الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث601 سے 800
502. عَلَيْكُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا تُطِيقُونَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا
ان اعمال کو لازم پکڑو جن کی تم طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ نہیں تھکتا تم تھک جاتے ہو
حدیث نمبر: 758
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
758 - اخبرنا عبد الرحمن بن عمر الصفار، ابنا احمد بن إبراهيم بن جامع، ثنا علي بن عبد العزيز، ثنا عبد الله بن مسلمة، ثنا عبد الله يعني ابن عمر العمري، عن المقبري , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليكم من الاعمال بما تطيقون فإن الله لا يمل حتى تملوا، وإن احب الاعمال إلى الله ادومها وإن قل» ورواه مسلم بن الحجاج عن إسحاق بن إبراهيم، ابنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن يحيى بن ابي كثير، ثنا ابو سلمة، عن عائشة رضي الله عنها ترفعه: «خذوا من الاعمال ما تطيقون فإن الله لن يمل حتى تملوا» 758 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الصَّفَّارُ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ الْعُمَرِيَّ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيْكُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا تُطِيقُونَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنَّ قَلَّ» وَرَوَاهُ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أبنا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، ثنا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَرْفَعُهُ: «خُذُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَمَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اعمال کو لازم پکڑو جن کی تم طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ نہیں تھکتا تم تھک جاتے ہو۔ اور بے شک اللہ کے نزدیک پسندیدہ اعمال وہ ہیں جن پر ہمیشگی ہو اگر چہ وہ تھوڑے ہی ہوں۔ اور اس حدیث کو مسلم بن حجاج نے اپنی سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، وہ مرفوعاً بیان کرتی ہیں: ان اعمال کو لازم پکڑو جن کی تم طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا، تم (عمل کرتے کرتے) تھک جاتے ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5861، عن عائشة ومسلم فى «صحيحه» برقم: 782، ومالك فى «الموطأ» برقم: 247، 635، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 353، 1578، والترمذي فى «جامعه» برقم: 439، 737، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1515، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 942، 1196، 1710، 4240، عن ابى هريرة، والحميدي فى «مسنده» برقم: 173، 183، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24707»

وضاحت:
تشریح: -
اس حدیث مبارک میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں:
① اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق عمل کرو، جس عمل کی طاقت نہ ہو اسے ہاتھ نہ ڈالو۔ عمل سے مراد نفلی عمل ہے۔ اپنی طاقت سے بڑھ کر کسی کام کو ہاتھ ڈالنا خود کو مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہے جس کی اسلام میں اجازت نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة: 286)
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
ایک مقام پر ارشاد ہے:
﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرة: 185)
اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔
ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج: 78)
اس نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
پتا چلا کہ دین اسلام بندے کو تنگی اور مشقت میں ڈالنے سے منع کرتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اس وقت میرے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: فلاں عورت اور اس کی نماز (کے اشتیاق اور پابندی) کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ (سنو) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے، اللہ کی قسم! اللہ (ثواب دینے سے) نہیں اکتا تا مگر تم (عمل کرتے کرتے) اکتا جاؤ گے اور اللہ کو دین کا وہی عمل پسند ہے جس پر ہمیشگی کی جائے۔ [بخاري: 43]
بڑی معروف حدیث ہے کہ تین صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے آپ کی ازواج میں سے کسی کے پاس آئے جب انہیں آپ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا: ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو اگلی پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا: آج سے میں ہمیشہ رات بھر قیام کیا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے جدائی اختیار کرلوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا: کیا تم نے ہی یہ یہ باتیں کی ہیں؟ سن لو! اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، میں تم سب سے زیادہ پر ہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار (ناغہ) بھی کرتا ہوں (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے منہ پھیر اوہ مجھ سے نہیں۔ [بخاري: 5063]
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ ایک رسی دوستونوں کے درمیان تنی ہوئی ہے، دریافت کیا کہ یہ کیسی رہی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے باندھی ہے جب وہ (نماز میں کھڑی کھڑی) تھک جاتی ہیں تو (اس رسی سے لٹکی رہتی ہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ رسی نہیں ہونی چاہیے، اسے کھول دو، تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ جب تک دل لگے نماز پڑھے تھک جائے تو بیٹھ جائے۔ [بخاري: 1150]
② اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی ہو اگر چہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یعنی عمل میں با قاعدگی اور پابندی ہی اصل کامیابی ہے اور اللہ تعالیٰ ٰ کو ایسا عمل ہی پسند ہے جس میں ہمیشگی اور تسلسل ہو۔ آج کیا کل چھوڑ دیا، ایسا عمل اللہ تعالیٰ ٰ کو قطعاً پسند نہیں، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی سیدنا عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کو تلقین فرمائی کہ تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا جو رات کو قیام کیا کرتا تھا لیکن پھر اس نے چھوڑ دیا۔ [بخاري: 1152]
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا: گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکونسا عمل زیادہ محبوب تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: جو دائمی ہو۔ [بخاري: 1132]

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.