اللہ اسے قبر کی آزمائش سے بچا لیتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک سیدھا مسلمان اپنے حسن اخلاق اور اپنی شرافت و مہربانی کی وجہ سے ان لوگوں کے درجے تک جا پہنچتا ہے جو روزہ دار اور شب زندہ دار ہوتے ہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی خانہ کعبہ کو ویران کر دے گا اس کا زیور چھین لے گا اور اس کا غلاف اتار لے گا اس حبشی کو گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اس کے سر کے اگلے بال گرے ہوئے ہیں اور وہ ٹیڑھے جوڑوں والا ہے اور چھینی اور کدال سے خانہ کعبہ پر ضربیں لگا رہا ہے۔
حكم دارالسلام: بعضه مرفوع صحيح، وبعضه يروى مرفوعا وموقوفا، والموقوف أصح، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن، لكنه توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن قيصر التجيبي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء شاب، فقال: يا رسول الله، اقبل وانا صائم؟ فقال:" لا"، فجاء شيخ، فقال: يا رسول الله، اقبل وانا صائم؟ قال:" نعم"، فنظر بعضنا إلى بعض، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد علمت نظر بعضكم إلى بعض، إن الشيخ يملك نفسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ قَيْصَرَ التُّجِيبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ شَابٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ فَقَالَ:" لَا"، فَجَاءَ شَيْخٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَنَظَرَ بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَلِمْتُ نَظَرَ بَعْضِكُمْ إِلَى بَعْضٍ، إِنَّ الشَّيْخَ يَمْلِكُ نَفْسَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! روزے کی حالت میں میں اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تھوڑی دیر بعد ایک بڑی عمر کا آدمی آیا اور اس نے بھی وہی سوال پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اس پر ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہے کہ تم ایک دوسرے کو کیوں دیکھ رہے ہو؟ دراصل عمر رسیدہ آدمی اپنے اوپر قابو رکھ سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهو مكرر : 6739، سندا ومتنا .
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا ظلماً مارآ جائے وہ شہید ہوتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرتا ہے اس کے لئے جنت میں اس سے کشادہ گھر تعمیر کر دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله «أوسع» ، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة كثير الخطأ والتدليس.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص زائد پانی یا زائد گھاس کسی کو دینے سے روکتا ہے اللہ قیامت کے دن اس سے اپنا فضل روک لے گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی دعاء کر نے لگا کہ اے اللہ صرف مجھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس دعاء کو بہت سے لوگوں سے پردے میں چھپالیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا دخل الصلاة فقال: الحمد لله، وسبح، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قائلها؟" فقال الرجل: انا، قال:" لقد رايت الملائكة تلقى بها بعضها بعضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الصَّلَاةَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسَبَّحَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَائِلُهَا؟" فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، قَالَ:" لَقَدْ رَأَيْتُ الْمَلَائِكَةَ تَلَقَّى بِهَا بَعْضُهَا بَعْضًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نماز کے دوران ایک آدمی نے کہا الحمدللہ ملء السماء پھر تسبیح کہی اور دعاء کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پوچھا یہ کلمات کہنے والا کون ہے؟ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے ان کلمات کا ثواب لکھنے کے لئے آئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، ان اليهود اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: السام عليك، وقالوا في انفسهم: لولا يعذبنا الله بما نقول سورة المجادلة آية 8 فانزل الله عز وجل وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله سورة المجادلة آية 8، فقرا إلى قوله فبئس المصير سورة المجادلة آية 8.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ الْيَهُودَ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: السَّامُ عَلَيْكَ، وَقَالُوا فِي أَنْفُسِهِمْ: لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ سورة المجادلة آية 8 فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ سورة المجادلة آية 8، فَقَرَأَ إِلَى قَوْلِهِ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ سورة المجادلة آية 8.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہودی آ کر " سام علیک " کہتے تھے پھر اپنے دل میں کہتے تھے کہ ہم جو کہتے ہیں اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب یہ آپ کے پاس آتے ہیں تو اس انداز میں آپ کو سلام کرتے ہیں جس انداز میں اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لئے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے والدین حیات ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں فرمایا: ”جاؤ اور ان ہی میں جہاد کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، عن عمارة بن عمرو بن حزم ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يوشك ان يغربل الناس غربلة، وتبقى حثالة من الناس، قد مرجت عهودهم واماناتهم، وكانوا هكذا"، وشبك بين اصابعه، قالوا: فكيف نصنع يا رسول الله إذا كان ذلك؟ قال:" تاخذون ما تعرفون، وتذرون ما تنكرون، وتقبلون على خاصتكم، وتدعون عامتكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُوشِكُ أَنْ يُغَرْبَلَ النَّاسُ غَرْبَلَةً، وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ، وَكَانُوا هَكَذَا"، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالُوا: فَكَيْفَ نَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ، وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ، وَتَدَعُونَ عَامَّتَكُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں ان کی چھانٹی ہو جائے گی اور صرف جھاگ رہ جائے گی ایسا اس وقت ہو گا جب وعدوں اور امانتوں میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور لوگ اس طرح ہو جائیں (راوی نے تشبیک کر کے دکھائی) لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہو گیا؟ فرمایا: ”نیکی کے کام اختیار کرنا برائی کے کاموں سے بچنا اور خواص کے ساتھ میل جول رکھنا عوام سے اپنے آپ کو بچانا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صدقہ نکالنا چاہے اور اسے بربری غلام کے علاوہ کوئی اور نہ ملے تو اسے چاہئے کہ اسے لوٹا دے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، ابن لهيعة سيئ الخفظ، والقاسم بن عبد الله المعافري مستور.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سیدنا سعد کے پاس سے ہوا وہ اس وقت وضو کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد! یہ اسراف کیسا؟ وہ کہنے لگے کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اگرچہ تم جاری نہر پر ہی کیوں نہ ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، لضعف ابن لهيعة وحيي بن عبد الله المعافري .
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن عامر بن يحيى ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" توضع الموازين يوم القيامة، فيؤتى بالرجل، فيوضع في كفة، فيوضع ما احصي عليه، فتمايل به الميزان، قال: فيبعث به إلى النار، قال: فإذا ادبر به، إذا صائح يصيح من عند الرحمن، يقول: لا تعجلوا، لا تعجلوا، فإنه قد بقي له، فيؤتى ببطاقة فيها لا إله إلا الله فتوضع مع الرجل في كفة، حتى يميل به الميزان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تُوضَعُ الْمَوَازِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُؤْتَى بِالرَّجُلِ، فَيُوضَعُ فِي كِفَّةٍ، فَيُوضَعُ مَا أُحْصِيَ عَلَيْهِ، فَتَمَايَلَ بِهِ الْمِيزَانُ، قَالَ: فَيُبْعَثُ بِهِ إِلَى النَّارِ، قَالَ: فَإِذَا أُدْبِرَ بِهِ، إِذَا صَائِحٌ يَصِيحُ مِنْ عِنْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: لَا تَعْجَلُوا، لَا تَعْجَلُوا، فَإِنَّهُ قَدْ بَقِيَ لَهُ، فَيُؤْتَى بِبِطَاقَةٍ فِيهَا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَتُوضَعُ مَعَ الرَّجُلِ فِي كِفَّةٍ، حَتَّى يَمِيلَ بِهِ الْمِيزَانُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن میزان عمل قائم کئے جائیں گے ایک آدمی کو لا کر ایک پلڑے میں رکھآ جائے گا اس پر اس کے گناہ لاد دئیے جائیں گے اور وہ پلڑا جھک جائے گا اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا جب وہ پیٹھ پھیرے گا تو رحمان کی جانب سے ایک منادی پکارے گا جلدی نہ کرو جلدی نہ کرو اس کی ایک چیز رہ گئی ہے چنانچہ کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہو گا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر اسے اس آدمی کے ساتھ ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ جھک جائے گا۔
حكم دارالسلام: سلف برقم 6994 بإسناد قوي ، هذا إسناد حسن على خطأ فى اسم أحد رواته.
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن واهب بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، انه قال: رايت فيما يرى النائم لكان في إحدى إصبعي سمنا، وفي الاخرى عسلا، فانا العقهما، فلما اصبحت ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال:" تقرا الكتابين التوراة والفرقان"، فكان يقرؤهما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ وَاهِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ لَكَأَنَّ فِي إِحْدَى إِصْبَعَيَّ سَمْنًا، وَفِي الْأُخْرَى عَسَلًا، فَأَنَا أَلْعَقُهُمَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:" تَقْرَأُ الْكِتَابَيْنِ التَّوْرَاةَ وَالْفُرْقَانَ"، فَكَانَ يَقْرَؤُهُمَا.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میری ایک انگلی میں گھی اور دوسری میں شہد لگا ہوا ہے اور میں ان دونوں کو چاٹ رہا ہوں جب صبح ہوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خواب ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیریہ دی کہ تم تورات اور قرآن دونوں کتابیں پڑھ سکو گے چنانچہ ایساہی ہوا اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ دونوں کتابیں پڑھ لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا بكر بن مضر ، عن ابن الهاد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عام غزوة تبوك قام من الليل يصلي، فاجتمع وراءه رجال من اصحابه يحرسونه، حتى إذا صلى وانصرف إليهم، فقال لهم:" لقد اعطيت الليلة خمسا، ما اعطيهن احد قبلي: اما انا فارسلت إلى الناس كلهم عامة، وكان من قبلي إنما يرسل إلى قومه، ونصرت على العدو بالرعب، ولو كان بيني وبينهم مسيرة شهر لملئ منه رعبا، واحلت لي الغنائم آكلها، وكان من قبلي يعظمون اكلها، كانوا يحرقونها، وجعلت لي الارض مساجد وطهورا، اينما ادركتني الصلاة تمسحت وصليت، وكان من قبلي يعظمون ذلك، إنما كانوا يصلون في كنائسهم وبيعهم، والخامسة، هي ما هي، قيل لي سل، فإن كل نبي قد سال، فاخرت مسالتي إلى يوم القيامة، فهي لكم ولمن شهد ان لا إله إلا الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ غَزْوَةِ تَبُوكَ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يُصَلِّي، فَاجْتَمَعَ وَرَاءَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَحْرُسُونَهُ، حَتَّى إِذَا صَلَّى وَانْصَرَفَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ:" لَقَدْ أُعْطِيتُ اللَّيْلَةَ خَمْسًا، مَا أُعْطِيَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: أَمَّا أَنَا فَأُرْسِلْتُ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ عَامَّةً، وَكَانَ مَنْ قَبْلِي إِنَّمَا يُرْسَلُ إِلَى قَوْمِهِ، وَنُصِرْتُ عَلَى الْعَدُوِّ بِالرُّعْبِ، وَلَوْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ مَسِيرَةُ شَهْرٍ لَمُلِئَ مِنْهُ رُعْبًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ آكُلُهَا، وَكَانَ مَنْ قَبْلِي يُعَظِّمُونَ أَكْلَهَا، كَانُوا يُحْرِقُونَهَا، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسَاجِدَ وَطَهُورًا، أَيْنَمَا أَدْرَكَتْنِي الصَّلَاةُ تَمَسَّحْتُ وَصَلَّيْتُ، وَكَانَ مَنْ قَبْلِي يُعَظِّمُونَ ذَلِكَ، إِنَّمَا كَانُوا يُصَلُّونَ فِي كَنَائِسِهِمْ وَبِيَعِهِمْ، وَالْخَامِسَةُ، هِيَ مَا هِيَ، قِيلَ لِي سَلْ، فَإِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ قَدْ سَأَلَ، فَأَخَّرْتُ مَسْأَلَتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَهِيَ لَكُمْ وَلِمَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کے لئے بیدار ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بہت سے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ حفاظت کے خیال سے جمع ہو گئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”آج رات مجھے پانچ خوبیاں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں چنانچہ مجھے ساری انسانیت کی طرف عمومی طور پر پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے ایک مخصوص قوم کی طرف پیغمبر آیا کرتے تھے۔ دشمن پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر میرے اور دشمن کے درمیان ایک مہینے کی مسافت بھی ہو تو وہ رعب سے بھرپور ہوجاتا ہے میرے لئے مال غنیمت کو کلی طور پر حلال قرار دے دیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے انبیاء کر ام (علیہم السلام) اسے کھانا بڑا گناہ سمجھتے تھے اس لئے وہ اسے جلادیتے تھے۔ پھر میرے لئے پوری زمین کو مسجد اور باعث پاکیزگی بنادیا گیا ہے جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے میں زمین ہی پر تیمم کر کے نماز پڑھ لوں گا مجھ سے پہلے انبیاء کر ام (علیہم السلام) اسے بہت بڑی بات سمجھتے تھے اس لئے وہ صرف اپنے گرجوں اور معبدوں میں ہی نماز پڑھتے تھے اور پانچویں خوبی سب سے بڑی ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے کہا گیا آپ مانگیں کیونکہ ہر نبی نے مانگا ہے لیکن میں نے اپنا سوال قیامت کے دن تک مؤخر کر دیا ہے جس کا فائدہ تمہیں اور لاالہ الا اللہ کی گواہی دینے والے ہر شخص کو ہو گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دروازے سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا وہ جنتی ہو گا چنانچہ وہاں سے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیماری متعدی ہونے، بدشگونی، مردے کی کھوپڑی کے کیڑے اور حسد کی کوئی حیثیت نہیں، البتہ نظر لگ جانا برحق ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله : «ولاحسد» ، وهذا إسناد ضعيف لضعف رشدين بن سعد.
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن عمرو بن الوليد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، هل تحس بالوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، اسمع صلاصل، ثم اسكت عند ذلك، فما من مرة يوحى إلي إلا ظننت ان نفسي تفيض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ تُحِسُّ بِالْوَحْيِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، أَسْمَعُ صَلَاصِلَ، ثُمَّ أَسْكُتُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَمَا مِنْ مَرَّةٍ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا ظَنَنْتُ أَنَّ نَفْسِي تَفِيضُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ!! کیا آپ کو وحی کا احساس ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! مجھے گھنٹیوں کی آواز محسوس ہوتی ہے اس وقت میں خاموش ہوجاتا ہوں اور جتنی مرتبہ بھی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ہر مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب میری روح نکل جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، وعمرو بن الوليد مجهول. قوله : «أسمع صلاصل» له أصل فى الصحيح، خ:2 ، م:2333.
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن الحارث بن يزيد ، عن جندب بن عبد الله ، عن سفيان بن عوف ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، وطلعت الشمس، فقال:" ياتي الله قوم يوم القيامة، نورهم كنور الشمس"، فقال ابو بكر: انحن هم يا رسول الله؟ قال:" لا، ولكم خير كثير ولكنهم الفقراء والمهاجرون الذين يحشرون من اقطار الارض". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال:" طوبى للغرباء، طوبى للغرباء طوبى للغرباء"، فقيل: من الغرباء يا رسول الله؟ قال:" ناس صالحون في ناس سوء كثير، من يعصيهم اكثر ممن يطيعهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" يَأْتِي اللَّهَ قَوْمٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نُورُهُمْ كَنُورِ الشَّمْسِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَحْنُ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكُمْ خَيْرٌ كَثِيرٌ وَلَكِنَّهُمْ الْفُقَرَاءُ وَالْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ:" طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ، طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، فَقِيلَ: مَنْ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَاسٌ صَالِحُونَ فِي نَاسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت سورج طلوع ہو رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ اس طرح آئیں گے کہ ان کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ!! کیا وہ ہم لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”نہیں تمہارے لئے خیر کثیر ہے لیکن یہ وہ فقراء مہاجرین ہوں گے جنہیں زمین کے کونے کونے سے جمع کر لیا جائے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”کہ خوشخبری ہے غرباء کے لئے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برے لوگوں کے جم غفیر میں تھوڑے سے نیک لوگ، جن کی بات ماننے والوں کی تعداد سے زیادہ نہ ماننے والوں کی تعداد ہو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا حق نہ پہچانے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی اپنے حلہ میں متکبرانہ چال چلتا جا رہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیا اس نے اسے پکڑ لیا اور اب وہ قیامت تک اس میں دھنستا ہی رہے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن فضيل سمع من عطاء بعد الاختلاط.
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني اسامة ، ان عمرو بن شعيب حدثه، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني انزع في حوضي، حتى إذا ملاته لاهلي، ورد علي البعير لغيري فسقيته، فهل لي في ذلك من اجر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" في كل ذات كبد حرى اجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَنْزِعُ فِي حَوْضِي، حَتَّى إِذَا مَلَأْتُهُ لِأَهْلِي، وَرَدَ عَلَيَّ الْبَعِيرُ لِغَيْرِي فَسَقَيْتُهُ، فَهَلْ لِي فِي ذَلِكَ مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا میں اپنے حوض میں پانی لا کر بھرتا ہوں جب اپنے گھروالوں کے لئے بھر لیتا ہوں تو کسی دوسرے آدمی کا اونٹ میرے پاس آتا ہے میں اسے پانی پلا دیتا ہوں تو کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر حرارت والے جگہ میں اجر ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے اسے نیا وضو کر لینا چاہئے اور جو عورت اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ بھی نیا وضو کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عف?ان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي ايوب ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وقت صلاة الظهر إذا زالت الشمس، وكان ظل الرجل كطوله، ما لم تحضر العصر، ووقت صلاة العصر ما لم تصفر الشمس، ووقت صلاة المغرب ما لم يغب الشفق، ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل، ووقت صلاة الصبح من طلوع الفجر ما لم تطلع الشمس، فإذا طلعت فامسك، فإنها تطلع بين قرني شيطان او مع قرني شيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفّ?انُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَقْتُ صَلَاةِ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ، وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ، مَا لَمْ تَحْضُرْ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ فَأَمْسِكْ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ أَوْ مَعَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر کا وقت زوال شمس کے وقت ہوتا ہے جب کہ ہر آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہو اور یہ اس وقت تک رہتا ہے جس تک عصر کا وقت نہ ہو جائے عصر کا وقت سورج کے پیلا ہونے سے پہلے تک ہے مغرب کا وقت غروب شفق سے پہلے تک ہے عشاء کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے روئے زمین پر اور آسمان کے سائے تلے ابوذر رضی اللہ عنہ زیادہ سچا آدمی کوئی نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، وابو النضر ، قالا: حدثنا زهير ، عن إبراهيم بن مهاجر ، عن عبد الله بن باباه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت الاعمال، فقال:" ما من ايام العمل فيهن افضل من هذه العشر"، قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد؟ قال: فاكبره، قال:" ولا الجهاد، إلا ان يخرج رجل بنفسه وماله في سبيل الله، ثم تكون مهجة نفسه فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، وَأَبُو النَّضْرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذُكِرَتْ الْأَعْمَالُ، فَقَالَ:" مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ فِيهِنَّ أَفْضَلُ مِنْ هَذِهِ الْعَشْرِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ؟ قَالَ: فَأَكْبَرَهُ، قَالَ:" وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا أَنْ يَخْرُجَ رَجُلٌ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ تَكُونَ مُهْجَةُ نَفْسِهِ فِيهِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ اعمال کا تذکر ہ ہونے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دس ایام کے علاوہ کسی اور دن میں اللہ کو نیک اعمال اتنے زیادہ پسند نہیں جتنے ان ایام میں ہیں کسی نے پوچھا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں فرمایا: ”ہاں! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور واپس نہ آسکا یہاں تک کہ اس کا خون بہادیا گیا (راوی کہتے ہیں کہ " ان ایام " سے مرادعشرہ ذی الحجہ ہے)
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابو بكر ، عن ابي إسحاق ، عن السائب بن مالك ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: لما توفي إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسفت الشمس،" فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى ركعتين، فاطال القيام، ثم ركع مثل قيامه، ثم سجد مثل ركوعه، فصلى ركعتين كذلك، ثم سلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَسَفَتْ الشَّمْسُ،" فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ مِثْلَ قِيَامِهِ، ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ رُكُوعِهِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَذَلِكَ، ثُمَّ سَلَّمَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو سورج کو گہن لگ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور طویل قیام کیا پھر قیام کے برابر رکوع کیا تو پھر رکوع کے برابر سجدہ کیا اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا اور سلام پھیر دیا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اگر میں نے زہر کو دور کر نے کا تریاق پی رکھا ہو یا گلے میں تعویذ لٹکا رکھا ہو یا ازخود کوئی شعر کہا ہو تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبد الرحمن بن رافع التنوخي، قال البخاري: فى حديثه مناكير.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد ، قال: حدثنا حيوة ، قال: حدثني ربيعة بن سيف المعافري ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه راى فاطمة ابنته، فقال لها:" يا فاطمة، من اين اقبلت؟" قالت: اقبلت من وراء جنازة هذا الرجل، قال:" فهل بلغت معهم الكدى؟" قالت: لا، وكيف ابلغها وقد سمعت منك ما سمعت؟ قال:" والذي نفسي بيده، لو بلغت معهم الكدى ما رايت الجنة، حتى يراها جد ابيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ الْمَعَافِرِيُّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ رَأَى فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ، فَقَالَ لَهَا:" يا فاطمة، مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتِ؟" قَالَتْ: أَقْبَلْتُ مِنْ وَرَاءِ جَنَازَةِ هَذَا الرَّجُلِ، قَالَ:" فَهَلْ بَلَغْتِ مَعَهُمْ الْكُدَى؟" قَالَتْ: لَا، وَكَيْفَ أَبْلُغُهَا وَقَدْ سَمِعْتُ مِنْكَ مَا سَمِعْتُ؟ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ بَلَغْتِ مَعَهُمْ الْكُدَى مَا رَأَيْتِ الْجَنَّةَ، حَتَّى يَرَاهَا جَدُّ أَبِيكِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جا رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک خاتون پر پڑی ہم نہیں سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا ہو گا جب ہم راستے کی طرف متوجہ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں ٹھہر گئے جب وہ خاتون وہاں پہنچی تو پتہ چلا کہ وہ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہ تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا فاطمہ! تم اپنے گھر سے کسی کام سے نکلی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس گھر میں رہنے والوں کے پاس آئی تھی یہاں ایک فوتگی ہو گئی تھی تو میں نے سوچا کہ ان سے تعزیت اور مرنے والے کی دعاء رحمت کر آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ پھر تم ان کے ساتھ قبر ستان بھی گئی ہو گی؟ انہوں نے عرض کیا معاذاللہ کہ میں ان کے ساتھ قبرستان جاؤں جبکہ میں نے اس کے متعلق آپ سے جو سن رکھا ہے وہ مجھے یاد بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے ساتھ چلی جاتیں تو تم جنت کو دیکھ بھی نہ پاتیں یہاں تک کہ تمہارے باپ کا دادا اسے دیکھ لیتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ربيعة بن سبف المعافري.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کے آخر میں ایسے لوگ بھی آئیں گے جو مردوں سے مشابہ زینوں پر سوار ہو کر آیاکر یں گے اور مسجدوں کے دروازوں پر اترا کر یں گے ان کی عورتیں کپڑے پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی ان کے سروں پر بختی اونٹوں کی طرح جھولیں ہوں گی تم ان پر لعنت بھیجنا کیونکہ ایسی عورتیں ملعون ہیں اگر تمہارے بعد کوئی اور امت ہوتی تو تمہاری عورتیں ان کی عورتوں کی اسی طرح خدمت کر تیں جیسے تم سے پہلے عورتیں تمہاری خدمت کر رہی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبد الله بن عياش بن عباس القتباني ضعيف.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا ظلماً مارآ جائے اس کے لئے جنت ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے عمل کے ذریعے لوگوں میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا زكريا ، عن عامر ، سمعت عبد الله بن عمرو ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے کہ جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر ، عن ابيه ، حدثنا ابو العلاء ، عن مطرف ، عن ابن ابي ربيعة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: ذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم الصوم، فقال:" صم من كل عشرة ايام يوما، ولك اجر التسعة"، قال: فقلت: إني اقوى من ذلك، قال:" فصم من كل تسعة ايام يوما، ولك اجر الثمانية"، قال: فقلت: إني اقوى من ذلك، قال:" صم من كل ثمانية ايام يوما، ولك اجر تلك السبعة"، قال: قلت: إني اقوى من ذلك، قال فلم يزل حتى قال:" صم يوما وافطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: ذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّوْمَ، فَقَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَكَ أَجْرُ التِّسْعَةِ"، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَصُمْ مِنْ كُلِّ تِسْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَكَ أَجْرُ الثَّمَانِيَةِ"، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ ثَمَانِيَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَكَ أَجْرُ تِلْكَ السَّبْعَةِ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى قَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے روزے کے حوالے سے کوئی حکم دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھو تو نو کا ثواب ملے گا میں نے اس میں اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو تمہیں آٹھ کا ثواب ملے گا میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”تین روزے رکھو تمہیں سات روزوں کا ثواب ملے گا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل کمی کرتے رہے حتیٰ کے آخر میں فرمایا: ”روزہ رکھنے کا سب سے افضل طریقہ سیدنا داؤد علیہ السلام کا ہے اس لئے ایک دن ورزہ رکھا کرو اور ایک دن ناغہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: هذا الإسناد فيه جهالة ابن أبى ربيعة، لكنه يستقيم دونه، وهو صحيح بغير هذه السياقة.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" عقل شبه العمد مغلظة، مثل عقل العمد، ولا يقتل صاحبه، ومن حمل علينا السلاح فليس منا، ولا رصد بطريق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَةٌ، مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَمَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلَا رَصَدَ بِطَرِيقٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قتل شبہ عمد کی دیت مغلظ ہے جیسے قتل عمد کی دیت ہوتی ہے البتہ شبہ عمد میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور جو ہم پر اسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عرفہ کی شام اہل عرفہ کے ذریعے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو جو میرے پاس پرا گندہ حال اور غبار آلود ہو کر آئے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من قتل خطا، فديته مائة من الإبل، ثلاثون ابنة مخاض، وثلاثون ابنة لبون، وثلاثون جذعة، وعشرة بني لبون ذكران"، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقومها على اثمان الإبل، فإذا هانت نقص من قيمتها، وإذا غلت، رفع في قيمتها، على نحو الزمان ما كانت، فبلغت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين اربع مائة دينار إلى ثمان مائة دينار، او عدلها من الورق، ثمانية آلاف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قُتِلَ خَطَأً، فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، ثَلَاثُونَ ابْنَةَ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ ابْنَةَ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً، وَعَشَرَةُ بَنِي لَبُونٍ ذُكْرَانٍ"، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا هَانَتْ نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، وَإِذَا غَلَتْ، رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، عَلَى نَحْوِ الزَّمَانِ مَا كَانَتْ، فَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ، أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ، ثَمَانِيَةَ آلَافٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”خطاء قتل ہونے والے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں ٣٠ بنت مخاض ٣٠ بنت لبون ٣٠ حقے اور دس ابن لبون مذکر اونٹ شامل ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہروالوں پر اس کی قیمت چار سو دیناریا اس کے برابر چاندی مقرر فرماتے تھے اور قیمت کا تعین اونٹوں کی قیمت کے اعتبار سے کرتے تھے جب اونٹوں کی قیمت بڑھ جاتی تو دیت کی مقدار مذکور میں اضافہ فرما دیتے اور جب کم ہوجاتی تو اس میں بھی کمی فرما دیتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں یہ قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینارتک بھی پہنچی ہے اور اس کے برابر چاندی کی قیمت آٹھ ہزار درہم تک پہنچی ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ دیت کا مال مقتول کے ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،" قضى في الانف إذا جدع كله الدية كاملة، وإذا جدعت ارنبته نصف الدية، وفي العين نصف الدية، وفي اليد نصف الدية، وفي الرجل نصف الدية، وقضى ان يعقل عن المراة عصبتها من كانوا، ولا يرثوا منها إلا ما فضل عن ورثتها، وإن قتلت، فعقلها بين ورثتها، وهم يقتلون قاتلها، وقضى ان عقل اهل الكتاب نصف عقل المسلمين وهم اليهود، والنصارى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" قَضَى فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ كُلُّهُ الدِّيَةَ كَامِلَةً، وَإِذَا جُدِعَتْ أَرْنَبَتُهُ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَفِي الْعَيْنِ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَفِي الْيَدِ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَفِي الرِّجْلِ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَقَضَى أَنْ يَعْقِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ عَصَبَتُهَا مَنْ كَانُوا، وَلَا يَرِثُوا مِنْهَا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ، فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا، وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهَا، وَقَضَى أَنَّ عَقْلَ أهل الكتاب نِصْفُ عَقْلِ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر اسے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے تو پوری دیت واجب ہو گی اور اگر صرف نرم حصہ کاٹا ہو تو نصف دیت واجب ہو گی ایک آنکھ کی دیت نصف قرار دی ہے یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا چاندی یا سو گائے یا ہزاربکر یاں، نیز ایک پاؤں کی دیت بھی نصف اور ایک ہاتھ کی دیت بھی نصف قرار دی ہے۔ اور یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ عورت کی جانب سے اس کے عصبہ دیت ادا کر یں گے خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور وہ چیز کے وراث ہوں گے جو اس کی وراثت میں سے باقی بچے گی اور اگر کسی نے عورت کو قتل کر دیا ہو تو اس کی دیت اس کے ورثاء میں تقسیم کی جائے گی اور وہ اس کے قاتل کو قتل کر سکیں گے نیز یہ فیصلہ بھی فرمایا: ”کہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کی دیت مسلمانوں کی دیت سے نصف ہو گی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کر یں قیامت کے دن وہ اس پر حسرت و افسوس کر یں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن على خطأ فى تسمية صحابيه.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص کسی باغ میں داخل ہو کر خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھا لئے اور انہیں چھپا کر نہیں رکھا ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا محمد بن ابي الوضاح ، حدثني العلاء بن عبد الله بن رافع ، حدثنا حنان بن خارجة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: جاء اعرابي علوي جريء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اخبرنا عن الهجرة، إليك اينما كنت، او لقوم خاصة، ام إلى ارض معلومة، ام إذا مت انقطعت؟ قال: فسكت عنه يسيرا، ثم قال:" اين السائل؟" قال: ها هو ذا يا رسول الله، قال:" الهجرة ان تهجر الفواحش ما ظهر منها وما بطن، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، ثم انت مهاجر وإن مت بالحضر". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثم ثم قال عبد الله بن عمرو ، ابتداء من نفسه جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اخبرنا عن ثياب اهل الجنة، خلقا تخلق، ام نسجا تنسج؟ فضحك بعض القوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مم تضحكون؟ من جاهل يسال عالما؟!"، ثم اكب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" اين السائل؟" قال: هو ذا انا يا رسول الله، قال:" لا، بل تشقق عنها ثمر الجنة، ثلاث مرات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حَنَانُ بْنُ خَارِجَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَوِيٌّ جَرِيءٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الْهِجْرَةِ، إِلَيْكَ أَيْنَمَا كُنْتَ، أَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّةً، أَمْ إِلَى أَرْضٍ مَعْلُومَةٍ، أَمْ إِذَا مُتَّ انْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ يَسِيرًا، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" قَالَ: هَا هُوَ ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" الْهِجْرَةُ أَنْ تَهْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، ثُمَّ أَنْتَ مُهَاجِرٌ وَإِنْ مُتَّ بِالْحَضَرِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، ابْتِدَاءً مِنْ نَفْسِهِ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنَا عَنْ ثِيَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، خَلْقًا تُخْلَقُ، أَمْ نَسْجًا تُنْسَجُ؟ فَضَحِكَ بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِمَّ تَضْحَكُونَ؟ مِنْ جَاهِلٍ يَسْأَلُ عَالِمًا؟!"، ثُمَّ أَكَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" قَالَ: هُوَ ذَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" لَا، بَلْ تَشَقَّقُ عَنْهَا ثَمَرُ الْجَنَّةِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں ایک سخت طبیعت کا جری دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کی ہجرت کہاں کی جائے؟ آیا جہاں کہیں بھی آپ ہوں یا کسی معین علاقے کی طرف؟ یا یہ حکم ایک خاص قوم کے لئے ہے یا یہ کہ آپ کے وصال کے بعد ہجرت منقطع ہو جائے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیرتک سکوت فرمایا: ”پھر پوچھا کہ ہجرت کے متعلق سوال کر نے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ!! میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو تو تم مہاجر ہو خواہ تمہاری موت حضرمہ جو یمامہ کا ایک علاقہ ہے ہی میں آئے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے خود ابتداء کرتے ہوئے فرمایا: ”کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ جنتیوں کے کپڑے بنے جائیں گے یا جنت کا پھل چیر کر نکالے جائیں گے؟ لوگوں کو اس دیہاتی کے سوال پر تعجب ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے ایک ناواقف آدمی ایک عالم سے سوال کر رہا ہے۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اہل جت کے کپڑوں کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”کہ اہل جنت کے کپڑے جنت کے پھل سے چیر کر نکالے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حنان بن خارجة مجهول الحال.
(حديث مرفوع) حدثنا معمر بن سليمان الرقي ، حدثنا الحجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من مثل به او حرق بالنار، فهو حر، وهو مولى الله ورسوله"، قال: فاتي برجل قد خصي، يقال له: سندر، فاعتقه، ثم اتى ابا بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصنع إليه خيرا، ثم اتى عمر بعد ابي بكر، فصنع إليه خيرا، ثم إنه اراد ان يخرج إلى مصر، فكتب له عمر إلى عمرو بن العاص ان اصنع به خيرا، او احفظ وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مُثِّلَ بِهِ أَوْ حُرِّقَ بِالنَّارِ، فَهُوَ حُرٌّ، وَهُوَ مَوْلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ"، قَالَ: فَأُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ خُصِيَ، يُقَالُ لَهُ: سَنْدَرٌ، فَأَعْتَقَهُ، ثُمَّ أَتَى أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَنَعَ إِلَيْهِ خَيْرًا، ثُمَّ أَتَى عُمَرَ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، فَصَنَعَ إِلَيْهِ خَيْرًا، ثُمَّ إِنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى مِصْرَ، فَكَتَبَ لَهُ عُمَرُ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنْ اصْنَعْ بِهِ خَيْرًا، أَوْ احْفَظْ وَصِيَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کا مثلہ کیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے وہ آزاد ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کر دہ ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سندر نامی ایک آدمی کو لایا گیا جسے خصی کر دیا گیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا ذکر کیا انہوں نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو وہ پھر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا ذکر کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا فرمایا: ”ہاں! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے مصر جانا چاہا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گورنر سیدنا عمرو بن عاص کے نام اس مضمون کا خط لکھ دیا کہ اس کے ساتھ اچھاسلوک کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت یاد رکھنا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحجاج.
(حديث مرفوع) حدثنا معمر بن سليمان ، حدثنا الحجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، الرجل يغيب لا يقدر على الماء ايجامع اهله، قال:" نعم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَغِيبُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ أَيُجَامِعُ أَهْلَهُ، قَالَ:" نَعَمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ایک آدمی غائب رہتا ہے وہ پانی استعمال کر نے پر بھی قدرت نہیں رکھتا کیا وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کر سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحجاج.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن زياد بن فياض ، سمعت ابا عياض يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له:" صم يوما ولك اجر ما بقي"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" صم يومين ولك اجر ما بقي"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" صم ثلاثة ايام ولك اجر ما بقي"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" صم اربعة ايام ولك اجر ما بقي"، قال: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" صم افضل الصيام عند الله صم صوم داود، كان يصوم يوما ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ فَيَّاضٍ ، سَمِعْتُ أَبَا عِيَاضٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" صُمْ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ يَوْمَيْنِ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ أَفْضَلَ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے روزے کے حوالے سے کوئی حکم دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھو تو نو کا ثواب ملے گا میں نے اس میں اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”دو دن روزہ رکھو تمہیں آٹھ کا ثواب ملے گا میں نے مزید اضافے کی درخواست کی تو فرمایا: ”تین روزے رکھو تمہیں سات روزوں کا ثواب ملے گا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل کمی کرتے رہے حتیٰ کے آخر میں فرمایا: ”روزہ رکھنے کا سب سے افضل طریقہ سیدنا داؤدعلیہ السلام کا ہے اس لئے ایک دن رزہ رکھا کرو اور ایک دن ناغہ کیا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر ، قال: قال ابي : حدثنا الحضرمي عن القاسم بن محمد ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رجلا من المسلمين استاذن نبي الله صلى الله عليه وسلم في امراة يقال لها: ام مهزول، كانت تسافح، وتشترط له ان تنفق عليه، وانه استاذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم، او ذكر له امرها، فقرا النبي صلى الله عليه وسلم والزانية لا ينكحها إلا زان او مشرك سورة النور آية 3 قال انزلت والزانية لا ينكحها إلا زان او مشرك سورة النور آية 3، قال ابو عبد الرحمن هو عبد الله بن احمد: قال ابي: قال عارم: سالت معتمرا عن الحضرمي؟ فقال: كان قاصا، وقد رايته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : حَدَّثَنَا الْحَضْرَمِيُّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَأْذَنَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: أُمُّ مَهْزُولٍ، كَانَتْ تُسَافِحُ، وَتَشْتَرِطُ لَهُ أَنْ تُنْفِقَ عَلَيْهِ، وَأَنَّهُ اسْتَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ ذَكَرَ لَهُ أَمْرَهَا، فَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3 قَالَ أُنْزِلَتْ وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3، قَالَ أبو عَبْدُ الرَّحَمنِ هو عُبْدُ اللهَ بن احمد: قَالَ أَبِي: قَالَ عَارِمٌ: سَأَلْتُ مُعْتَمِرًا عَنِ الْحَضْرَمِيِّ؟ فَقَالَ: كَانَ قَاصًّا، وَقَدْ رَأَيْتُهُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " ام مہزول " نامی ا کی عورت تھی جو بدکاری کر تی تھی اور بدکاری کر نے والے سے اپنے نفقہ کی شرط کروا لیتی تھی ایک مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے قریب ہونے کی اجازت لینے کے لئے آیا یا یہ کہ اس نے اس کا تذکر ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ زانیہ عورت سے وہی نکاح کرتا ہے جو خودز انی ہو یا مشرک ہو۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الحضرمي.
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، سمعت الصقعب بن زهير يحدث، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم اعرابي، عليه جبة من طيالسة، مكفوفة بديباج، او مزرورة بديباج، فقال: إن صاحبكم هذا يريد ان يرفع كل راع ابن راع، ويضع كل فارس ابن فارس! فقام النبي صلى الله عليه وسلم مغضبا، فاخذ بمجامع جبته، فاجتذبه، وقال:" لا ارى عليك ثياب من لا يعقل"، ثم رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس، فقال:" إن نوحا عليه السلام لما حضرته الوفاة، دعا ابنيه، فقال: إني قاصر عليكما الوصية، آمركما باثنتين، وانهاكما عن اثنتين انهاكما: عن الشرك والكبر، وآمركما: بلا إله إلا الله، فإن السموات والارض وما فيهما لو وضعت في كفة الميزان، ووضعت لا إله إلا الله في الكفة الاخرى، كانت ارجح، ولو ان السموات والارض كانتا حلقة، فوضعت لا إله إلا الله عليها لفصمتها او لقصمتها، وآمركما بسبحان الله وبحمده، فإنها صلاة كل شيء، وبها يرزق كل شيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ الصَّقْعَبَ بْنَ زُهَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ طَيَالِسَةٍ، مَكْفُوفَةٌ بِدِيبَاجٍ، أَوْ مَزْرُورَةٌ بِدِيبَاجٍ، فَقَالَ: إِنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا يُرِيدُ أَنْ يَرْفَعَ كُلَّ رَاعٍ ابْنِ رَاعٍ، وَيَضَعَ كُلَّ فَارِسٍ ابْنِ فَارِسٍ! فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، فَأَخَذَ بِمَجَامِعِ جُبَّتِهِ، فَاجْتَذَبَهُ، وَقَالَ:" لَا أَرَى عَلَيْكَ ثِيَابَ مَنْ لَا يَعْقِلُ"، ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ، فَقَالَ:" إِنَّ نُوحًا عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، دَعَا ابْنَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي قَاصِرٌ عَلَيْكُمَا الْوَصِيَّةَ، آمُرُكُمَا بِاثْنَتَيْنِ، وَأَنْهَاكُمَا عَنِ اثْنَتَيْنِ أَنْهَاكُمَا: عَنِ الشِّرْكِ وَالْكِبْرِ، وَآمُرُكُمَا: بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا فِيهِمَا لَوْ وُضِعَتْ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ، وَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي الْكِفَّةِ الْأُخْرَى، كَانَتْ أَرْجَحَ، وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا حَلْقَةً، فَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَلَيْهَا لَفَصَمَتْهَا أَوْ لَقَصَمَتْهَا، وَآمُرُكُمَا بِسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ، وَبِهَا يُرْزَقُ كُلُّ شَيْءٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی آدمی آیا جس نے بڑا قیمتی جبہ جس پر دیباج و ریشم کے بٹن لگے ہوئے تھے پہنا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اس ساتھی نے تو مکمل طور پر فارس ابن فارس (نسلی فارسی آدمی) کی وضع اختیار کر رکھی ہے ایسالگتا ہے کہ جسے اس کے یہاں فارسی نسل کے ہی بچے پیدا ہوں گے اور چرواہوں کی نسل ختم ہو جائے گی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جبے کو مختلف حصوں سے پکڑ کر جمع کیا اور فرمایا: ”کہ میں تمہارے جسم پر بیوقوفوں کالباس نہیں دیکھ رہا؟ پھر فرمایا: ”اللہ کے نبی سیدنا نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ”کہ میں تمہیں ایک وصیت کر رہاہوں جس میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں حکم تو اس بات کا دیتاہوں کہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے رہنا کیونکہ اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھآ جائے اور لاالہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللہ والا پلڑا جھک جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک مبہم حلقہ ہوتیں تو لاالہ الا اللہ انہیں خاموش کر ا دیتا اور دوسرا یہ کہ و سبحان اللہ وبحمدہ کا ورد کرتے رہنا کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق ملتا ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی خائن مرد و عورت کی گواہی اور کسی ناتجربہ کار آدمی کی اپنے بھائی کے متعلق گواہی مقبول نہیں نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوکر کی گواہی اس کے مالکان کے حق میں قبول نہیں فرمائی البتہ دوسرے لوگوں کے حق میں قبول فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا ابو بشر ، عن يوسف بن ماهك ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: تخلف عنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرناها، قال: وادركنا وقد ارهقتنا الصلاة، صلاة العصر، ونحن نتوضا فجعلنا نمسح على ارجلنا، فنادى باعلى صوته مرتين او ثلاثا:" ويل للاعقاب من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: تَخَلَّفَ عَنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، قَالَ: وَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ، صَلَاةُ الْعَصْرِ، وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں پیچھے رہ گئے اور ہمارے قریب اس وقت پہنچے جبکہ نماز عصر کا وقت بالکل قریب آگیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے ہم اپنے اپنے پاؤں پر مسح کر نے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند دو تین مرتبہ فرمایا: ”ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے۔